خبریں

بہار: جرائم میں ہو رہا ہے اضافہ،یہ محض اپوزیشن کا الزام نہیں پولیس کے اعداد و شمار بھی یہی کہتے ہیں

خصوصی رپورٹ:2016 سے موازنہ کریں تو گزشتہ دو سالوں میں تقریباً ہر طرح کے سنگین جرائم میں اضافہ ہوا۔مثلاً2016 میں اوسطاً ہر مہینے 215 قتل ہوئے مگر اس کے بعد 2017 میں یہ اوسط پہلے سے بڑھ‌کر 234 ہوا اور 2018 میں یہ اوسط 250 کے اعداد و شمار کو بھی پارکر گیا۔

فوٹو : انڈین ایکسپریس

فوٹو : انڈین ایکسپریس

بہار میں مہاگٹھ بندھن کے مقابلے این ڈی اے-2 کی حکومت میں لگاتار  جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ قانون کی حکومت کمزور پڑ رہی ہے۔ یہ محض اپوزیشن  کا الزام بھر نہیں ہے۔ بہار پولیس کے اعداد و شمار بھی کچھ اسی طرح کے حقائق پیش کرتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2017 کے مقابلے گزشتہ  سال صوبے میں تقریباً ہر طرح کے سنگین جرائم میں اضافہ ہوا۔ بہار پولیس نے سال 2018 کے لئے حالانکہ اب تک اکتوبر تک کے ہی اعداد و شمار جاری کئے ہیں لیکن متناسب طور پر 2018 کے دس مہینوں کے جرائم کے اعداد و شمار ہی 2017 کے 12مہینوں کے اعداد و شمار پر بھاری پڑ رہے ہیں۔

جیسے کہ سال 2017 میں اوسطاً ہر مہینے 234 قتل ہوئے جبکہ 2018 میں یہ اوسط بڑھ‌کر 252 ہو گیا۔ سال 2017 میں ریپ کے کل 1198 معاملے سامنے آئے تھے جبکہ 2018 کے 10مہینوں میں ہی ریپ کی 1304 واردات ہوئیں۔ اسی طرح ڈکیتی کو چھوڑ چوری، اغوا، تاوان کے لئے اغوا، ڈکیتی جیسی واردات کو بھی 2017 کے مقابلے 2018 زیادہ تعداد میں انجام دیا گیا۔

ایس سی/ایس ٹی کے خلاف ہونے والے جرائم بھی 2017 کے مقابلے 2018 میں بہت بڑھے۔ جیسے کہ 2017 میں ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے تحت قتل کے 46 معاملے درج ہوئے تھے مگر 2018 میں اگست تک ہی ایسے 59 معاملے درج ہو چکے تھے۔ سال 2017 میں اس ایکٹ کے تحت ریپ کے 53 معاملے درج ہوئے تھے مگر 2018 میں اگست تک ایسے 43 معاملے درج ہو گئے۔

2016 سے موازنہ کریں تو گزشتہ دو سالوں میں تقریباً ہر طرح کے سنگین جرائم میں اضافہ ہوا۔مثلاً2016 میں اوسطاً ہر مہینے 215 قتل ہوئے مگر اس کے بعد 2017 میں یہ اوسط پہلے سے بڑھ‌کر 234 ہوا اور 2018 میں یہ اوسط 250 کے اعداد و شمار کو بھی پارکر گیا۔ اسی طرح سال 2016 میں ریپ کے 1008 معاملے سامنے آئے تھے مگر 2017 میں ریپ کے کل 1198 معاملے سامنے آئے اور 2018 کے تو 10مہینوں میں ہی ریپ کے 1304 معاملے ہوئے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بہار میں مہاگٹھ بندھن کے مقابلے  این ڈی اے-2 کی حکومت میں جرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

