بہتری اسی میں ہے کہ حقائق سے انکار کے بجائے اس مسئلے کے حل کی سبیل کی جائے۔کوئی ایسا حل جو تمام فریقوں کے لئے قابل قبول ہو، تاکہ برصغیر میں امن و خوشحالی کے دن لوٹ سکیں۔
یوں تو کشمیر میں ماہ جنوری ہر سال کئی خونچکاں یادوں کے ساتھ وارد ہوتا ہے، جس میں گاوٗ کدل، مگھرمل باغ، ہندوارہ اور برسہلا (ڈوڈہ) میں ہوئے قتل عام شامل ہیں، مگر 6 جنوری1993کا دن تجارتی مرکز سوپور کے لیے ایک ایسی قیامت تھی، جو بھلائے بھی نہیں بھلائی جاسکتی۔ دسمبر 1992کو ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ دارالحکومت دہلی کے کئی علاقے بھی فسادات کی زد میں آگئے تھے۔
صحافت کے ابتدائی دن تھے۔ سوچا کہ سوپور میں گھر پر والدین کے ساتھ چند روز گذار کر آؤں ، تاکہ حالات کسی حدتک بہتر ہوجائیں۔ دہلی سے جموں تک بذریعہ ٹرین، پھر موسم سرما میں برف باری اور رکاوٹوں سے پر جموں ۔سرینگر ہائی وے کا تکلیف دہ سفر اور پھر سرینگر سے سوپور تک سکیورٹی چک پوسٹوں پر تلاشیاں وغیرہ عبور کرتے ہوئے گھر پہنچا تو خاصی رات ہوچکی تھی۔اگلے روز شاید صبح نو بجے کا وقت ہوگا، جب کہیں دور سے دھماکے کی آواز سنائی دی۔
مجھے یاد ہے اس ہولناک دن یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں۔ آسمان ابر آلود تھا، گویا کسی غیر یقینی صورتحال کی عکاسی کر رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ نیوکالونی میں ایک آئی ای ڈی پھٹ گئی ہے۔ پھر کہیں قریب سے ہی ایک فائر کی آوازبھی سنائی دی۔ 1990میں عسکریت کے آغاز کے بعد سوپور اور اسکے اطراف خاصے متاثر تھے، اس لئے اس طرح کے واقعات عام تھے ۔ میں نے دیکھا کہ کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ تاجر حضرات دوکانیں کھولنے کے لئے مین مارکیٹ اور ڈیوٹی دینے والے دفتروں یا بس اڈہ کی طرف رواں تھے۔
اسی دورا ن دریائے جہلم کی دوسری طرف فائرنگ کی متواتر آوازوں کے ساتھ چیخ و پکار بھی سنائی دینے لگی۔ چند ساعتوں کے بعد آگ کی لپٹیں نظر آنا شروع ہوگئیں، جو جلد ہی آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ ان کی تپش جہلم کے دوسری طرف بھی اب محسوس ہو رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ نیم فوجی تنظیم بارڈر سکیورٹی فورس(بی ایس ایف) کی 94 ویں بٹالین، شہر کے مرکز میں آگ و خون کی ہولی کھیل رہی ہے۔ آرم پورہ، مسلم پیر، کرالہ ٹینگ، شالہ پورہ اور شاہ آباد کے علاقے آگ کے حوالے کئے گئے ہیں۔
کئی گھنٹوں تک قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ رات گئے تک قصبہ کو فوج کے حوالے کیا گیا۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ 75 معصوم افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا تھا۔ کئی افراد کو زندہ جلایا گیا تھا۔ جبکہ 400 سے زائد رہائشی و تجارتی عمارات اور زنانہ کالج کو راکھ کے ڈھیرمیں تبدیل کر دیا تھا۔ مہلوکین میں ہمارے محلہ کے آس پاس کے ایک درجن افراد شامل تھے۔ لاشوں کی شناخت، ان کو ڈھونا اور نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے بازو شل ہوگئے ۔ شہر کو دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے نسیم حجازی کا ناول ’آخری چٹان‘ میں تاتاریوں کی بربریت کی داستان صفحہ قرطاس سے نکل کر حقیقت کا روپ دھار گئی ہو۔
