فکر و نظر

ہرین پانڈیا قتل معاملہ : شروعاتی جانچ کرنے والے پولیس افسر اس کی دوبارہ تفتیش کیوں چاہتے ہیں؟

بطور وزیراعلیٰ نریندر مودی کے 13 سال کی مدت  کے دوران ہوئے ان سلجھے قتلوں  اور انکاؤنٹروں  میں ہرین پانڈیا کا قتل کئی معنوں میں سب سے بڑی پہیلی ہے۔ اس معاملے کی دوبارہ جانچ کئے جانے میں جتنی تاخیر  کی جائے‌گی، ا س کے سراغوں کے پوری طرح سے تباہ ہو جانے کے امکانات  بڑھتے جائیں گے۔

ہرین پانڈیا (فائل فوٹو، السٹریشن : دی وائر)

ہرین پانڈیا (فائل فوٹو، السٹریشن : دی وائر)

احمد آباد:  بی جے پی رہنما ہرین پانڈیا کے پراسرار قتل کی تفتیش سی بی آئی کو سونپے جانے اور سی بی آئی کے ذریعے اس پورے معاملے کو ‘ کمزور کئے جانے ‘ سے پہلے، اس کی شروعاتی تفتیش کی قیادت  کرنے والے گجرات پولیس کے افسر کا اب ماننا ہے کہ اس قتل کی نئے سرے سے تفتیش کئے جانے کی ضرورت ہے، تاکہ اصلی گناہ گاروں کی پہچان کی جا سکے اور ان کو سزا دی سکے۔ وزیراعلیٰ کے طور پر نریندر مودی کے 13 سال کے مدت  کے دوران ہوئے تمام ان سلجھے قتلوں  اور انکاؤنٹروں  میں پانڈیا کا قتل کئی معنوں میں سب سے بڑی پہیلی ہے۔

حکمراں جماعت کے ایک مقبول عام رہنما اور ریاست کے سابق وزیر داخلہ پانڈیا کو مودی کے ذریعے حاشیے پر ڈال دیا گیا تھا اور انہوں نے 2002 کے مسلم مخالف فسادات میں ریاستی حکومت کے ملوث  ہونے کی جانچ‌کر رہے ایک آزاد ٹریبونل کے سامنے گواہی دی تھی۔ 26 نومبر، 2003 کو ان کا بے جان جسم شہر کے لاء گارڈن کے ٹھیک باہر ان کی گاڑی میں ملا تھا۔ حالانکہ، ان کی کار ایک بھیڑبھرے چوراہے پر ملی تھی، لیکن کسی نے بھی گولیوں کے چلنے کی آواز نہیں سنی تھی، سوائے اس اکلوتے گواہ کے جس کو بعد میں گجرات ہائی کورٹ  نے غیر بھروسہ مند قرار دیا۔

سی بی آئی نے اس جرم کے لئے 12 مسلموں پر مقدمہ چلایا اور ایک دہشت گرد مخالف عدالت میں ان کومجرم  ثابت کر دیا۔ لیکن سی بی آئی کے دعوے اتنے ناممکن قسم کے تھے کہ 2011 میں گجرات ہائی کورٹ  نے نہ صرف تمام ملزمین کو رہا کر دیا بلکہ تفتیش کے خراب معیار کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ احمد آباد میں اپنی رہائش گاہ پر دی وائر سے بات کرتے ہوئے گجرات پولیس کے سابق ڈی ایس پی وائی اے شیخ نے اس فیکٹ  کی طرف دھیان دلایا کہ گجرات ہائی کورٹ  نے اصل میں تفتیشی  افسروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

YA-Shaikh-Gujarat-Police

سابق ڈی ایس پی وائی اے شیخ

ہائی کورٹ  نے اپنے حکم میں لکھا تھا، ‘ موجودہ معاملے کے ریکارڈوں سے یہ صاف پتا چلتا ہے کہ شری ہرین پانڈیا کے قتل کے معاملے کی جانچ  کو قدم قدم پر کمزور کیا گیا، آنکھوں پر پٹی باندھ لی گئی اور کئی سوالوں کو بغیرجواب کے چھوڑ دیا گیا۔ متعلقہ تفتیشی افسروں کو ان کی ناکامی / نااہلی کے لئے جواب دہ ٹھہرایا جانا چاہیے، جس کا نتیجہ ناانصافی، کئی متعلقہ اشخاص پر سخت  ظلم و ستم اور عوامی وسائل اور عدالتوں کے  وقت کی بہت بڑی بربادی کے طور پر نکلا ہے۔ ‘