جرائم کے نئے طریقے

اس کے علاوہ صوبے میں جرائم کی نئی نئی صورتیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ شراب بندی کو روکنے والے پولیس افسروں کے گھر سے بڑی مقدار میں شراب بر آمد ہو رہی ہے۔ پولیس والے ہی شراب کی ہوم ڈلیوری کرتے ہوئے پکڑے جا رہے ہیں۔گزشتہ11 مہینے میں پٹنہ ضلع میں 15 اے ٹی ایم کاٹنے کی واردات ہوئی ہیں جن میں قریب ایک کروڑ 15 لاکھ روپے کی لوٹ ہوئی۔ جولائی، 2018 میں تو سیلاب زدہ علاقے کے این ٹی پی سی تھانہ علاقے میں مجرم 12 لاکھ نقد کے ساتھ اے ٹی ایم ہی اکھاڑ‌ کر لے گئے تھے۔ شراب بندی کے بعد مجرم بینک کے نقد وین، سبزی کی ٹرک سے لےکر ایمبولینس تک کا استعمال شراب اسمگلنگ کے لئے کر رہے ہیں۔

بھیڑ کا فرقہ وارانہ چہرہ

سپریم کورٹ نے گزشتہ سال جولائی میں ماب لنچنگ کے واقعات پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوریت میں بھیڑتنتر کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سپریم کورٹ نے ریاستی حکومتوں کو سخت حکم دیا کہ وہ آئین کے مطابق کام کریں۔ لیکن 2018 میں بہار میں ماب لنچنگ کے واقعات بھی گزشتہ  کچھ سالوں کے مقابلے سب سے زیادہ سامنے آئیں۔ ہندوستان ٹائمس کے مطابق گزشتہ سال ستمبر تک 19 لوگوں کی موت ماب لنچنگ  میں ہوئی جو کہ گزشتہ 6 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔اس سال اب تک ایک مہینہ بھی نہیں بیتا ہے اور 4لوگوں کی موت ماب لنچنگ میں ہو چکی ہے۔

Crime_Bihar_HindustanTimes

ہندوستان ٹائمس، پٹنہ / 19 جنوری 2019

ماب لنچنگ جیسے جرم کا ایک اور تشویشناک پہلو گزشتہ  سال بہار میں سامنے آیا تھا۔ صوبے میں اب تک ماب لنچنگ کے معاملوں میں بھیڑ کا کوئی فرقہ وارانہ چہرہ نہیں ہوتا تھا۔ مگر گزشتہ  سال ایسا تب ہوا جب دشہرہ کے بعد 20 اکتوبر کو بہار کے سیتامڑھی میں بھیڑ نے 80 سال کے ایک بزرگ زین الانصاری کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ دراصل سیتامڑھی میں مبینہ طور پردرگا  وسرجن کا جلوس ایک ایسے علاقے سے نکالا گیا جو انتظامیہ کی نظروں میں حساس تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وسرجن جلوس پر پتھراؤ کی خبر آئی اور پھر مورتی وسرجن کے لئے دوسرے راستے سے لے جائی گئی۔ لیکن اس کی خبر جیسے ہی شہر کے دیگر حصوں میں پھیلی، بڑی تعداد میں لوگوں نے حساس علاقے کے ایک محلے پر حملہ کر دیا۔ دونوں طرف سے پتھراؤ ہوا۔ ان سب کے درمیان وسرجن کے بعد لوٹتی بھیڑ نے 80 سال کے ایک بزرگ زین الانصاری کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ یہی نہیں ثبوت مٹانے کے لئے لاش کو جلانے کی کوشش کی گئی۔