سنگینوں کے سائے میں لوگ بکھری ہوئی لاشوں کو اکھٹا کررہے تھے۔ بین کرتی ہوئی خواتین اپنے پیاروں کی باقیات گرم راکھ کو کرید کر ڈھونڈ رہی تھیں۔ ایک دوست عبدالحمید اپنے ایک ٹیلر دوست کو ڈھونڈ رہا تھا۔ جلی ہوئی دکان کے اندر اس کو بس چند ہڈیاں ہی مل پائیں ، جنہیں اس نے اپنے فرن میں باندھ کر لپیٹ لیا۔ دکان سے باہر آکر بی ایس ایف کے ایک آفیسر نے فرن کھولنے اور باقیات دکھانے کا حکم دیا۔ جس پر خاصی گرما گرمی جاری تھی، کہ ہجوم کو دیکھ کر آفیسر نے اس کوجانے دیا۔ اسپتال میں قیامت کا منظر تھا۔ کلمہ اور درود کا ورد کرتے ہوئے شدید زخمی افراد زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔
جھیل وولر کے دھانہ پر دریائے جہلم کے دونوں کناروں پر واقع اس شہر کو غالباً 880 میں راجا اونتی ورمن کے ایک دانا وزیر سویہ نے بسایا اور نام سویہ پور دیا، جو بعد میں سوپور ہوگیا۔ کشمیر کے لئے اس قصبہ کی وہی اہمیت رہی ہے، جو ہندوستان کے لئے ممبئی یا پاکستان کے لئے کراچی کی ہے۔ یہ نہ صرف شمالی کشمیر کے لئے راہداری ہے، بلکہ خطے کے اکثر متمول گھرانوں اور معروف کاروباری شخصیات کا تعلق بھی اسی قصبہ سے رہا ہے۔ جب آس پاس کی زمینیں زرخیز ہوں اور باشندوں کی گھٹی میں تجارتی فراست اور محنت شامل ہو، تو اس علاقے کا فی کس آمدنی کی شرح میں اول آنا لازمی تھا۔
اسی لئے سوپورکو ‘چھوٹا لندن‘ کی عرفیت اور اعلیٰ سیبوں کے مرکز کے نام سے بھی یاد کیا جاتا رہا ہے۔1989 کے آواخر میں جب ہندوستانی حکومت نے جگموہن کو گورنر بنا کر بھیجا تاکہ عسکری تحریک، جو ابھی ابتدا میں ہی تھی ،کو لگام لگائی جا سکے، تو اس کی تجویز تھی کہ سب سے پہلے آزادی پسند حلقوں اور تحریک کو ملنے والی فنڈنگ کی روک تھام ہونی چاہیے۔ جگموہن نے جو بعد میں مرکز میں وزیر بھی رہے، اس سلسلے میں خاص طور پر سوپور کی نشاندہی کی۔
ان کا خیال تھا کہ اگر سوپور میں تجارتی سرگرمیوں کو نشانہ بنایا جائے یا ان کی کڑی نگرانی کی جائے تو یہ قصبہ تحریک کی مالی معاونت کے قابل نہیں رہے گا۔ اس سلسلے میں جگموہن نے ہندوستانی وزارت داخلہ کو یہ بھی مشورہ دیا کہ دہلی کی آزاد پور فروٹ منڈی کے آڑھتیوں کو قائل کرایا جائے کہ وہ اس علاقے سے سیبوں کی خرید بند یا کم کر دیں۔ دہلی میں بھی پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ اگر سیاسی آگہی کے اس مرکز کو صدیوں پہلے چانکیہ کی تجویزکی ہوئی پالیسی سام (گفتگو) دھام (لالچ)، ڈھنڈ ( سزا) اور بھید (بلیک میل) سے قابو کر لیا جائے، تو بقیہ ریاست سے بھی تحریک کا آسانی سے صفایا ہو سکتا ہے۔ابھی تک آٹھ بار اس شہر کے مختلف علاقوں کو جلا کر اقتصادی لحاظ سے اس کو بے دست و پا کرنے کو کوشش کی گئی ہے۔
جب آگ و خون کا کھیل شروع ہوا تو بانڈی پورہ جانے والی ایک مسافر بس اس وقت وہاں سے گزر رہی تھی، یہ بس مسافروں کے لئے تابوت بن گئی۔ جموں و کشمیر سول سوسائٹی کے ذریعے جمع کی گئی تفصیلات کے مطابق اس واقعہ سے کئی روز قبل نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن عبد الاحد کنجوال کے گھر جاکر چند فوجیوں نے ان کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس علاقے سے ہجرت کر جائیں، جس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ قتل عام کی پہلے سے ہی منصوبہ بندی کرلی گئی تھی اور یہ فقط ایک وقتی اشتعال نہیں تھا۔