اس معاملے میں سی بی آئی کے چیف جانچ افسر وائی سی مودی تھے۔ 2017 میں مودی نے ان کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کاچیف بنایا۔ یہ قبول  کرتے ہوئے کہ اس معاملے کے بنیادی حقائق-پانڈیا کا جسم جس حالت  میں پایا گیا، ان کو لگی گولی کے زخم  اور کار میں خون کے دھبوں کا نہ ہونا-اور سی بی آئی کے دعووں میں فرق تھا، وائی اے شیخ نے کہا کہ ایجنسی کے لئے مناسب یہی ہوتا کہ وہ نئے سرے سے قتل کی پھر سے جانچ  کرتی۔

لیکن ہائی کورٹ  کی تنقید کو کوئی توجہ دینے کے بجائے، سی بی آئی نے نومبر 2011 میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا فیصلہ لیا۔ سپریم کورٹ  میں اس مہینے اس معاملے کی سماعت ہونی ہے، لیکن پچھلے نومبر کو ایک غیر متعلق نظر آنے والے معاملے میں ایک گواہ کے ذریعے کئے گئے سنسنی خیز انکشاف کا سایہ اس معاملے میں دی جانے والی دلیلوں اور جوابی دلیلوں پر پڑنا ضروری ہے۔

ونجارہ کے خلاف سپاری لےکر قتل کا الزام

3 نومبر کو سہراب الدین-کوثر بی-پرجاپتی قتل معاملے میں استغاثہ کے گواہ اعظم خان نے یہ بیان دیا کہ سہراب الدین نے ان سے کہا تھا کہ گجرات پولیس کے سینئر افسر ڈی جی ونجارہ  نے پانڈیا کا قتل کرنے کی سپاری دی تھی۔ اپنے بیان میں خان نے کہا کہ ‘ سہراب الدین کے ساتھ بات چیت کے دوران اس نے (سہراب الدین نے) یہ کہا کہ اس کو نعیم خان، شاہد رامپوری کے ساتھ گجرات کے ہرین پانڈیا کو مارنے کی سپاری ملی اور انہوں نے ان کا قتل کر دیا۔ مجھے دکھ ہوا اور میں نے سہراب الدین سے کہا کہ انہوں نے ایک اچھے انسان کا قتل کر دیا ہے۔ اس کے بعد سہراب الدین نے مجھے بتایا کہ اس کو یہ سپاری ونجارہ نے دی تھی۔ ‘

حالانکہ خان نے یہ کھلی عدالت میں کہا کہ پانڈیا کو مارنے کا حکم اوپر بیٹھے لوگوں کی طرف سے آیا تھا-‘ اوپر سے یہ کام دیا گیا تھا ‘-لیکن جج ایس جے شرما نے  ریکارڈ کی سرکاری نقل سے ان الفاظ کو ہٹا دیا۔ خان نے کہا کہ اس کے بعد سہراب الدین نے پرجاپتی اور ‘ ایک دوسرے لڑکے ‘ کو یہ کام سونپا۔ کورٹ کے دستاویز کے مطابق پوچھ تاچھ کے دوران اس نے بتایا، ‘ میں نے سی بی آئی افسر کے سہراب الدین سے ادئےپور میں اس کے گھر پر ہوئی بات چیت اور سہراب الدین کے کہنے پر تلسی رام اور ایک لڑکے کے ذریعے شری ہرین پانڈیا کے قتل کے بارے میں بتایا… ‘

کیا گولی پرجاپتی نے چلائی تھی؟

خان کے اس بیان نے کہ ونجارہ، سہراب الدین اور پرجاپتی پانڈیا کے قتل میں شامل تھے اور گولی پرجاپتی نے چلائی تھی، کئی سوالوں کو جنم دے دیا ہے۔ اس نے نہ صرف پانڈیا کے قتل کے پیچھے سیاسی سازش کی قیاس آرائیوں  کو پھر سے زندہ کر دیا ہے، بلکہ اس نے ونجارہ اور گجرات پولیس کے ذریعے سہراب الدین اور پرجاپتی کے قتل کے پیچھے ایک نئے ارادے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے-اس بات کا ڈر کہ یہ دونوں پانڈیا کے قتل کے راز کو سامنے لا سکتے ہیں۔

