خبریں

جج ذہنی تناؤ اور دباؤ میں فیصلے لکھ رہے ہیں: جسٹس اے کے سیکری

ڈیجیٹل عہد میں پریس کی آزادی پر بولتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس اے کے سیکری نے کہا کہ آج جوڈیشیل پروسیس دباؤ میں ہے۔ معاملے کی شنوائی شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ بحث  شروع کر دیتے ہیں کہ کیا فیصلہ ہونا چاہیے، اس کا اثر ججوں پر پڑتا ہے۔

جسٹس سیکری/ فوٹو: پی ٹی آئی

جسٹس سیکری/ فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے جج اے کے سیکری کا کہنا ہے کہ آج کے عہد میں جوڈیشیل پروسیس دباؤ میں ہے، جج تناؤ اور دباؤ میں فیصلے لکھ رہے ہیں۔ کسی معاملے پر شنوائی شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ بحث کرنے لگ جاتے ہیں کہ اس کا کیا فیصلہ آنا چاہیے۔ اس کا ججوں پر اثر پڑتا ہے۔ سیکری نے ‘لائیشیا’ کے کانفرنس میں ‘ڈیجیٹل عہد میں پریس کی آزادی’ کے موضوع پر لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پریس کی آزادی شہری اور انسانی حقوق کی شکل و صورت اور کسوٹی کو بدل رہی ہے اور میڈیا ٹرائل کا موجودہ رجحان اس کی مثال ہے۔

انھوں نے کہا،’ میڈیا ٹرائل پہلے بھی ہوتے تھے لیکن آج جو ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی مدعا بلند کیا جاتا ہے ،ایک عرضی داخل کر دی جاتی ہے۔ عرضی پر شنوائی شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ یہ بحث شروع کر دیتے ہیں کہ اس کا فیصلہ کیا ہونا چاہیے۔ میرا تجربہ ہے کہ جج کیسے کسی معاملے کا فیصلہ کرتا ہے ،اس کا اس پر اثر پڑتا ہے۔’

سیکری نے کہا،’ یہ سپریم کورٹ میں زیادہ نہیں ہے کیونکہ جب تک وہ سپریم کورٹ پہنچتے ہیں وہ کافی تجربہ کار  ہو جاتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ میڈیا میں چاہے جو بھی ہو رہا ہے ان کو قانون کی بنیاد پر فیصلہ کیسے کرنا ہے۔ آج جوڈیشیل پروسیس دباؤ میں ہے۔’انھوں نے کہا،’ کچھ سال پہلے یہ تصور تھا کہ چاہے سپریم کورٹ ہو، ہائی کورٹ ہو یا کوئی نچلی عدالت، ایک بار عدالت نے  فیصلہ سنا دیا تو آپ کو فیصلے کی تنقید کرنے کا پورا حق ہے۔ اب جو جج فیصلہ سناتے ہیں ، ان کو بھی بدنام کیا جاتاہے۔’

جسٹس سیکری نے کہاکہ سوشل میڈیا پہرے دار بن گیا ہے۔ یہ انسانی حقوق کے لیے بھی چیلنج بن گیا ہے، کیونکہ اس کے ذریعے ذاتی اور عوامی طور پر نگرانی کیے جانے کا خطرہ ہے۔ اگر یہ انسان  کی آزادی آور پرائیویسی کو متاثر کرتا ہے، تب یہ خطرناک ہتھیار بن جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب دور پیڈ نیوز اور فرضی خبر کا ہے۔کہانی بنائی جاتی ہے، اس کو ڈیجیٹل ذرائع پر نشر کر دیا جاتا ہے۔ کچھ گھنٹوں میں وہ خبر وائرل ہو کر کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ تشویش ناک حالت ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)