رہنماؤں کی گرفتاری کے بجائے سرینڈر

حال کے سالوں میں بہار پولیس کی تنقید اس بات کو لےکر رہ رہ کر ہوتی رہی ہے کہ سرخیوں میں رہنے والے ایسے معاملوں میں وہ ملزم کو گرفتار نہیں کر پاتی جس میں ملزم کسی پارٹی کا رہنما ہو۔ ایسے معاملوں میں ملزم عدالت میں سرینڈر کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ  سال بھی ایسا بہار کی سابق وزیر منجو ورما اور ان کے شوہر چندرشیکھر ورما کے معاملے میں دیکھا گیا جنہوں نے آرمس ایکٹ میں قریب تین مہینے تک فرار رہنے کے بعد عدالت میں سرینڈر کیا۔ ان کا گرفتار نہیں ہونا لگاتار گفتگو کا موضوع  بنا ہوا تھا کیونکہ اس معاملے پر سپریم کورٹ نے بہار حکومت اور پولیس کو دو-دو بار پھٹکار لگائی تھی۔

دراصل 2015 کے اسمبلی انتخابات کے بعد نتیش کمار نے مہاگٹھ بندھن اور این ڈی اے دونوں ہی اتحاد کی حکومت کی رہنمائی کی اور دلچسپ یہ کہ دونوں ہی حکومتوں کے دوران حکمراں اتحاد کے رہنماؤں پر جب جب سنگین الزام لگے تب انہوں نے ملزم ہونے کے کئی دنوں، ہفتوں یا مہینوں کے بعد خود سپردگی کی۔ یہ حالت موجودہ حکومت کو کٹہرے میں کھڑی کرتی ہے۔ ایسے میں بہار حکومت پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ رسوخ دار ملزمین کو عدالت سے راحت لینے کا پورا موقع دیتی ہے اور اس میں ناکام رہنے پر ملزم سرینڈر کرتے ہیں۔

شراب بندی اور جرائم

قریب ایک مہینے پہلے گنجن کھیمکا  قتل معاملہ بہار میں لگاتار موضوع بحث  بنا ہوا تھا ۔ بہار کے بڑے کاروباری گنجن کا 20 دسمبر کو حاجی پور میں دن دہاڑے گولی مار‌کر قتل کر دیا گیا تھا۔ واقعہ کے کچھ دیر بعد بہار میں اپوزیشن کے رہنما تیجسوی یادو نے ٹوئٹ کر کے بہار حکومت کو نشانے پر لیا تھا۔ اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے یہ لکھا تھا کہ نتیش جی آپ کی شراب بندی اور بالوبندی کے ہینگ اوروں نے بہار کو برباد کر دیا ہے۔

Crime-Bihar-TejashwiTweet

دراصل تیجسوی اپنے ٹوئٹ میں یہ اشارہ کر رہے تھے کہ شراب بندی کے بعد بہار پولیس کا دھیان جرائم سے زیادہ شراب کی ضبطی پر ہے اور اس سبب بہار میں مجرم قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ جانکاروں کا بھی ماننا ہے اور حزب مخالف کا بھی یہ الزام ہے کہ شراب بندی کے بعد بہار پولیس کا دھیان جرائم کو قابو کرنے سے زیادہ شراب ضبطی پر ہے اور اس سبب بہار میں مجرم قابو سے باہر اور غریب پریشان ہو رہے ہیں۔

2005 میں جب پہلی بار این ڈی اے نے لالو یادو کی پارٹی کو اقتدار سے باہر کیا تھا تب اس نے مبینہ جنگل راج ختم کرنے کے وعدے پر بھی عوام کا بھروسہ جیتا تھا۔ اس کے بعد سے ہی نتیش حکومت بہتر نظم و نسق کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کو اپنا یو ایس پی بتاتی رہی ہے۔ جرائم کے ہر بڑے معاملے کے بعد بہار حکومت اور حکمراں جماعت اپنا یہ بیان دوہراتی ہے کہ بہار میں قانون کی حکومت ہے اور یہاں نہ قصوروار کو بچایا جاتا ہے اور نہ بےقصور کو پھنسایا جاتا ہے۔ لیکن بہار میں ہو رہے جرائم اور اس کے سرکاری اعداد و شمار نتیش حکومت کے بہترین حکومت اور قانون کی حکومت کے دعویٰ پر سنگین سوال کھڑے کر رہے ہیں۔