عبد المعز شمس کی کتاب آنکھ اور اردو شاعری-آنکھ سے متعلق طبی اورپیشہ ورانہ معلومات کو ادبی ذریعہ اظہار کی مختلف صورتوں سے آمیز کرکے آنکھ اور اس کے متعلقات سے متعلق ایک نیا مخاطبہ (Discourse)قائم کرتی ہے۔
نئی اطلاعاتی تکنالوجی کی برق آسا رفتار اور سرعت انگیز نفوذ کا اصل ہدف حسیاتی تسکین کا فوری حصول ہے۔ یہی سبب ہے کہ ادب کو سرسری اور فوری دل بستگی کا مؤثر وسیلہ سمجھنے کے تصور نے بڑی مقبولیت حاصل کر لی ہے اور ملک کے طول و عرض میں جشن ادب (Literary Festivals)، داستانوں کی بلند خوانی اور شعر خوانی کے عوامی اجتماعات کا مسلسل انعقاد کیا جارہا ہے۔ ادبی اجتماعات اورکتابوں کی رسم رونمائی سنجیدہ ادبی سرگرمی کے بجائے تفریح اور گلیمر کو متحرک کرنے والی تقریبات کی صورت میں نمایاں ہوئی ہیں۔
اب حرف جگانے اور شعرو ادب کی سنجیدہ تعبیر و تفہیم کی کوششیں ہمارے ادبی منظر نامہ کا متحرک جزو نہیں ہیں۔ جامعات میں ادب کی تدریس سے وابستہ حضرات اوران کے طلبہ بشمول ریسرچ اسکالر، ادب کو اسلوب زیست سمجھنے کے بجائے اسے مقصد براری کا ایک حربہ سمجھتے ہیں۔مختلف علوم کے ایسے ماہرین اب شاذ ہی نظر آتے ہیں جنہوں نے ادب کو اپنے تخلیقی اورحسیاتی ارتکاز کا محور و مرکز بنایا ہو۔ ماضی قریب میں اردو میں ادب کی آبیاری کرنے والوں میں ایک خاصی بڑی تعداد ان حضرات کی تھی جن کا آذوقہ دیگر پیشہ ورانہ علوم مثلاً وکالت، ڈاکٹری اور طبابت وغیرہ سے تھا۔ ایسے قابل قدر حضرات کی تعداد روز بروز گھٹتی جا رہی ہے جو اس گھٹاٹوپ اندھیرے کو چند لمحے روشن کر جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک تابناک لمحے کی گواہی مشہور ماہر امراض چشم ڈاکٹر عبد المعز شمس کی گرانقدر کتاب ‘آنکھ اور اردو شاعری’ دیتی ہے۔
میرؔ کے نزدیک آنکھ ہونے کی صورت میں دہر آئینہ خانہ نظر آتا ہے اور دیواروں کے بیچ منھ کا واضح طور پر احساس کیا جاسکتاہے۔ آنکھ کو روح کا آئینہ کہا جاتا ہے اور اسے حواس انسانی کا سب سے معتبر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ انسان کے ردو قبول کے فیصلے میں آنکھ کا رول سب سے اہم ہوتا ہے۔ انسانی اعمال و افعال کی ہر سطح پر آنکھ کی ہمہ گیر مرکزیت کے نقوش ثبت ہیں۔ آنکھ باہمی ربط و سلسلہ کا نقش اول بھی ہے اور خاتم بھی۔ دو محاورے آنکھ لڑنااور آّنکھیں پھیرنا اسی کیفیت کے غماز ہیں۔ اردو میں آنکھ سے متعلق بے شمار محاورے اور کہاوتیں رائج ہیں اورزمانہ قدیم سے لے کر عہد حاضر تک کے ہر قابل لحاظ شاعر نے آنکھ کو شعری موتیف (Motiff) کے طور پر ضرور استعمال کیا ہے۔
ڈاکٹر عبد المعز شمس ایک مشہور سرجن اور ماہر امراض چشم ہونے کے علاوہ شعرو ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں اور انہوں نے آنکھ سے متعلق اشعار، نظمیں، کہاوتیں اور محاورے دقت نظری کے ساتھ جمع ہی نہیں کیے بلکہ انسان کی بصری صلاحیتوں کا ایک پہلو دار بیانیہ مرتب کیا ہے اور عالمانہ ژرف نگاہی کے ساتھ اس امر پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے کہ انسانی ذہن کی مختلف اور متضاد کیفیات آنکھ کس طرح منعکس کرتی ہے۔ امراض چشم، تنویم اور تعینات کے ماہر آنکھ کو اپنی توجہ کا ہدف بناتے ہیں اور انسان کے ذہن کی تفتیش اور اس کی نفسی کیفیت کی تشخیص کرتے ہیں۔ آنکھوں کی خوبصورتی اور رعنائی و برنائی کی مختلف صورتوں سے معالج بھی واقف ہوتا ہے اور ایک صاحب ذوق ڈاکٹر کے لیے آنکھ محض بصارت کا ایک آلہ نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر شمس کہتے ہیں؛