پانڈیا کے معاملے میں ایک تفصیل   جس طرف ابتک دھیان نہیں دیا گیا ہے، بھی یہاں اہمیت رکھتی ہے۔ انل یاد رام نامی ایک وینڈر-مقدمہ کے دوران سی بی آئی نے جس کو پانڈیا کے قتل کا واحد چشم دید ہونے کا دعویٰ کیا تھا-کے ذریعے مہیا کرائی گئی تفصیل کی بنیاد پر کرائم برانچ نے مبینہ شوٹروں کا ایک اسکیچ تیار کیا تھا۔

ٹرائل کورٹ میں یہ اسکیچ کسی کام کا نہیں نکلا اور جج سونیا گوکانی نے خود یہ کہا تھا کہ جس اصغر علی کو سی بی آئی گولی چلانے والا بتا رہی تھی، اس سے یہ کسی بھی طرح سے نہیں ملتا تھا۔ لیکن یہ دلچسپ ہے کہ یہ اسکیچ تلسی رام پرجاپتی سے کافی ملتا جلتا ہے، جس کو اعظم خان نے پانڈیا کا قاتل بتایا۔

(بائیں) واحد چشم دید کی گواہی کی بنیاد پر پولیس کے ذریعے جاری کیا گیا شوٹر کا اسکیچ، دائیں-اعظم خان کے ذریعے پانڈیا کا شوٹر تلسی رام پرجاپتی۔ 2006 میں پرجاپتی کی ایک پولیس انکاؤنٹر میں موت ہو گئی/ (ذرائع: کورٹ ریکارڈس)

(بائیں) واحد چشم دید کی گواہی کی بنیاد پر پولیس کے ذریعے جاری کیا گیا شوٹر کا اسکیچ، دائیں-اعظم خان کے ذریعے پانڈیا کا شوٹر تلسی رام پرجاپتی۔ 2006 میں پرجاپتی کی ایک پولیس انکاؤنٹر میں موت ہو گئی/ (ذرائع: کورٹ ریکارڈس)

دی وائر نے جب ان دونوں تصویروں کو شروعاتی جانچ افسر  شیخ کے ساتھ شیئر  کیا، تب انہوں نے دونوں میں مساوات کو قبول کیا، لیکن وہ اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں دے سکے کہ آخر ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ پولیس آرٹسٹ اے اے چوہان نے گواہ کے ذریعے مہیا کرائی گئی تفصیلات کی بنیاد پر اسکیچ تیار کیا تھا اور ان کو اس اسکیچ کے ہونے کے بارے میں جانکاری مقدمہ کے دوران ہی ملی۔ یہ مساوات خاص طور پر اس لئے بھی عجیب ہیں ، کیونکہ پانڈیا کے قتل کے وقت پرجاپتی مبینہ طور پر مدھیہ پردیش کی ایک جیل میں تھے۔

شیخ، جن کو پولیس کنٹرول روم کے ذریعے شوٹنگ کی اگلی صبح جائے  واردات پر بھیجا گیا تھا، کے پاس تفتیش کا ذمہ صرف دو دنوں کے لئے رہا۔ انہوں نے ان لوگوں کے بیانات کو درج کیا جنہوں نے سب سے پہلے پانڈیا کی لاش کو دیکھا تھا، اور ان کے موبائل فون کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ انہوں نے یہ سن‌کر کہ ایک وینڈر اس شوٹنگ کا چشم دید گواہ ہو سکتا ہے، اس سے رابطہ کیا۔

ایک چشم دید کے طور پر  پیش ہونے سے پہلے ہی وینڈر یاد رام کا رویہ  عجیب تھا۔ اسی کی تفصیل کے مطابق، اس نے صبح 7:30 بجے گولی چلتے ہوئے دیکھی تھی۔ حالانکہ گولی چلانے والے بھاگ کھڑے ہوئے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یاد رام نے یہ دیکھنے کی زحمت نہیں اٹھائی کہ متاثر زندہ تھا یا مردہ، نہ ہی اس نے پولیس کو فون کیا۔

اس کی جگہ وہ بھی واردات کے مقام سے نکل گیا اور مبینہ طور پر اس نے بعد میں اپنے مالک کو کسی کو گولی مارے جانے کے بارے میں بتایا۔ جب پانڈیا کے ملازم واردات کے مقام پر پہنچے تب کہیں جاکر کسی نے پولیس کنٹرول روم میں فون کیا۔ تب تک 10:30-10:40 کا وقت ہو چکا تھا اور اس وقت بھی پی سی آر کو ٹھیک ٹھیک یہ معلوم نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے اور کس کے ساتھ ہوا ہے۔ شیخ کو کنٹرول روم سے ملا پیغام بس اتنا تھا کہ ‘ کچھ گڑبڑ ہے، جاکر پتا لگائیے کہ کیا چل رہا ہے۔ ‘

