ایس بی آئی افسروں نے کہا کہ یو آئی ڈی اے آئی کے حفاظتی نظام میں کئی خامیاں ہیں، جو ہیک کرنے اور کئی اسٹیشن آئی ڈی بنانے کو ممکن بناتا ہے۔ ہم نے اتھارٹی سے اپیل کی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ اپنے سسٹم کو زیادہ شفاف بنانے اور ڈیٹا بیس کو زیادہ محفوظ بنانے کے لئے کام کریں۔
نئی دہلی : اسٹیٹ بینک آف انڈیا(ایس بی آئی) کے افسروں نےیو آئی ڈی اے آئی کے ڈیٹا کے غلط استعمال ہونے کے اپنے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، بینک کے افسروں نے یو آئی ڈی اے آئی کو بتایا کہ فرضی آدھار بنانے کے لئے ان کے آدھار آپریٹروں کی لاگ ان اور بایومیٹرک پہچان کا غلط استعمال ہوا ہے۔یو آئی ڈی اے آئی نے ان خدشات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ آدھار پوری طرح محفوظ ہے۔ بایومیٹرک یا دیگر کسی طرح کی حفاظت سے کوئی چھیڑچھاڑ نہیں ہوئی ہے۔
یہ پورا مدعا ایس بی آئی کو دئے گئے آدھار نامزدگی کے ہدف سے جڑا ہوا ہے۔ چنڈی گڑھ حلقے میں اس کام کی ذمہ داری ایس بی آئی نے دو وینڈروں ایف آئی اے ٹکنالوجی سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ اور سنجیونی کنسلٹینٹس پرائیویٹ لمیٹڈ کو دی۔ چنڈی گڑھ علاقے کے تحت ہریانہ، پنجاب، ہماچل پردیش، جموں و کشمیر اور یونین ٹیریٹری چنڈی گڑھ آتے ہیں۔
حالانکہ، ان ایجنسیوں کے تحت کام کرنے والے تقریباً 250 ملازمین میں سے تقریباً آدھے ملازمین پر یو آئی ڈی آئی اے نے جرمانہ لگایا اور تمام ملازمین کوبلیک لسٹ کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ایس بی آئی کی آدھار نامزدگی کاعمل پوری طرح سے ٹھپ پڑ گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایس بی آئی اپنا ہدف پورا کرنے میں ناکام ہو گئی اور اس پر جرمانہ لگ گیاہے۔متاثرین میں سے ایک 40 سالہ وکرم ہیں جو ایس بی آئی برانچ میں آدھار آپریٹر کے طور پر 10 ہزار روپے کی ماہوار تنخواہ پر ہریانہ کی جند ضلع کے اچنا گاؤں میں کام کرتے تھے۔ 26 دسمبر، 2018 کو وکرم پر 33 لاکھ روپے سے زیادہ کا جرمانہ لگایا گیا۔
یو آئی ڈی اے آئی کے مطابق، وکرم نے 9 نومبر سے 17 نومبر کے درمیان اپنی آئی ڈی کا استعمال کرکے فرضی دستاویزوں کے سہارے آدھار کارڈ بنائے تھے۔ یہ پورا فرضی واڑا 143 ڈیوائس کا استعمال کرکے کیا گیا تھا۔ آدھار نامزدگی کے لئے استعمال ہونے والے لیپ ٹاپ، ڈیسک ٹاپ یا ٹیبلیٹ جیسی ہر ڈیوائس یو آئی ڈی اے آئی کے ساتھ درج ہوتی ہے اور ایک اسٹیشن آئی ڈی سے اس کی پہچان کی جاتی ہے۔
ایس بی آئی افسروں کے مطابق، ایک رجسٹرار کے طور پر صرف ایس بی آئی کے پاس کئی اسٹیشن آئی ڈی کو منظوری عطا کرنے کا حق ہے جبکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ اسی لئے چنڈی گڑھ واقع بینک افسروں نے ممبئی واقع کارپوریٹ آفس کو خط لکھکر معاملے کو یو آئی ڈی اے آئی کے ساتھ اٹھانے کو کہا۔
خط میں لکھا ہے کہ انہوں نے ان اسٹیشن آئی ڈی کو نہیں بنایا ہے اور یقینی طور پر یو آئی ڈی اے آئی کے حفاظتی نظام میں کئی خامیاں ہیں جو ہیک کرنے اور وکرم کے نام سے کئی اسٹیشن آئی ڈی بنانے کو ممکن بناتا ہے۔ ہم نے اتھارٹی سے اپیل کی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ اپنے سسٹم کو زیادہ شفاف بنانے اور ڈیٹا بیس کو زیادہ محفوظ بنانے کے لئے کام کریں۔
اس معاملے میں وکرم کے فنگر پرنٹ جیسے نجی بایومیٹرک کا استعمال کرکے آدھار کارڈ بنائے گئے اور ان کا استعمال ٹیکس ، مہاراشٹر حکومت،مدھیہ پردیش حکومت اور قومی اطلاعاتی مرکز میں ہوا۔ اس کے ساتھ ہی ان کا استعمال کرکے مختلف بینکوں میں موجود وکرم کے ذاتی کھاتوں سے پیسے نکالے گئے۔ ان سب کے باوجود یو آئی ڈی اے آئی نے کسی بھی بینک ملازم کے خلاف کارروائی نہیں کی۔
ایس بی آئی کے ڈپٹی جنرل منیجر بی راجیندر کمار نے کہا کہ وکرم کے بایومیٹرک کے غلط استعمال اور وینڈر جن پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں، ان کو ان کی جانکاری ہے۔ ان کے کارپوریٹ آفس نے یو آئی ڈی اے آئی کے سامنے یہ مدعا اٹھایا ہے اور ان سے اپیل کی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ اپنے سسٹم کو زیادہ شفاف بنانے اور ڈیٹا بیس کو زیادہ محفوظ بنانے کے لئے کام کریں۔
بینک اور وینڈر کے ذریعے کی گئی ایک اندرونی تفتیش میں وکرم کو ان تمام الزامات سے بری کر دیا گیا ہے جو اس پر یو آئی ڈی اے آئی نے لگایا تھا۔ ایس بی آئی نے یو آئی ڈی اے آئی سے اپیل کی ہے کہ وہ لگائے گئے جرمانے کو ہٹا لیں اور وکرم کو کام پر واپس آنے دیں۔ حالانکہ، اس بیچ یو آئی ڈی اے آئی نے باقی تمام آپریٹروں کو کام پر واپس آنے کی منظوری دے دی۔
ٹائمس آف انڈیا نے اس سے معلق یو آئی ڈی اے آئی سے جانکاری لینے کے لئے ان کے چیف ایگزیکٹو افسراور میڈیا انچارج کو ایک خط چار جنوری کو لکھا تھا۔ 18 جنوری کو یو آئی ڈی اے آئی نے معاملے کی جانکاری دینے سے منع کر دیا لیکن تفتیش جاری ہونے کی بات قبول کی۔ اس کے بعد 19 جنوری کو یو آئی ڈی اے آئی نے حفاظت کے طور پر آدھار آپریٹر کی نامزدگی میں ایک نیا مرحلہ جوڑا ہے۔
Categories: خبریں