آنکھ محض بصارت کا ایک آلہ اور حسّی اعصاب کا عضو آخر نہیں بلکہ یہ دو کنچے ہیں جو ہمارے چہرے کی ہڈیوں کے دو طاقوں میں خالق نے سجا کر دنیا ئے رنگ و بو میں ہمیں بھیجا ہے۔ وہ ماحول کے عکس کو جو روشنی کے امتزاج پر مشتمل ہوتا ہے، عصبی تحریکات میں بدلتا ہے اور یہ عصبی اشارات عصب بصری اور مجمع نور سے گذر کر دماغ کے بصری قصر تک پہنچاتا ہے جس سے ہمیں چیزوں کا ادراک ہوتا ہے اور ہم کسی شے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ بصارت کا فعل ایک انتہائی پیچیدہ نظام کے تحت ہوتا ہے اور اسی نظام کے تحت ہمیں مختلف احساسات جیسے نوری احساس (Light Sense)، احساس ہئیت (Form Sense)، احساس تضاد (Contrast Sense)، احساس رنگ (Colour Sense) اور حرکی احساس (Movement Sense)کا ادراک ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عبد المعز شمس نے آنکھ کو محض آلہ بصر کے طور پر دیکھنے تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ اس کے متنوع اور متحرک کردار کی معنویت کو تخلیقی ہنر مندی کے ساتھ خاطر نشان کیا ہے۔تین ابواب میں منقسم اور389 صفحات پر مشتمل یہ کتاب آنکھ سے متعلق طبّی اورپیشہ ورانہ معلومات کو ادبی ذریعہ اظہار کی مختلف صورتوں سے آمیز کرکے آنکھ اور اس کے متعلقات سے متعلق ایک نیا مخاطبہ (Discourse)قائم کرتی ہے۔
پہلے باب آنکھ بطور شعری موضوع میں ڈاکٹر عبد المعز شمس نے اپنی تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اردو شعرا نے’آنکھ’ کا استعمال ابتدائی دورسے کیا اور اس کے متبادل الفاظ چشم (فارسی)اور نین (ہندی) قبول عام نہیں حاصل کر سکے۔ مصنف نے اہم شعرا کے دواوین سے ان اشعار کا بھی انتخاب کیا ہے جن میں دونوں الفاظ’آنکھ’ اور’چشم’ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں سراج اورنگ آبادی، میر، شاد، حسرت موہانی، اقبال، منیر نیازی اور پروین شاکر کے اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے۔ آنکھ اور چشم کے مابین حسرت موہانی نے ایک نیا حسی تشبیہی علاقہ دریافت کیا ہے؛
آنکھوں ہی میں کٹ گئی شب ہجر
رونے سے نہ آئی چشمِ تر باز
اس موضوع سے متعلق اقبال کا درج ذیل شعر خاصا مقبول ہے؛
ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہئے
چشم باطن جس سے کھل جائے وہ جلوا چاہئے
باب اول میں شاعر لکھنوی اور محسن علوی کی دو نعتیں جن کی ردیف آنکھیں اور آنکھوں سے ہے، شامل کی گئی ہیں۔ محسن احسان کی حمد سے اس باب کی ابتدا ہوئی ہے۔ حمد میں صرف دو اشعار آنکھ سے متعلق ہیں۔ لہٰذا اس حمد کی شمولیت محل نظر ہے۔ اسی باب میں آنکھ سے متعلق علی سردار جعفری، شوکت واسطی، پروین شاکراور ڈاکٹر زبیدہ صدیقی کی نظمیں اور بھگوان داس اعجاز کے دوہے شامل کیے گئے ہیں۔مصنف نے تحقیقی ژرف نگاہی کا ثبوت دیتے ہوئے اردو کے اہم شعرا مثلاً سراج اورنگ آبادی، نظیر اکبر آبادی، اقبال، شوق نیموی، حسرت موہانی، فراق گورکھپوری، ناصر کاظمی، منیر نیازی، عرفان صدیقی، افتخار عارف اور بشیر بدر وغیرہ کی وہ غزلیں منتخب کی ہیں جن میں ردیف یا قافیہ کے طور پر آنکھ کا استعمال کیا گیا ہے۔ ایک مخصوص شخص سے وابستہ رشتۂ دید کی نوعیت لمحاتی یا عارضی نہیں ہوتی بلکہ یہ زمان و مکاں سے ماورا ہوتی ہے۔ آنکھ کا ربط پائیداری کس طرح حاصل کرتا ہے، عرفان صدیقی کا یہ شعر دیکھئے؛
