آمر اور آمریت آنی جانی چیزیں ہیں؛ جبکہ جذبہ حریت و آزادی پائیدار اور مستحکم ہوتا ہے۔ نریندر مودی و امت شاہ کی آمرانہ گرفت میں آنے سے قبل ایک گجرات تھا۔ جیسے ہی یہ گرفت کمزور ہوگی؛ ایک نئے اور آزاد گجرات کا طلوع ہوگا۔ میں اسی گجرات کو دیکھنے اور (اس میں بولنے) کے انتظار میں ہوں۔
میرا ماننا ہے کہ خیالات کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے۔ میں ریاست کا آلہ کار نہیں بننا چاہتا۔ میں آزادی چاہتا ہوں، اس لیے استعفیٰ دے رہا ہوں-
پروفیسر ہیمنت کمار شاہ، سابق پرنسپل ایچ کے کالج آف آرٹس، احمدآباد
اس ہفتے کے آغاز میں گجرات کے معروف نوجوان رہنما جگنیش میوانی کو ایچ کے کالج آف آرٹس، احمدآباد میں خطاب کرنے سے روک دیاگیا تھا۔ جگنیش اس کالج کے طالب علم رہے ہیں اور ان کو پرنسپل نے مدعو کیا تھا۔ یہ دعوت بعد میں ہندوتوادی عناصر کی دخل اندازی کے بعد ٹرسٹیز نے واپس لے لیا تھا۔ جس پر احتجاجاً پرنسپل اور وائس پرنسپل دونوں نے استعفیٰ دے دیا۔ راقم نے اس فیصلے کی تعریف میں ٹوئٹ کرکے کہا کہ ‘دونوں نے گجرات کی خوبصورت روایت کا نمونہ پیش کیا ہے۔ پٹیل، گاندھی اور ہنسا مہتہ اُن پر فخر کر رہے ہوں گے۔’
اس کالم کو پڑھنے والے تمام قارئین مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل کے نام سے تو اچھی طرح واقف ہیں، لیکن ہنسا مہتہ کو گجرات نے بھی فراموش کر دیا ہے۔ اس لیے مجھے ان کے بارے میں کچھ بتانا چاہیے۔ وہ جذبہ حب الوطنی سے سرشار جوڑے کی نصف بہتر تھیں۔ ان کے شوہر ڈاکٹر جیوراج مہتہ لندن سے تربیت یافتہ ایک ماہر معالج تھے۔ اکثر گاندھی جی کا علاج بھی وہی کرتے تھے۔ جدوجہدِ آزادی کے دوران لمبے وقت تک انہیں جیل میں بھی رہنا پڑا تھا۔ اس دوران ہنسا آل انڈیا وومنس کانفرنس کے لیے کام کرنے کے ساتھ سماج و سیاست میں صنفی مساوات کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔ ہندوستان کی دستورساز مجلس میں شامل گنتی کی خواتین ممبران میں سے ایک ہونے کی وجہ سے بعد میں انہیں اقوامِ متحدہ میں ملک کی نمائندگی کرنے کا موقعہ ملا۔ یہاں انہوں نے واقعی ایک بڑا کام کر دکھایا۔ اس وقت حقوقِ انسانی کا عالمی اعلامیہ تیار کیا جا رہا تھا۔ اس میں ایک جگہ لکھا تھا، ‘تمام مرد یکساں تخلیق کیے گئے ہیں۔’ انہوں نے اسے یوں سدھار دیا، ‘تمام انساں یکساں تخلیق کیے گئے ہیں۔’
1949 میں جب مجلسِ دستورساز کا کام ختم ہو گیا تو ہنسا مہتہ بڑودہ کی مہاراجہ ستیاجی راؤ یونیورسٹی کی پہلی وائس چانسلر بننے کے لیے واپس اپنے وطن گجرات لوٹ آئیں۔ اس وقت تک امریکہ یا برٹن کی کسی بھی بڑی یونیورسٹی نے کسی خاتون کو وی سی جیسا باوقار عہدہ پیش نہیں کیا تھا۔ بہرحال، ان کے یہاں پہنچنے کے ایک سال بعد ہی مہاتما گاندھی کی موت ہو گئی۔ لیکن ان کی فکر و عمل کا خاصہ اثر یہاں موجود تھا۔ اس کے ساتھ ہی بڑودہ کے راجے مہاراجے ترقی پسند فکر کے حامل تھے۔ نتیجہ یہ تھا کہ ملک (اور دنیا) کے دیگر حصوں کی بہ نسبت اس شہر اور اس ریاست میں شدت پسندی اور بنیاد پرست عوامل کے اثر انداز ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ہنسا مہتہ کی قیادت میں ایم ایس یونیورسٹی نے سائنس کے ساتھ ہی علومِ بشری میں اعلیٰ اور باوقار مقام قائم کر دیا۔ 1950 میں ہی نسبتاً اس نئی یونیورسٹی نے ملک کی دیگر قدیم بامبے، کلکتہ اور مدراس یونیورسیٹیز سے اعلیٰ رینک حاصل کر لی۔ یہ سب اس کی کرشمائی وائس چانسلر کی لیاقت محنت کا ثمرہ تھا، جس نے پین انڈین صلاحیتوں کو یہاں جمع کر لیا تھا۔ کیرل اور بنگال کے ساتھ دیگر ریاستوں کے پینٹر و سنگ تراش یہاں کے اساتذہ میں شامل تھے، جس سے اسے فائن آرٹس کے شعبے میں ملک کے مؤقر ادارے کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ ہنسا مہتہ نے جن غیر گجراتی ماہرین کو پروفیسر کے عہدے پر فائز کیا، ان میں میسور سے تعلق رکھنے والے ملک کے صفِ اول کے ماہرِ عمرانیات ایم این سری نِواس، تمل میاں بیوی بایو کیمسٹ سی وی رام کرشن و سائیکولاجسٹ راج لکشمی رام کرشن جیسے اپنے شعبے کے ماہرین شامل تھے۔ رام کرشن خاندان میں دو بچے تھے، جنہوں نے اپنی پہلی ڈگری اسی جامعہ سے حاصل کی۔ للیتا آج کیمبرج میں پروفیسر ہیں، تو وینکٹ رمن (وینکی) نے نوبل پرائز حاصل کر لیا۔
اس بیچ ہنسا مہتہ کے کام کی تقلید احمدآباد میں بھی ہونے لگی، جہاں سارابھائی جیسے مخلص رضاکار نے کئی باوقار ادارے قائم کیے۔ ان میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈِیزائن، دی انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (آئی آئی ٹی) کے ساتھ د ی فزیکل رِیسرچ لیبارٹری شامل ہیں۔ ان باوقار اداروں میں بھی نہ صرف پورے ملک بلکہ کبھی کبھی غیر ممالک سے بھی اساتذہ اور طلبا آتے تھے۔
چالیس سال پہلے جب میرا پہلی بار گجرات جانا ہوا، تب یہ ریاست دانشوران، سائنسداں، مصنفین و کلاکاروں کو اعزازیاب کرنے (و انہیں پناہ دینے) کے لیے پہچانی جاتی تھی۔ ہنسا مہتہ و وکرم سارا بھائی کی سنہری روایات باقی تھیں۔ ایم ایس یونیورسٹی کے پروفیسران و این آئی ڈی کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی وہاں کے ماحول میں علم و فضل کی تازگی محسوس کر سکتا تھا۔ کہنے کو تو یہ ادارے گجرات میں تھے، لیکن ان کی غیر مرئی موجودگی ہندوستان کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف حصوں میں پائی جاتی تھی۔
ایک وقت تھا کہ گجرات میں عالمی سطح کے بنگالی و تمل دانشوران پائے جاتے تھے۔ وہاں کے ادارے مستقبل میں نوبل پرائز جیتنے والا ایک اعلیٰ ذہن تیار کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ کیا وہ وقت لوٹ سکتا ہے؟ یہ سوال پچھلے سال ذہن میں تب اٹھا جب گجرات میں قائم ایک نئی پرائیویٹ یونیورسٹی کی جانب سے مجھے پروفیسرشپ کی پیشکش کی گئی۔ اسے میں نے قبول کر لیا کہ یہ فطری تھا، لیکن اس کی ایک دوسری بڑی وجہ اور تھی۔ یہ کہ میں ایک عالمی شہرت یافتہ ماڈرن گجراتی کا سوانح نگار تھا اور میں اس شہر میں جسے مہاتما نے کبھی اپنا گھر کہا تھا، گاندھی وِنٹر اسکول کی سربراہی کے تصور سے بے حد خوش تھا۔
لیکن یہ موقعہ مجھے نہ مل سکا کیوں کہ دہلی کے اقتدار پر قابض طاقتور سیاستدانوں نے یونیورسٹی کے ٹرسٹیز کو فون کر کے میری تقرری کے خلاف وارننگ دی۔ باقی کام احمداباد میں اکھِل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے غنڈوں کی دھمکیوں نے کر دیا۔ میں گجرات میں رہ نہیں سکتا تھا، نہ ہی وہاں پڑھا سکتا تھا۔ لیکن میں نے سوچا کہ کبھی کسی پروگرام میں لیکچر دینے کا موقعہ ملا تو ضرور جاؤں گا۔ اسی بہانے وہاں موجود اپنے دوستوں و ہم مشرب اصحاب سے مل آؤں گا۔ اس لیے جیسے ہی احمداباد کے ایک ممتاز گاندھی وادی ادارے نے مہاتما کے بارے میں بولنے کے لیے مجھے مدعو کیا تو میں نے فوراً قبول کر لیا۔
