خبریں

ایودھیا کی 67 ایکڑغیر متنازعہ زمین کو لےکر واجپائی نے کہا تھا؛ حکومت صورت حال کو بنائے رکھنے کے لیے پرعزم

مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر کے مطالبہ کیا ہے کہ ایودھیا میں متنازعہ زمین کے آس پاس 67 ایکڑ غیر متنازعہ زمین ہے اس سے عدالت پہلے والی صورت حال کو ہٹالے اور یہ زمین اس کے مالکوں کو واپس کردے۔

سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی۔ (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی۔ (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکز میں بی جے پی کی رہنمائی والی حکومت نے حال ہی میں سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرکے مانگ کی ہے کہ ایودھیا میں متنازعہ زمین کے آس پاس جو 67.03 ایکڑ غیر متنازعہ زمین ہے اس پر سے کورٹ پہلے والی صورت حال کو ہٹا لے اور زمین کا وہ حصہ اس کے اصل مالک کو واپس کر دے۔حالانکہ بی جے پی کی یہ مانگ اس کی پارٹی کے سب سے بڑے رہنماؤں میں سے ایک اور سابق وزیر اعظم کی اس بات کے بالکل برعکس ہے جو انہوں نے تقریباً17 سال پہلے پارلیامنٹ میں کہی تھی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 14 مارچ 2002 کو راجیہ سبھا میں دئے گئے ایک بیان میں، سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے واضح کیا تھا کہ ان کی حکومت زمین کی قانونی طور پر حاصل کنندہ ہے اور ایودھیا میں متنازعہ مقام پر صورت حال بنائے رکھنے کے لئے مجبور ہے۔اس وقت این ڈی اے-1 حکومت کی قیادت کرتے ہوئے، واجپائی نے پارلیامنٹ کو بتایا تھا کہ حکومت نے غیر متنازعہ حاصل شدہ زمین پر پوجا کرنے کے لئے رام جنم بھومی ٹرسٹ (رام مندر بنانے کی مانگ کرنے والا ٹرسٹ) کے ذریعے کی گئی  گزارش کو چیلنج دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں دائر عرضی پر نہ تو ایک حلف نامہ دائر کیا اور نہ ہی تحریری جواب دیا ہے۔

واجپائی کی یقین دہانی اس وقت کے اٹارنی جنرل سولی سوراب جی کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں دئے گئے اس جواب کے بعد آئی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ غیر متنازعہ زمین کا ‘عارضی استعمال ‘صورت حال کو بنائے رکھنے کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرے‌گا۔یہ وہی عرضی تھی، جس کو اسلم بھورے نے دائر کیا تھا، جس کی وجہ سے 13 مارچ، 2002 کو سپریم کورٹ کے تین ججوں کے ایک عبوری حکم کو منظور کیا گیا تھا کہ اس زمین پر کوئی بھی مذہبی سرگرمی نہیں ہونی چاہیے۔

ایک سال بعد، پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے ایک ایسا ہی حکم منظور کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ زمین کے دو ٹکڑے ‘اندرونی طور پر جڑے ہوئے ہیں’اور تب تک الگ نہیں کئے جا سکتے جب تک کہ اس زمینی تنازعے کا فیصلہ نہیں کیا جاتا ہے۔اس معاملے میں وضاحت دیتے ہوئے واجپائی نے پارلیامنٹ میں کہا تھا کہ عدالت کے ذریعے پوچھے جانے کے بعد اٹارنی جنرل نے 1994 کے اسماعیل فاروقی فیصلے کی وضاحت کو پیش کیا کہ پوجا کے لئے غیر متنازعہ زمین کا عارضی استعمال صورت حال بنائے رکھنے کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔

واجپائی نے کہا تھا، ‘حکومت ہند نے 25 فروری، 2002 کو پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں کو صدر کے خطاب کے ذریعے اس بات کو واضح کر دیا تھا۔ میں متعلقہ جملہ پھر سے پڑھتا ہوں ؛حکومت ہند، قانونی حاصل کنندہ ہونے کے ناطے، ایودھیا میں متنازعہ مقام پر صورت حال کو بنائے رکھنے کے لئے مجبور ہے۔ ‘انہوں نے آگے کہا، ‘قانون یا عدالت کے فیصلے کی وضاحت کرنا اٹارنی جنرل کا آئینی فرض ہے۔ اٹارنی جنرل نے یہی کیا تھا جب سپریم کورٹ نے ان سے پوچھا کہ کیا ایودھیا میں غیر متنازعہ مقبوضہ زمین پر ایک علامتی پوجا قابل قبول ہے۔ ‘

واجپائی نے پارلیامنٹ کو بتایا کہ ان کی حکومت کو ٹرسٹ سے ایک خط ملا تھا جس میں پوجا کرنے کی اجازت کی گزارش کی گئی تھی۔ واجپائی نے کہا، ‘اس سے پہلے کہ حکومت اس معاملے پر فیصلہ کرتی، اسلم بھورے کے ذریعے ایک رٹ عرضی دائر کی گئی تھی۔ حکومت نے خیال کیا کہ فیصلہ سپریم کورٹ کے ذریعے منظور کئے جا سکنے والے احکام کے مطابق ہوگا۔ ‘