بانڈی پورہ سے آنے والی موٹر کار میں ایک فیملی سفر کر رہی تھی، ایک اہلکار نے ان کے شیرخوار بچے کو ہوا میں لہرا کر آگ کے حوالے کر دیا۔جب اس بچے کی ماں بین کرنے لگی، تو بقیہ افراد کو بھی گولیوں سے نشانہ بناکر تڑپتے ہوئے آگ میں دھکیل دیاگیا۔خون کی اس ہولی کے اگلے روز بی ایس ایف کے اس وقت کے سربراہ پرکاش سنگھ قصبہ میں وارد ہوئے اور معززین شہر کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ قتل گاہ کا معائنہ کرتے ہوئے اس نے پنجابی میں اہلکاروں سے مخاطب ہوکر کہا کہ کس کس پنجابی شیر نے بازو آزمانے میں پوری کسر نکال دی! ایک اوباش اہلکار نے فخراً بتایا کہ اس نے کئی افراد کو ہلاک کیا ہے۔
پرکاش سنگھ نے سب کے سامنے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔ قرون وسطیٰ کی وہ تاریخ شاید دہرائی جارہی تھی، جب منگول حکمران چنگیز خان جنگ کے میدا ن کا معائنہ کرتے ہوئے لاشوں کے مینار دیکھ کر جرنیلوں کو شاباشی دیتا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پرکاش سنگھ اس وقت ہندوستان میں پولیس میں اصلاحات اور فورسز میں انسانی حقوق کے تئیں بیدار ی لانے کے بڑے نقیب ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن بھی دائر کی ہوئی ہے اور مختلف اخبارات میں پولیس ریفارمز پر لکھتے رہتے ہیں۔
کئی روز بعد دہلی سے مرکزی وزراء مکھن لال فوطیدار،غلام نبی آزاد کانگریس کی ریاستی شاخ کے صدر مرحوم غلام رسول کارکی معیت میں وارد ہوئے اور ہر ممکن امداد فراہم کرنے کاوعدہ کیا۔ لیکن سوپور کے باشندوں نے حکومتی امداد قبول نہیں کی، بلکہ عوامی سطح پر جو ریلیف جمع کیا گیا تھا، وہی متاثرین میں تقسیم ہوا۔ انشورنس کمپنیوں نے بھی منہ موڑ لیا جس کے بعد اس وقت کے مرکزی وزیر خزانہ اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی مداخلت کے بعد انشورنس کمپنیوں نے معاوضہ واگزار کرنے کا یقین دلایا تاہم یہ وعدہ بھی ایفا نہ ہو سکا۔
مقامی تجارتی انجمن نے عدالت سے رجوع کر کے انشورنس کمپنیوں سے معاوضہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی مگر چند ہی دکاندارخوش نصیب نکلے۔ عوامی دباؤکے تحت حکومت نے 94 بٹالین بی ایس ایف کے کمانڈنٹ کو پانچ دیگر اہلکاروں سمیت معطل کیا۔ 9 جنوری کو واقعے کی جوڈیشیل انکوائری کے احکامات بھی صادرکئے گئے اور 30 جنوری کوجسٹس امر سنگھ چودھری کو تحقیقاتی آفیسر مقرر کیا گیا۔ اس تحقیقاتی عمل کو کبھی آگے بڑھایا نہ جاسکا بلکہ دوسال گزر جانے کے بعد کمیشن کو تحلیل کر دیاگیا۔
محکمہ قانون، جسٹس چودھری کو مسلسل لکھتا آیا کہ وہ ریاست بالخصوص سرینگر کا گرمیوں میں دورہ کریں تاکہ گواہ، جن میں سینئر افسران شامل ہیں،کے بیانات قلمبند کئے جاسکیں۔ وہ سرینگر آنے سے گریزاں رہے تاہم جموں آنے پر آمادگی ظاہر کی اور گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے لئے 15سے17دسمبر 1993 کا وقت دیا۔کمیشن کی میعاد جو پہلے ہی ختم ہوچکی تھی 30جنوری 1994 تک بڑھا دی گئی۔ کمیشن کی میعاد بڑھتے ہی جسٹس چودھری نے مجوزہ دورہ پھر منسوخ کردیا اور اطلاع دی کہ سماعت کی اگلی تاریخ سے ریاستی حکومت کو مطلع کیاجائے گا۔
