خبریں

چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کمیشن کے لیے زیادہ خودمختاری کی مانگ کی

چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑہ نے حکومت کے کنٹرول سے پوری آزادی کی مانگ کرتے ہوئے دو دوسرے الیکشن کمشنروں کو بھی آئینی تحفظ دینے اور مالی آزادی دینے کی مانگ رکھی۔

چیف الیکشن  کمشنر سنیل اروڑہ(فوٹو : پی ٹی آئی)

چیف الیکشن  کمشنر سنیل اروڑہ(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: زیر التوا انتخابی اصلاحات کو نافذ کرانے کی سمت میں ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے الیکشن کمیشن نے گزشتہ مہینے لاء  سکریٹری کے ساتھ ہوئی میٹنگ میں حکومت کے کنٹرول سے پوری آزادی کی مانگ کی ہے۔انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، 21 جنوری کو لاء  سکریٹری سریش چندر کے ساتھ ہوئی میٹنگ میں چیف الیکشن  کمشنر سنیل اروڑہ نے الیکشن کمیشن کے تینوں ممبروں کے لئے آئینی تحفظ کے کمیشن کی مانگ کو دوہرایا۔

فی الحال، صرف چیف الیکشن  کمشنر کو ہی Impeachment کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے۔ جبکہ ان کے دو دوسرے ساتھیوں  کو چیف الیکشن  کمشنر کی سفارش پر حکومت کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے۔اس کے ساتھ ہی سلیکشن  کمیٹی نے کمیشن کے لئے مکمل  مالی آزادی کی بھی مانگ کی ہے۔ الیکشن  کمیشن چاہتا ہے کہ کیگ اور یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) کی طرح اس کا بجٹ بھی ہندوستان کے Consolidated فنڈ سے جاری ہو۔

 اس دوران اس نے پارلیامنٹ میں ووٹنگ کراکے اس کے بجٹ کو منظوری دینے کے موجودہ نظام  کی مخالفت کی۔اس طرح سے الیکشن  کمیشن پوری طرح سے خود مختار نہیں ہے کیونکہ عیاں طور پر ابھی بھی اس کو اپنے فنڈ اور تین میں سے دو کمشنر کے مستقبل کو لےکر مرکز پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔زیر التوا انتخابی اصلاحات پر گفتگو کے لئے پچھلے ایک سال میں پہلی بار الیکشن  کمیشن نے لاء  سکریٹری کے ساتھ میٹنگ کی۔

 اروڑہ سے پہلے چیف الیکشن  کمشنر او پی راوت اور اے کے جیوتی کے عہدے پر رہتے ہوئے کوئی میٹنگ نہیں ہوئی  تھی۔دو الیکشن  کمشنر کے آئینی تحفظ اور مالی آزادی کے ساتھ اروڑہ نے فیک نیوز کو الیکٹورل  جرم قرار دینے، پول ایفیڈیوٹ میں جھوٹ بولنے پر موجودہ جرمانے کو چھے مہینے سے بڑھاکر دو سال کرنے، Legislative Council کے انتخابات میں امیدواروں کے ذریعے خرچ کی جانے والی رقم کی حد طے کرنے اور ضمنی انتخاب میں اسٹار کیمپینرس  کی تعداد کو قومی پارٹیوں کے لئے 40 اور علاقائی پارٹیوں کے لئے 20 کرنے کی مانگ کی۔

فی الحال، Legislative  کاؤنسل الیکشن  لڑنے میں خرچ کی جانے والی رقم کی حد طے نہیں ہے۔ بتا دیں کہ صرف جموں و کشمیر، آندھر پردیش، بہار، اتر پردیش، مہاراشٹر، کرناٹک اور تلنگانہ میں ہی یہ کاؤنسل  ہیں۔غور طلب ہے  کہ پچھلی  دو دہائیوں سے انتخابی اصلاحات حکومتوں کے پاس زیر التوا ہیں۔ ان اصلاحات میں زیادہ تر انتخابی سیاست میں بد عنوانی کو ختم کرنے کے مقصدسے  مشورے دیےگئے ہیں۔

اروڑہ نے ان میں سے کچھ ہی مانگوں کو پچھلے مہینے دوہرایا ہے۔ حالانکہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے اس  میں سے بہت کم ہی حاصل ہو پائے گی  کیونکہ الیکشن  کمیشن کے زیادہ تر مشوروں کو نافذ کرنے کے لیے ری پریزنٹیشن آف دی پیوپل ایکٹ میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی۔