دو دن کے بعد معاملہ سی بی آئی کے پاس چلا گیا اور شیخ اس سے ہٹ گئے۔ دو ہفتے کے اندر سی بی آئی نے اس معاملے کو سلجھا دینے کا اعلان کر دیا۔ اس نے اصغر نامی ایک نوجوان کو قتل کا ملزم بتاتے ہوئے کچھ اور لوگوں کو اس سازش میں شامل بتایا اور یہ کہا کہ ایک مقامی مذہبی رہنما مفتی سفیان کے کہنے پر انہوں نے اس جرم کو انجام دیا۔

جس وقت سی بی آئی اس معاملے کو سلجھا رہی تھی، اسی بیچ  وہ مذہبی رہنما ریاست چھوڑ‌کر مبینہ طور پر پاکستان بھاگ گیا اور تب سے اس کا کوئی پتہ نہیں چلا ہے۔ کئی ہفتوں کے بعد اس کی فیملی بھی اچانک لاپتہ ہو گئی، جبکہ وہ پولیس کی نگرانی میں تھی۔

بغیرجواب کے سوالوں کی لمبی فہرست

پانڈیا کے معاملے میں تلسی رام پرجاپتی سے ملتے جلتے کسی آدمی کا اچانک ٹپک پڑنا، اس قتل معاملے کے ارد-گرد جمع کئی رازوں میں سے محض ایک راز ہے۔ ٹرائل کورٹ کے فیصلے اور بچاؤ فریق  کے وکیل کی دلیلوں کا تجزیہ کرنے کے بعد ہائی کورٹ  اس نتیجہ پر پہنچی کہ اس قتل معاملے  سے جڑے اہم سوالوں کا جواب ابھی تک نہیں ملا ہے۔

یہ ابھی تک ایک راز ہے کہ آخر گولی کب چلی تھی؟ ساتھ ہی اپنی ماروتی 800 کار کے اندر پانڈیا کی لاش جس عجیب حالت  میں پائی گئی وہ بھی کئی سوال کھڑا کرتی ہے۔ میڈیا میں آئی خبروں کے مطابق، ان کے پاؤں تقریباًا سٹیرنگ وہیل کو چھو رہے تھے۔ ملی گولیوں کی تعداد اور ان گولیوں کی وجہ سے ہوئے زخم کی فطرت بھی سی بی آئی کے ذریعے کی گئی وضاحت سے میل نہیں کھاتی تھی۔

 بر آمد گولیاں کورٹ میں پیش کی گئی بندوق کی نہیں تھیں۔ ساتھ ہی  حقیقت  یہ بھی ہے کہ ادئےپور سے-جہاں سہراب الدین رہ رہا تھا-ایک اور بندوق بر آمد کی گئی تھی، جس کو کبھی بھی کورٹ کے علم میں نہیں لایا گیا۔ اس کے علاوہ ایک حقیقت کہ کار میں ایک بوند کے علاوہ کہیں بھی کوئی خون نہیں پایا گیا، جو اس حقیقت کے باوجود تھا کہ ایک گولی پانڈیا کے خصیہ میں لگ‌کر اوپر کی طرف گئی تھی۔

 اس گولی کا راستہ طبیعیات کے تمام اصولوں کے خلاف تھا، کیونکہ سی بی آئی کے ذریعے پیش چشم دید گواہ نے کہا تھا کہ بندوق والے نے باہر سے کار کے دروازے کے شیشہ کی صرف تین انچ کی درار سے گولیاں چلائیں تھیں۔

اس تعلق سے  ہائی کورٹ کا تبصرہ غور طلب ہے :

شیشہ کی کھلی ہوئے درار کو سائنسی طریقے سے ناپنے ‌کے بعد زیادہ سے زیادہ تین انچ پایا گیا اور (چشم دید گواہ کے ذریعے) یہ تصدیق کی گئی کہ پانڈیا پر کار کے باہر سے گولیاں چلائی گئیں تھیں۔ ایسے میں میڈیکل ثبوت واحد چشم دید گواہ کے ذریعے دی گئی تفصیل کو عملی طور پر ناممکن ثابت کر دیتے ہیں کیونکہ میڈیکل ثبوت سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے، کم سے کم (خصیہ میں آیا) زخم اس اونچائی اور اینگل  سے حملہ آور کے ہتھیار سے کئے گئے حملے کا نتیجہ نہیں ہو سکتا ہے، جبکہ مرنے والا  کار کی سیٹ پر بیٹھا ہوگا یا پہلی جان لیوا گولی کے چلنے کے چند سیکنڈ کے اندر ہی بغل کی سیٹ پر لڑھک رہا ہوگا۔

