خبریں

سپریم کورٹ نے مرکز سے پوچھا، انفارمیشن  کمشنر کے عہدے پر صرف نوکرشاہوں کی ہی تقرری کیوں ہوئی

مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ کمشنر کی تقرری کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے 14 ناموں کو شارٹ لسٹ کیا تھا جس میں سے 13 نوکرشاہ تھے۔ جس پر جسٹس سیکری نے کہا کہ ہم تقرری کو غلط نہیں ٹھہرا رہے ہیں۔ لیکن جب غیرنوکرشاہوں  کے نام بھی تھے، تو ان میں سے کسی کی تقرری کیوں نہیں کی گئی۔

فوٹو : رائٹرس/پی آئی بی

فوٹو : رائٹرس/پی آئی بی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے مرکز سے پوچھا کہ انفارمیشن کمشنر کے عہدے پر تقرری کے لئے سرچ کمیٹی کے ذریعے صرف سبکدوش یا کارگزار نوکرشاہوں کو ہی کیوں شارٹ لسٹ کیا گیا اور ماہرین کو کیوں نہیں۔جسٹس اے کے سیکری اور جسٹس ایس عبدالنذیر کی بنچ کوحکومت نے بتایا کہ چیف انفارمیشن کمشنر اور چار انفارمیشن کمشنر کی تقرری پہلے ہی کی جا چکی تھی، جبکہ دیگر انفارمیشن کمشنر کی تقرری کی کارروائی  چل رہی ہے۔

مرکز کی طرف سے پیش اڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) پنکی آنند نے کہا کہ سرچ کمیٹی نے انفارمیشن کمشنر کی تقرری کے لئے سلیکشن کمیٹی کے ذریعے غور کرنے کے لئے 14 ناموں کی سفارش کی تھی۔اس پر بنچ نے پوچھا، ان 14 ناموں میں نوکرشاہوں (سبکدوش یا کارگزار) کے علاوہ کوئی اور ہے؟’اس پر، اے ایس جی نے کہا کہ 14 اشخاص میں سے ایک سبکدوش جج ہیں جبکہ باقی نوکرشاہ ہیں۔پھر بنچ نے اے ایس جی سے کہا، ان کا(درخواست گزاروں)اعتراض ہے کہ اس فہرست میں صرف نوکرشاہ ہیں۔ مطلب، آپ کو نوکرشاہوں کے علاوہ ایک بھی شخص نہیں ملا۔ ‘

بنچ نے یہ بھی کہا کہ سرچ کمیٹی میں صرف نوکرشاہ ہی ہیں۔ عدالت،آر ٹی آئی کارکنان انجلی بھاردواج، کوموڈور لوکیش بترا (سبکدوش)اور امرتا جوہری کی عرضی پر سماعت کر رہی ہے جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ 23500 سے زیادہ اپیل اور شکایتں سینٹرل انفارمیشن کمشنر کے پاس زیر التوا ہیں کیونکہ انفارمیشن کمشنر کے عہدے خالی پڑے ہیں۔سماعت کے دوران، اے ایس جی نے عدالت کو بتایا کہ انفارمیشن کمشنر کی تقرری کا عمل چل رہا ہے اور حکومت آر ٹی آئی قانون کے تحت متعینہ انتخابی معیارپرعمل کر رہی ہے۔

دی ہندو کے مطابق جسٹس سیکری نے کہا، ہم تقرری کو غلط نہیں کہہ رہے ہیں۔ ایسے نام تھے جو نوکرشاہ نہیں تھے، لیکن ان میں سے ایک کی بھی تقرر نہیں کی گئی۔ تصوریہ ہے کہ ان کو لگتا ہے کہ اس طرح کے عہدوں کے لئے واحد نوکرشاہ طبقہ لائق ہے۔ ‘درخواست گزاروں کی طرف سے پیش وکیل پرنو سچدیوا نے کہا کہ ریاستی انفارمیشن کمیشن (ایس آئی سی) میں معاملوں کو انفارمیشن کمشنر کی کمی کی وجہ سے سالوں سے زیر التوا رکھا گیا ہے اور مغربی بنگال میں، 2008 میں درج معاملوں کا اب فیصلہ کیا جا رہا ہے۔


یہ بھی پڑھیں: کیوں مودی حکومت انفارمیشن کمشنر کے عہدے کے لئے نوکرشاہوں کو ترجیح دے رہی ہے؟


