خبریں

ایودھیا معاملہ کی شنوائی کے لیے چیف جسٹس نے نئی بنچ کی تشکیل کی

اس سے پہلے ایودھیا میں متنازعہ رام جنم بھومی -بابری مسجد معاملے کی سماعت  سے  جسٹس یو یو للت نے خود کو  الگ کر لیاتھا۔معاملے کی شنوائی 29 جنوری سے شروع ہو رہی ہے۔

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: ایودھیا میں متنازعہ رام جنم بھومی -بابری مسجد معاملے کی شنوائی کے لیے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے نئی آئینی بنچ کی تشکیل کی ہے۔ بنچ میں 2 نئے جج شامل کیے گئے ہیں۔ جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبدالنذیرکو پھر ایودھیا معاملے کی شنوائی والی بنچ میں شامل کیا گیا ہے۔29 جنوری سے ہونے والی شنوائی کرنے والی آئینی بنچ میں چیف جسٹس رنجن گگوئی ، جسٹس بوبڑے اور جسٹس چندر چوڑ بھی ہوں گے۔ غور طلب ہے کہ اس سے پہلے جسٹس یو یو للت نے خود کو ایودھیا معاملے کی سماعت سے الگ کر لیاتھا۔

دراصل اس معاملے کے ایک فریق  سنی وقف بورڈ کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل راجیو دھون نے کورٹ میں کہا تھا کہ آئینی بنچ کے جج جسٹس یو یو للت نے وکیل رہتے ہوئے  بابری مسجد سے متعلق ایک ہتک عزت  کے معاملے میں اتر پردیش کے سابق وزیراعلیٰ کلیان سنگھ کی طرف سے پیروی کی تھی۔انہوں نے کہا تھا، ‘ میں صرف آپ کے علم میں یہ بات لا رہا ہوں۔ ہمیں اس بات سے کوئی اعتراض نہیں ہے کہ وہ اس معاملے کی سماعت کریں‌گے۔ یہ پوری طرح سے آپ کے اوپر منحصر ہے۔ ‘

 راجیو دھون کے ذریعے کورٹ میں یہ جانکاری دینے کے بعد چیف  جسٹس رنجن گگوئی نے بتایا  تھاکہ جسٹس یو یو للت نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی سماعت کے لئے آئینی بنچ کا حصہ نہیں ہوں‌گے۔ اس طرح یو یو للت نے خود کو اس معاملے کی سماعت سے الگ کر لیا تھا۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ  29 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ رام جنم بھومی-بابری مسجد زمین کے مالکانہ حق تنازعہ معاملے میں دائر اپیلوں کو جنوری، 2019 میں ایک مناسب بنچ کے سامنے پیش  کیا جائے گا۔ زمین تنازعہ معاملے میں یہ اپیل الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی ہے۔ مناسب بنچ  معاملے میں اپیل پر سماعت کی تاریخ طے کرے‌گی۔

چیف جسٹس نے کہا تھا، ‘ ہم جنوری میں مناسب بنچ کے سامنے ایودھیا تنازعہ معاملے کی سماعت کی تاریخ طے کریں‌گے۔ ‘ اس سے پہلے تین ججوں کی ایک بنچ نے 2:1 کی اکثریت سے 1994 کے اپنے فیصلے میں مسجد کو اسلام کا لازمی حصہ نہ  ماننے سے متعلق تبصرہ پر نظرثانی کا مدعا 5 رکنی آئینی بنچ کے پاس بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔

ایودھیا زمین تنازعہ معاملے کی سماعت کے دوران یہ مدعا اٹھا تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بنچ نے تب کہا تھا کہ دیوانی اصول پر ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے‌گا۔ بنچ نے یہ بھی کہا تھا کہ اس معاملے میں پچھلے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف کل 14 اپیلیں دائر ہیں۔ ہائی کورٹ نے چار دیوانی مقدموں پر اپنے فیصلے میں 2.77 ایکڑ زمین کو تینوں فریق ،وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑا اور رام للا کے درمیان برابر برابر تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔

حال ہی میں خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو دیے ایک انٹرویو میں، وزیر اعظم نریندر مودی نے واضح کیا تھا کہ رام مندر مدعے پر ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری  کرنے کا کوئی بھی فیصلہ تب تک نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ عدالتی عمل ختم نہیں ہو جاتا ہے۔ مودی نے کہا تھا، ‘ عدالتی عمل کو ختم ہونے دیں۔ عدالتی عمل ختم ہونے کے بعد حکومت کے طور پر ہماری ذمہ داری جو بھی ہوگی، ہم سبھی کوشش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے بی جے پی کے مینی فسٹو میں کہا ہے کہ اس مدعے کا حل آئین کے دائرے میں ڈھونڈ لیا جائے گا۔