میں بے تابی سے احمداباد کے اپنے اس سفر کا انتظار کرنے لگا۔ گاندھی کے سابرمتی آشرم میں بِتائے وقت پر میں نے اپنی مطالعہ جاتی تیاریاں بڑی حد تک مکمل کر لی تھیں۔ ویسے بھی اس شہر سے مجھے بڑا لگاؤہے۔ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران گاندھی پر دہلی، ممبئی حیدرآباد، بنگلورو، کولکاتہ، چنئی، کوزیکوڈ، بوسٹن، نیویارک، لندن سمیت کئی مقامات پر میرے لیکچرز ہو چکے ہیں۔ آخرکار اب اُس شہر کا وقت آیا، جسے گاندھی نے اپنا گھر بنایا تھا۔
3 مارچ 2019 اتوار کو یہ سیمینار ہونا تھا۔ بولنے کے لیے میں نے ‘مہاتما گاندھی بحیثیت کمیونیکیٹر’ موضوع کا انتخاب کیا تھا۔ 11 فروری پیر کی صبح میرے پاس پروگرام کے منتظمین کا ای میل آیا۔ اس میں ‘خصوصی گزارش’ کی گئی تھی کہ میں ‘موجودہ مرکزی سرکار کے خلاف بولنے سے گریز’ کروں۔ میں نے جواباً ای میل میں تحریر کیا کہ ‘میں اپنی بات مہاتما گاندھی، ان کی زندگی اور ان کی وراثت تک محدود رکھوں گا، اور موجودہ سیاستدانوں یا سرکار کے بارے میں کچھ نہں بولوں گا۔’
اس کے بعد 13 فروری بدھ کو احمداباد سے میرے پاس ایک فون آیا کہ ‘موجودہ ماحول کو’ دیکھتے ہوئے سیمینار نہیں کیا جا سکتا۔ مخمصے میں گرفتار اپنے میزبانوں کو میں مزید شرمندگی سے دوچار نہیں کرنا چاہتا تھا، سو میں نے ان سے اس بابت کچھ نہیں پوچھا۔ ہو سکتا ہے اس ہفتے ایچ کے کالج آف آرٹس میں جو کچھ ہوا، میرے لیکچر کو رد کیے جانے کا اس سے کوئی تعلق ہو۔
جگنیش میوانی اور راقم کی عمر، کام کاج، سماجی پس منظر اور یہاں تک کہ فکری تناظر بھی جدا ہیں۔ ہم دونوں میں جو مماثلت ہے، وہ یہ کہ ہم موجودہ مرکزی سرکار کی تنقید کرتے رہتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ میوانی ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی حیات و فکر کے تناظر میں اپنی بات رکھتے ہیں اور میں احمدآباد میں گاندھی کی حیات و فکر کی روشنی میں بات کرنے والا تھا۔ فی الحال ہم دونوں کو ایک ہی وجہ کی بنیاد پر گجرات میں اپنی باتیں کہنے سے روک دیا گیا ہے۔ بظاہر گجرات کے ‘آزاد’ اور ‘خود مختار’ ادارے تک، اس وقت خوفزدہ ہیں۔ وہ محض اس شبہ میں کہ کہیں وزیر اعظم کے خلاف کچھ بول نہ دیں، ہندوستانی باشندوں کو دیے دعوت نامے واپس لے رہے ہیں۔
اسی لیے میں نے ایچ کے کالج آف آرٹس کے پرنسپل و وائس پرنسپل ہدیہ تبریک پیش کیا کہ انہوں نے آزادی اظہار رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کے اس قدم نے پرانے اور ایک زرین گجرات کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ پٹیل، گاندھی اور (علی الخصوص) ہنسا مہتہ کے گجرات کی۔ میرے دل و دماغ میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ کھلا پن جو ریاست کی فضاؤں میں تھا، ایک دن ضرور لوٹے گا۔ آمر اور آمریت آنی جانی چیزیں ہیں؛ جبکہ جذبہ حریت و آزادی پائیدار اور مستحکم ہوتا ہے۔ نریندر مودی و امت شاہ کی آمرانہ گرفت میں آنے سے قبل ایک گجرات تھا۔ جیسے ہی یہ گرفت کمزور ہوگی؛ ایک نئے اور آزاد گجرات کا طلوع ہوگا۔ میں اسی گجرات کو دیکھنے اور (اس میں بولنے) کے انتظار میں ہوں۔
(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)
Categories: فکر و نظر