واجپائی نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومت نے غیرمتنازعہ طور پرمقبوضہ  زمین پر علامتی پوجا کے معاملے میں عدالت عظمیٰ کے حکم کو قبول کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ انہوں نے کہا تھا،’میں اس موقع پر تمام سیاسی اور غیر-سیاسی تنظیموں سے اپیل کرتا ہوں کہ ملک بھر میں مرکزی حکومت کے ساتھ-ساتھ متعلقہ ریاستی حکومتوں کے ساتھ امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی بنائے رکھنے کے لئے تعاون کریں۔ ‘

ایودھیا معاملے میں  ایک نئی عرضی کے ساتھ سپریم کورٹ پہنچی تھی مودی حکومت

غور طلب ہے کہ ایودھیا معاملے میں مرکز کی مودی حکومت گزشتہ منگل کو ایک نئی عرضی کے ساتھ سپریم کورٹ پہنچی تھی۔سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت نے کہا تھاکہ متنازعہ زمین کے آس پاس جو غیر متنازعہ زمین ہے اس پر سے وہ صورت حال ہٹا لے اور زمین کا وہ حصہ اس کے اصل مالک کو واپس کر دے۔اپنی رٹ عرضی میں مرکزی حکومت نے کہا کہ اس نے رام جنم بھومی-بابری مسجد کی 2.77 ایکڑ متنازعہ زمین کے آس پاس 67 ایکڑ زمین کا حصول کیا تھا۔ جبکہ زمین کا تنازعہ صرف 0.313 ایکڑ کا ہے۔ ایسے میں غیر متنازعہ زمین کو اس کے اصل مالکوں کو واپس کیا جانا چاہیے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، مرکز نے کہا، رام جنم بھومی ٹرسٹ (رام مندر بنانے کی مانگ کرنے والا ٹرسٹ) نے 1991 میں حصول کی گئی اضافی زمین کو اصل مالکوں کو واپس کرنے کی مانگ کی تھی۔ 2003 میں سپریم کورٹ نے متنازع زمین کے آس پاس کی 67 ایکڑ کی زمین کے تعلق سے صورت حال بنائے رکھنے کا حکم دیا تھا۔این ڈی ٹی وی کے مطابق، سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ نرسمہا را ؤ حکومت نے متنازعہ 0.313 ایکڑ زمین کے ساتھ ہی 67 ایکڑ زمین کا حصول کیا تھا۔ اسماعیل فاروقی معاملے میں سپریم کورٹ نے ہی کہا ہے کہ جو زمین بچے‌گی اس کو اس کے صحیح مالک کو واپس کرنے کے لئے مرکزی حکومت پرعزم ہے۔ اس میں 40 ایکڑ زمین رام جنم بھومی ٹرسٹ کی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کو ان کو واپس کر دیا جائے، ساتھ ہی واپس کرتے وقت یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ متنازعہ زمین تک پہنچ کا راستہ بنا رہے۔ اس کے علاوہ زمین واپس کر دی جائے۔

واضح ہو کہ سیاسی طور پر حساس رام جنم بھومی-بابری مسجد زمین تنازعے کی 29 جنوری کو ہونے والی سماعت کو سپریم کورٹ نے اتوار کو ٹال دیا تھا کیونکہ پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے ایک ممبر موجود نہیں تھے۔سوموار کو مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے سپریم کورٹ میں ایودھیا زمین تنازعے کی سماعت دھیمی رفتار سے چلنے پر ناراضگی ظاہر کی تھی۔ انہوں نے اپیل کی کہ سبری مالا مندر سے جڑے معاملوں کی طرح اس معاملے میں تیزی سے فیصلہ کیا جائے۔

پٹنہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پرساد نے کہا تھاکہ یہ ملک کے لوگوں کی خواہش ہے کہ ایودھیا میں رام مندر بنے۔ ہمارے وزیر اعظم اور ہماری پارٹی صدر یہ بات صاف کر چکے ہیں کہ یہ کام آئینی طریقے سے پورا کیا جائے‌گا۔پرساد نے کہا کہ وہ وزیرقانون کے طور پر نہیں بلکہ ایک شہری کے طور پر بول رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘حالانکہ ایک وزیر قانون کے طور پر نہیں بلکہ ایک شہری کے طور پر یہ کہنا چاہوں‌گا کہ یہ معاملہ پچھلے 70 سالوں سے لٹکا پڑا ہے۔ زمین تنازعے پر فیصلہ کرنے میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کو 60 سال لگ گئے۔ وہیں اس کے خلاف داخل اپیل سپریم کورٹ میں 10 سالوں سے لٹکا ہوا ہے۔ ‘

قابل ذکر ہے کہ پرساد اس معاملے میں ہائی کورٹ میں ایک درخواست گزار کے وکیل تھے۔اس بیچ مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان نے یہ صاف کیا تھا کہ ایودھیا میں رام مندر تعمیر کے لئے بل لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرے‌گی۔ مجھے خوشی ہے کہ وزیر اعظم مودی نے پارلیامنٹ کو بتایا کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرے‌گی اور اسی کے مطابق کام کرے‌گی۔