یواین ہیومن رائٹس ہائی کمشنر کے دفتر نے حکومت ہند کو خط لکھکر اتر پردیش میں عدالتی حراست میں ہوئے قتلوں میں کارروائی کی مانگ کی ہے۔
نئی دہلی: اقوام متحدہ کے افسروں نے حکومت ہند کو اتر پردیش پولیس کے ذریعے عدالتی حراست میں قتل کے 15 معاملوں کی جانکاری کے ساتھ خط لکھا ہے۔ انہوں نے ممکنہ 59 فرضی انکاؤنٹر معاملوں کو بھی سنجیدگی سے لیا ہے۔ جمعہ کو ایک پریس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے افسروں نے اس پورے معاملے کو بےحد تشویشناک بتایا ہے۔
آفس آف دی ہائی کمشنر فار ہیومن رائٹس (او ایچ سی ایچ آر) کے افسروں نے بتایا کہ حکومت ہند نے ابھی تک ان کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا ہے اور ان کو ان قتل کے بارے میں مزید جانکاری حاصل ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے افسروں نے جن معاملوں کو لےکر حکومت ہند کو خط لکھا ہے ان میں متاثرین مسلم کمیونٹی کے لوگ شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے افسروں نے خط میں کہا ہے، ‘ ہم ان واقعات کی صورت سے فکرمند ہیں کہ متاثر ین کا قتل کرنے سے پہلے اس کو گرفتار کیا جا رہا ہے یا اس کا اغوا ہو رہا ہے۔ متاثرین کے جسم پر نشان اذیتوں کو بیان کر رہے ہیں۔ ‘ 2017 میں یوپی پولیس نے بتایا تھا کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کے چھے مہینوں میں 420 انکاؤنٹر ہوئے جس میں 15 لوگ مارے گئے۔ 2018 تک یوپی پولیس نے 1038 انکاؤنٹر کئے تھے جس میں 32 مارے گئے تھے۔
گزشتہ سال دی وائر نے اتر پردیش میں انکاؤنٹر میں ماری گئی 14 فیملی سے رابطہ کیا تھا، جس میں پولیس کی کہانی کو جھٹلاتے ہوئے فیملیوں نے تمام انکاؤنٹر کو منصوبہ بند قتل بتایا تھا۔ چھے مہینے پہلے او ایچ سی ایچ آر نے منی پور میں مبینہ فرضی انکاؤنٹر کو لےکر حکومت ہند کو خط لکھا تھا۔ منی پور معاملے میں سپریم کورٹ کی معینہ مدت کی ہدایت کے باوجود بھی جانچ پوری نہیں ہوئی۔
اس وقت انسانی حقوق تنظیم نے کہا تھا، ‘ ہم بےحد فکرمند ہیں کہ تاخیرجان بوجھ کر اور غیر مناسب معلوم ہوتی ہے۔ ہم معاملے میں حکومت کے رویے کی مذمت کرتے ہیں۔ ‘ اسی مہینے میں سپریم کورٹ میں ایک معاملہ سامنے آ سکتا ہے، جس میں یوپی انکاؤنٹر قتلوں کی عدالت کی نگرانی میں تفتیش کی مانگ کی جائےگی۔ سپریم کورٹ پہلے ہی منی پور کے انکاؤنٹر معاملوں کی تفتیش کی نگرانی کر رہی ہے۔
او ایچ سی ایچ آر کا کہنا ہے کہ ثبوتوں اور معاملوں کی صورت کے مطابق، یہ تمام معاملے حراست میں کیے گئے قتل کے معلوم ہوتے ہیں۔ پولیس اکثر ان معاملوں میں موت کی وجہ انکاؤنٹر یا سیلف پروٹیکشن بتاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کئی معاملوں میں انڈین سکیورٹی فورسیز کے انسانی رویہ اور سکیورٹی فورسیز کے ذریعے شہریوں کے قتل کی جانچکے حکم دیے ہیں۔
او ایچ سی ایچ آر کے ماہر ‘ پیپلس یونین آف سول لبرٹیج بنام اسٹیٹ آف مہاراشٹر ‘ (2014) معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت ہند اس معاملے میں طےشدہ ہدایتوں پر عمل نہیں کر رہی ہے کہ کیسے تفتیش کی جائے۔ مثال کے طور پر 2014 کے اس معاملے میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ پولیس کو فیملی کے ممبروں کو قتل کے بارے میں مطلع کرنا ہوگا، ان کو پوسٹ مارٹم رپورٹ دینی ہوگی اور معاملوں کو آزادانہ جانچ ایجنسیوں کو منتقل کرنا ہوگا۔ او ایچ سی ایچ آر ماہرین کا ماننا ہے کہ ان ہدایتوں پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس متاثرین کے قتل سے پہلے ان کو رہا کرنے کے لئے رشتہ داروں سے پیسے کی مانگ کرتی ہے ،ایسی جانکاری ان کو حاصل ہوئی ہے۔ وہ اس بات سے بھی فکرمند ہیں کہ فیملی کے ممبروں اور انسانی حقوق کارکنوں کو پریشان کیا جا رہا ہے اور ان کو دھمکایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ موت کی دھمکی اور جھوٹے معاملوں میں پھنسانے کے امکان کا ڈر دکھایا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے افسروں کا کہنا ہے کہ ان انکاؤنٹر میں ہوئے قتل کا فوراً تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ پتا چل سکے کہ وہ عالمی معیارات کے مطابق ہیں۔ ان اموات کی فوری طور پر آزاد انہ ایجنسی کے ذریعے تفتیش کی جانی چاہیے، تاکہ ان معاملوں میں کارروائی کی جائے۔ انہوں نے فیملی اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے لوگوں کی حفاظت کا بھی دھیان رکھنے کو کہا ہے۔
او ایچ سی ایچ آر افسر حکومت اور پولیس افسروں کے ذریعے دیے گئے بیانات سے بھی فکرمند ہیں، جو قتلوں کو صحیح ٹھہرانے، مناسب ٹھرانے یا منظوری دینے کے لیے وضاحت دیتے ہیں۔
Categories: خبریں