رفتہ رفتہ سارے چہرے درمیاں سے ہٹ گئے
ایک رشتہ آج بھی باقی مگر آنکھوں کا ہے
اسی باب میں لفظ آنکھ سے شروع ہونے والے تقریباً3 اشعار بھی درج کیے گئے ہیں۔ میر، سراج اورنگ آبادی، آرزو سہارن پوری، درد، مومن، بہادر شاہ ظفر، ذوق، شاد عظیم آبادی، اصغر گونڈوی، اقبال، جگر مرادابادی، حالی، اکبر الٰہ آبادی، فانی، سیماب اکبرآبادی، حسرت، فراق، ناصر کاظمی، منیر نیازی، فیض، شہریار، جاں نثار اختر، کلیم عاجز، احمد فراز، بشیر بدر، سلمان اختر، عرفان صدیقی، پروین شاکر، مظفر وارثی اور ذکیہ غزل کے متعدد اشعار اس عنوان کے تحت شامل کیے گئے ہیں۔
باب دوم مصنف کے پختہ ادبی شعوراور تنقیدی محاورہ سے گہری واقفیت کا ثبوت پیش کرتا ہے اور آنکھ کو شعری موتیف کے طور پر برتنے کے مختلف امکانات کو بروئے کار لاتا ہے۔ مصنف کے مطابق اس باب میں لفظ آنکھ کو علم بیان کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آنکھ کا کس طرح تشبیہ، استعارہ، مجاز مرسل اور کنایہ کے طور پر استعمال ہوا ہے،مصنف نے اس کی تفصیل اشعار کی تشریح کے ساتھ درج کی ہے۔ مصنف نے بصری تشبیہ کے ذیل میں یہ مصرع نقل کیا ہے؛
جو اشک مسلسل ہے سو موتی کی لڑی ہے
مصنف کا یہ خیال درست ہے کہ اشک مسلسل اور موتی کی لڑی کا براہ راست مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ دونوں حسِ بصری کے دائرے میں آتے ہیں مگر یہ دونوں مصنوعی سطح پر بھی مربوط ہیں۔ اشک جو ہجر مسلسل کے زائیدہ ہیں، جذبہ صادق کی بنا پر تابناک ہو گئے ہیں اوراشک مسلسل کی تابناکی موتی کی آبداری کے مماثل ہے۔ڈاکٹر عبد المعزشمس نے آنکھوں سے متعلق محاوروں اور کہاوتوں کی پوری فہرست درج کی ہے جو ان کے ستھرے ادبی ذوق کی آئینہ دار ہے۔
آنکھ کی خوبصورتی کے لیے نرگسِ بیمار کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔ بیماری اور خوبصورتی میں تو بظاہر تضاد کا رشتہ نظر آتاہے۔ اس سلسلے میں ممتاز ناقد اور عالم شمس الرحمان فاروقی نے دوران گفتگو بڑی بلیغ اور مسحور کن وضاحت کی ہے۔ ان کے مطابق اردو شاعری میں معشوق زن بازاری یا بانوئے شہر کی صورت میں بھی جلوہ پذیر ہوتا ہے اور پیکرِ حیا کے طور پر بھی۔ جس طرح ایک بیمار آدمی پلنگ سے نہیں اٹھ سکتاہے، اسی طرح محبوب کی ذاتی حیا اور شرم اسے آنکھ اٹھا کر ادھر ادھر دیکھنے سے باز رکھتی ہے۔ یقیناً یہ ایک لطیف نکتہ ہے۔
کتاب کے آخری باب میں اردو کی ایک اہم اور مستند لغت نور اللغات کے ان صفحات کو درج کیا گیا ہے جس میں آنکھ اور اس کے متعلقات کی پوری تفصیل موجود ہے۔آنکھ سے متعلق کثیر حسی بیانیہ خلق کرنے پر ڈاکٹر عبد المعز شمس کی پذیرائی لازم ہے کہ انہوں نے جسم کے سب سے اہم عضو ’’آنکھ‘‘ کو ادبی ڈسکورس کے طورپر قائم ہونے کے عمل کی صراحت پوری تنقیدی ژرف نگاہی کے ساتھ کی ہے اور یہ باور کرایا ہے کہ اکتسابی علم سے پرے بھی ایک ایسی بسیط حقیقت ہے جس کا ادراک بصری سطح پر کیا جا سکتا ہے اور اس میں بے مثال قوت شفا موجود ہے؛ ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)
Categories: ادبستان