اس کے بعد کمیشن نے مطلع کیا کہ وہ اپنی کارروائی 21 سے25 مارچ تک جموں میں چلائے گا اور خواہش ظاہر کی کہ گواہوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے علاوہ کمیشن کے عملے کی سکیورٹی کا معقول بندوبست کیاجائے گا۔ لیکن یہ دورہ بھی منسوخ کر دیاگیا اور اطلاع دی گئی کہ اب وہ سماعت مارچ 1994کے دوسرے ہفتے میں کرے گا۔ وہ اس کے بعد بھی وعدے سے مکر گیا اور یوں اپریل 1994میں کمیشن کی میعاد پھر ختم ہوگئی۔ چیف سکریٹری نے فائل میں اپنے تاثرات کچھ یوں لکھے: ‘ہمیں یہ ڈرامہ ختم کرنا چاہیے ،گزشتہ 15ماہ سے کوئی سماعت نہیں ہوئی‘۔
ریاستی چیف سکریٹری بی کے گوسوامی نے 18اپریل 1995کومرکزکے داخلہ سکریٹری کے پدمنا بھیا کو لکھا: ‘کمیشن کی جانب سے جموں میں سماعت کا انعقاد عوامی مفاد میں پہلے ہی نہیں تھا لیکن اس کے بعد کمیشن کا رویہ سراسر حوصلہ شکن رہا اور تین ماہ میں انکوائری مکمل نہ کرنے سے لوگوں میں حکومت کے اعتبارکو شدید زک پہنچی ہے‘۔ گوسوامی نے پدمنا بھیا کے نام مزید لکھاکہ کمیشن کے قیام کا مقصد فوت ہو چکا ہے اور اب اسے تحلیل کر دینا چاہیے لیکن کوئی کارروائی کرنے سے قبل ہم سارا ماجرا حکومت ہند کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں۔ اس خط کے بعد مذکورہ کمیشن کا باب بند کردیا گیااور ہمیشہ کے لئے انصاف کو دفن کردیا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ بعد میں ایک سب انسپکٹر اور دو اسسٹنٹ سب انسپکٹروں کو معطل کیا گیاجبکہ 94 بٹالین کو سوپور سے ہٹاکر پلوامہ تبدیل کیا گیا، جہاں انہوں نے لوگوں کو سوپور سانحہ کی دھمکیاں دیں، جس کے بعد انہیں راجستھان منتقل کر دیا گیا۔ اس سانحہ سے متعلق دو کیس پولیس اسٹیشن سوپور میں درج کئے گئے تھے اور وہاں سے23 جنوری کو انہیں تحقیقات کے لئے سی بی آئی کو سونپا گیا۔
سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق دوران تحقیقات انہوں نے عینی گواہوں اور مقامی لوگوں کے بیانات لینے کی از حد کوشش کی تاہم کسی بھی زخمی یا کسی گواہ نے بی ایس ایف اہلکاروں کی شناخت نہیں کی اور نہ ہی مطلوبہ معلومات فراہم کیں جس کے نتیجہ میں اس سانحہ میں ملوث لوگوں کی نشاندہی ناممکن بن گئی اور یہ پتا نہ چل سکا کہ کس نے عام لوگوں کی جان لی اور آتشزدگی کے لئے کون ذمہ دار ہے۔
تقریباً چوتھائی صدی بیت چکی ہے۔ مگر دل پر لگے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ جب تک ہندوستان اور پاکستان دشمنی کی راہ ترک کرکے خطے میں پائیدار امن و خوشحالی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے اقدامات نہیں گریں گے تب تک سوپور جیسے قتل عام ہوتے رہیں گے اور ایسے زخم ہرے ہوتے رہیں گے۔یہ حقیقت بہر حال تسلیم کرنی پڑے گی کہ ان تمام المیوں کا ماخذ کشمیرکا حل طلب مسئلہ ہے۔
لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ حقائق سے انکار کے بجائے اس مسئلے کے حل کی سبیل کی جائے۔کوئی ایسا حل جو تمام فریقوں کے لئے قابل قبول ہو، تاکہ برصغیر میں امن و خوشحالی کے دن لوٹ سکیں۔ سوپور کے شہیدوں کے لئے بھی یہ ایک طرح سے خراج عقیدت ہوگی ۔ اس ہنگامہ خیز بستی کی رونقیں بھی لوٹ آئیں گی اور بعید نہیں کہ یہ شہر عالم مشرق کا نیو یارک اور لندن بن کر سیاست اور تجارت کا محور بن جائے۔
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر