یہ حملہ کشمیر کی جدو جہد سے نپٹنے کے لئے بنائی گئیں غلط پالیسیوں اور کارروائیوں کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔عسکریت پسندی کو ختم کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے حفاظتی دستوں کے ذریعے عسکریت پسندوں کو مارے جانے کو ہی لشکری پالیسی کی کامیابی مان لی گئی تھی ۔
کشمیر میں اور کتنا خون خرابہ ہوگا؟پلواما میں دل دہلا دینے والے خودکش حملے میں سی آر پی ایف کے 40 جوانوں کی موت نے ایک بار پھر اس سوال کو کھڑا کر دیا ہے۔یہ حملہ کیسے ہوا، اس کو لےکر صحیح جانکاریاں ابھی جمع ہی کی جا رہی ہیں۔ شروعاتی رپورٹس کے مطابق جیش محمد کے لئے کام کرنے والے عادل احمد نے پلواما میں دھماکہ خیز مواد سے لدی گاڑی سی آر پی ایف کے 70 بسوں کے قافلے میں چل رہی ایک بس سے بھڑا دی۔
کچھ ہی منٹوں میں جائے واردات ایسا نظر آنے لگا مانو جنگ میں مبتلا علاقہ ہو-تباہ ہو چکی گاڑیاں، ملبہ اور ادھ جلے جسم کے حصے۔ اس ظالمانہ طریقے سے انسانی جان کے نقصان نے دہشت پیدا کر دی۔ستمبر 2016 میں اڑی میں فوج کے کیمپ پر’فدائینوں’کے حملے کے بعد یہ اہم عسکریت پسند حملہ ہے۔ یہ اکتوبر 2001 میں سرینگر میں اسمبلی پر ہوئے خوفناک حملے کی یاد دلاتا ہے جس میں دھماکہ خیز مواد سے لدی کار جموں اور کشمیر سیکریٹریٹ کے گیٹ سے ٹکرائی تھی۔ مگر پیمانے، ساخت اور طریقے کی بنیاد پر یہ حملہ انوکھا ہے۔
حملے کے فوراً بعد سیاستدانوں، افسروں اور لوگوں نے اس کی مذمت کی جس میں انتقام کی مانگکے آواز بھی سنائی دے رہے تھے۔ مرکزی وزیر ارون جیٹلی اور جنرل وی کے سنگھ نے اس حملے کا بدلہ لینے کی حمایت کی اور کہا کہ؛’ دہشت گردوں کو ایسا سبق سکھایا جائے جس کو وہ کبھی نہ بھولیں۔’
جوشیلے تبصروں کا اثر
اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی طرف سے ایسے تبصرے کشمیر کو لےکر غلط سمجھ اور ناقص تدبیر سجھانے کے رجحان کو دکھاتے ہیں۔ ان تبصروں سے حکومت کی’فوجیوں کی بہادری’کی ستائش کرکے اپنی ذمہ داری سے بھاگنے کے رجحان کا بھی پتہ چلتا ہے۔اگر سرحد پر لڑنے اور فسادیوں سے جدو جہد کرنے کی ذمہ داری فوجیوں کی ہے تو سیاسی طاقت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسا ماحول بنانے کی کوشش کرے، جہاں اس طرح کی تشدد والی حالت کو پیدا ہونے سے ٹالا جا سکے۔ صاف ہے، زمین پر اٹھائے جا رہے اقدام سے نہ تو ذمہ داری سے بھرا کردار کا مظاہرہ ہو رہا ہے اور نہ ہی عملی رویے کا ۔
اس معاملے میں جانچ بےحد ضروری ہے۔ بغیر کوتاہی برتے اس حملے سے جڑے تمام سوالوں کی جانچ ہونی چاہیے۔ ماسٹرمائنڈ کا پتا لگایا جانا چاہیے،یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ سخت حفاظت والی اس شاہرہ میں چوک آخر کہاں ہوئی۔ذمہ دار اور آزاد جمہوری ممالک سے یہ امید نہیں کی جاتی کہ ان کی پالیسیاں اور ان کے کام انتقام کے جذبے سے متاثر ہوں۔ ویسے بھی، فوری ردعمل امن قائم ہونے کی گارنٹی نہیں دیتی۔ اس طرح کے رد عمل صرف اور صرف خون خرابے کو بڑھاوا ہی کر سکتے ہیں جو وادی اور ہندوستان دونوں کے لئے نقصان دہ ہوگا۔
اس کے بجائے حکومت ہند کو اہم سوال پوچھنے چاہیے کہ تشدد کی دیوانگی کیوں فوجیوں، مسلح گروپوں کے ممبروں اور شہریوں کی جان لے رہی ہے؟ کیوں یہ سلسلہ وادی میں چل رہا ہے؟ ساتھ ہی یہ خیال بھی کرنا چاہیےکہ ان حالات سے کیسے نپٹا جا سکتا ہے۔
سرکاری پالیسیوں کی ناکامی
یہ واقعہ کشمیر کی جدو جہد سے نپٹنے کے لئے بنائی گئیں غلط پالیسیوں اور کارروائیوں کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔عسکریت پسندی کو ختم کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے حفاظتی دستوں کے ذریعے عسکریت پسندوں کو مارے جانے کو ہی لشکری پالیسی کی کامیابی مان لی گئی تھی (فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو بڑی تعداد میں کھوتے ہوئے)۔ جس کی وجہ سے اور نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا لئے اور ہندوستانی حفاظتی دستوں کے ساتھ لڑائی میں جٹ گئے۔ ساتھ ہی اس نے کشمیر کے لوگوں اور مرکزی حکومت کے درمیان کی دوری کو بھی اور بڑھا دیا۔
عسکریت پسندی لوگوں میں پنپ رہی بےچینی کا ہی نتیجہ ہے۔ یہ بےچینی ان سلجھے سیاسی تنازعہ، جمہوریت اور لوگوں کے جمہوری حقوق کی پامالی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملوں کی ان دیکھی کرنے سے پیدا ہوئی ہے۔لشکری کوششوں اور سیاسی کوششوں کو ساتھ لئے بنا حکومت ہند غلط راستے پر جا رہی ہے۔پچھلی سات دہائیوں میں اور خاص طورپر 1990 میں بغاوت کی شروعات کے بعد سے لگاتار آئیں حکومتیں تنازعے کو حل کرنے سے کتراتی رہی ہیں۔ حکومتیں مسئلہ سلجھانے کے لئے سیاسی مہارت یا لشکری طریقے اپنانے کے بجائے حکومت سے ناامید کر چکی عوام کو لبھانے کے لئے باہری سجاوٹی تدبیر کرتی آئی ہیں۔
موجودہ بی جے پی حکومت جدو جہد کو سنبھالنے سے لےکر اس کے حل تک پہنچنے کے راستے سے بہت دور ہے بلکہ یہ بلا روک ٹوک لشکری پالیسی اپناکر جدو جہد کو بڑھا رہی ہے۔یہاں تک کہ سال 2016 میں بھی کشمیر کے لوگوں سے نپٹنے کے لئے بلیٹ، پیلیٹ اور گرفتاری کا طریقہ اپنایا گیا تھا۔ یہ پالیسی تشدد کے راستے اور عسکریت پسندی کو ختم نہیں کر سکتی۔اگر 2018 میں 250 عسکریت پسند مارے گئے تو اتنی تعداد میں نوجوانوں نے ہتھیار بھی اٹھائے ہیں اور کئی ہیں جو اس کے لئے تیار بھی بیٹھے ہیں۔جب تک اس مسئلہ کے جڑ سے حل کے لئے پر امن طریقوں سے مکمل سنجیدگی کے ساتھ کوشش نہیں کی جاتی تب تک وادی میں خون بہنا بند نہیں ہوگا۔
پر امن کوشش ہی حل
حکومت ہند نے افغانستان میں طالبان سے بات چیت کے عالمی سطح پر اٹھائے گئے قدم کی حمایت کی ہے۔ تو حکومت ہند کشمیر پر بات کرنے سے کیوں گھبراتی ہے؟جبکہ یہاں پر ہتھیار اٹھائے عسکریت پسندوں کے علاوہ حریت جیسے سیاسی گروہ اور مضبوط سول سوسائٹی کے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس تنازعے پر پر امن پہل کی ہے۔کشمیر آج سیاسی حل کے لئے چلا رہا ہے۔ اس حل کے لئے کچھ الگ طرح کی سوچ اور کڑے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے جس میں پاکستان کے ساتھ رشتے سدھارنا اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ مکالمہ شروع کرنا شامل ہے۔
حکومت ہند کو شمالی آئرلینڈ سے سیکھ لینی چاہیے جس کے تشدد آمیز ہو جانے پر برٹش حکومت نے مسائل کو خوشگوار طریقے سے حل کرنے کے لئے مجبور کیا۔پلواما کا حملہ ایک وارننگ ہے۔ یہ عسکریت پسندی میں ایک نئے ٹرینڈ کو دکھاتا ہے۔ جس طریقے سے حملہ کیا گیا ہے اس کی دہشت اس کو پچھلے کئی حملوں سے الگ کرتی ہے۔یہ حملہ ایک سبق دیتا ہے کہ کشمیر پر ناقص پالیسیاں ہمیں ایک خطرناک بھنور کی طرف دھکیل رہی ہیں اور انسان اس کا شکار ہو رہے ہیں چاہے وہ کسی بھی علاقے کے ہوں۔
(مضمون نگار کشمیر ٹائمس کی ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں۔یہ مضمون بنیادی طور پر بی بی سی ہندی میں شائع ہوا تھا جس کو یہاں ادارے کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے۔)
Categories: فکر و نظر