انہوں نے کہا کہ 13 دسمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ حکومت سرچ کمیٹی کے تمام ممبروں کے نام، شارٹ لسٹ کئے گئے امیدوار اور انتخاب کے لئے کیا طریقہ فالو کیا جا رہا ہے، ان تمام جانکاری کو ویب سائٹ پر اپلوڈ کرے۔لیکن حکومت کے تمام چار انفارمیشن کمشنر کی تقرری کے بعد یہ تمام جانکاری ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا۔سچدیوا نے کہا،یہ جانکاری تقرری کے عمل کے دوران عوامی کی جانی چاہیے تھی، نہ کہ تقرری کے بعد۔ پورے عمل میں شفافیت کی ضرورت ہے۔ ‘

انہوں نے کہا کہ حکومت صرف سبکدوش یا کارگزار نوکرشاہ یا سرکاری بابو کی انفارمیشن کمشنر کے طور پر تقرری کر رہی تھی لیکن تقرری کے لئے کارکنان، سائنس دانوں، صحافیوں، وکیلوں اور دیگر جیسے اشخاص کے ناموں پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔اے ایس جی نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے چیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمیشن کمشنر کی تقرری کے عمل کے دوران ضروریات کی تعمیل کی ہے اور تفصیل ویب سائٹ پر اپلوڈ کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کارروائی  میں 280 امیدواروں نے درخواست دی تھی اور کچھ اسامی کو بھرا گیا تھا، جبکہ دیگر کے لئے کارروائی جاری ہے۔مغربی بنگال کی طرف سے پیش وکیل نے بنچ کو بتایا کہ ان کے پاس پہلے سے ہی ایک ریاست کے چیف انفارمیشن کمشنر اور تین ریاستی انفارمیشن کمشنر ہیں اور وہ چھے مہینے کے اندر صورت حال  کا تجزیہ کریں‌گے اور دیکھیں‌گے کہ کیا ان کو اور ریاستی انفارمیشن کمشنر کی ضرورت ہے۔

اسی طرح، آندھرا پردیش کے وکیل نے کہا کہ ان کے پاس تین ریاستی انفارمیشن کمشنر ہیں اور ایک خالی عہدے کو بھرنے کا عمل پہلے سے ہی چل رہا ہے۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے بنچ کو مطلع کیا کہ اتر پردیش میں 10 ریاستی انفارمیشن کمشنر حال ہی میں سبکدوش ہوئے ہیں اور انہوں نے اس تعلق سے عدالت میں ایک الگ درخواست دائر کیا ہے۔

بنچ نے ریاستوں سے موجودہ اسامی کو بھرنے کے لئے ان کے ذریعے اٹھائے گئے قدموں کی تفصیل دیتے ہوئے دو-تین دنوں کے اندر حلف نامہ داخل کرنے کو کہا۔ اس سے پہلے عدالت  نے مرکز اور ریاستوں کو چیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمیشن کمشنر کی تقرری میں شفافیت بنائے رکھنے اور ویب سائٹ پر سرچ کمیٹی اور امید وار کی تفصیل اپلوڈ کرنے کے لئے کہا تھا۔


یہ بھی پڑھیں: کیا انفارمیشن کمیشن ریٹائرڈ نوکرشاہوں کی آرام گاہ بنتا جا رہا ہے؟


گزشتہ سال جولائی میں، عدالت نے چیف انفارمیشن کمیشن اور ریاستی انفارمیشن کمیشن میں خالی عہدوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور مرکز اور سات ریاستوں کو عہدوں کو بھرنے کو لےکے معیّنہ مدت بتانے کے لئے ایک حلف نامہ دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔عدالت نے سات ریاستوں-مہاراشٹر، آندھرا پردیش، تلنگانہ، گجرات، کیرل، اڑیسہ اور کرناٹک سے کہا تھا کہ وہ عہدوں کو بھرنے کے لئے معیّنہ مدت کے بارے میں جانکاری دیں۔

درخواست گزاروں نے کہا ہے کہ گجرات اور مہاراشٹر جیسے کئی انفارمیشن کمیشن چیف انفارمیشن کمشنر کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ آر ٹی آئی قانون میں اس عہدے کے لئے ایک اہم کردار ہے، جس پر کمیشن کا انتظامیہ سنبھالنے کا بھی کام ہوتا ہے۔دلیل میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے وقت پر ڈھنگ سے تقرری کو متعین کرنے کے اپنے آئینی فرض کو نبھانے میں آر ٹی آئی قانون کے کام کاج کو ‘ ناکام کرنے ‘ کی کوشش کی ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)