کار میں پراسرار طریقے سے خون کے نشان نہ ہونے پر کورٹ نے کہا :

قتل کا راز ریکارڈ میں درج اس حقیقت سے اور گہرا گیا ہے کہ شری پانڈیا کی کار میں ڈرائیور کی سیٹ کی قریب والی سیٹ سے ایک نامعلوم سے خون کے دھبے کے علاوہ اور کوئی خون کا نشان نہیں پایا گیا، جبکہ ان کے کپڑے یہ بتاتے تھے کہ گلے اور بانہہ پر لگے زخم سے کافی مقدار میں خون بہا تھا ؛ اور اس سیٹ کے نیچے کار کے فرش پر پڑے موبائل فون اور چابیوں پر خون کے دھبے تھے۔

بر آمد کی گئی گولیوں سے دو ہتھیاروں اور دو قاتلوں کے ہونے کا امکان کافی زیادہ نظر آتا  ہے۔ کار میں خون کے نشان کا نہ ہونا، جبکہ پانڈیا کے جسم سے واضح طور پر کافی خون بہا تھا، یہ اشارہ دیتا ہے کہ ان کا قتل کار میں نہیں کسی اور جگہ کیا گیا تھا اور قتل کے بعد ان کے جسم کو ان کی کار میں ڈال دیا گیا تھا۔ ایسا کیوں کیا گیا اور کن لوگوں نے کیا، اس کا جواب صرف مناسب جانچ  سے دیا جا سکتا ہے-جو سی بی آئی نے کبھی کی نہیں۔

سہراب الدین اور عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر معاملے کو لےکر ارون جیٹلی کے ذریعے 2013 میں اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ایک غصہ سے بھرے خط میں، جیٹلی نے یہ شکایت کی تھی کہ ‘ (پانڈیا) کے معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی ‘ کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا تھا، ‘ اقتدار کے گلیاروں میں کانگریس کے سینئر  وزراء کے ذریعے اتنے وقت کے بعد بی جے پی کے رہنماؤں کو پھنسانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے… سی بی آئی پر اپنی ہی جانچ  کو غلط ٹھہرانے کا دباؤ بنایا جا رہا ہے۔ ‘

پانڈیا کے معاملے کو’ سیاسی بنانے ‘  کی بات تو دور، کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت نے ہی ملزمین کو بری کرنے کے ہائی کورٹ  کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی۔ اور پانڈیا کے قتل کے ملزم 12 لوگوں کو بری کرتے ہوئے گجرات ہائی کورٹ  نے بغیر کسی لاگ-لپیٹ‌کے یہ کہا کہ سی بی آئی کی تفتیش نہ صرف ناقص تھی، بلکہ ‘ بند آنکھوں والی ‘ اور ‘ نااہل ‘ بھی تھی۔

عام لفظوں  میں کہیں، تو ہائی کورٹ  نے یہ پایا کہ پانڈیا کے قتل کی جو کہانی سی بی آئی پیش کر رہی ہے، اس طرح سے ان کا قتل نہیں ہو سکتا۔ اس نے یہ بھی پایا کہ تفتیش میں بےشمار سراغوں کو نظرانداز کر دیا گیا۔ ساتھ ہی پانڈیا کے ملازمین‎ کو اس بارے میں گواہی دینے کی بھی اجازت نہیں دی گئی کہ ان کو پانڈیا کی لاش کس حالت میں ملی تھی۔

جرم کے بعدکے 15 سالوں میں پانڈیا کے والد، ان کی بیوہ، گجرات کے کئی بی جے پی رہنما اور اب اس معاملے کے شروعاتی تفتیشی افسر، سب نے سی بی آئی کی تفتیش کی Sheer improbability پر سوال اٹھائے ہیں۔ اس معاملے کی دوبارہ تفتیش کئے جانے میں جتنی تاخیر کی جائے‌گی، ا س کے سراغوں کے  پوری طرح سے تباہ ہو جانے کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔ شاید سی بی آئی جو صاف طور پر کئی جانکاریوں کو بتانے سے زیا دہ چھپا رہی ہے ، یہی ہونے کی امید کر رہی ہے۔

Categories: فکر و نظر

Tagged as: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,