یہ کتاب محض پسند کی شادی کے رومان کی سنسنی خیز اور دلچسپ حکایت رقم نہیں کرتی بلکہ پارسیوں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات، ہندو مسلم روابط، کانگریس اور مسلم لیگ کے اشتراک اور پھر اختلافات بلکہ مخاصمت کے اور انگریزوں کے تئیں جناح کے رویہ کی تفصیلات پوری معروضیت کے ساتھ پیش کرتی ہے۔
برصغیر کی سیاسی تاریخ، فن خطابت اور قانونی مہارت کے جن ناگزیر حوالوں سے مرتب اور متشکل ہوتی ہے اس میں ایک اہم نام محمد علی جناح کا ہے اور انہیں عام طور پر بانی پاکستان، برصغیر کے خوں آشام تقسیم اور صدیوں پرانی رواداری اور باہمی موانست و اخوت سے نمو پذیر ہونے والی گنگا جمنی تہذیب کو ناقابل تلافی زک پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ محمد علی جناح کے سیاسی افکار و نظریات اور مسلم قوم پرستی کی پر جوش ترویج کو مسلسل توجہ کا مرکز ، انگریزی، اردو اور ہندی سمیت مختلف زبانوں میں جناح کو معروضی تحقیق، مدح سرائی اور تنقیص کا ہدف بنایاجارہا ہے۔
سیاسی قائد، عوامی دانش ور اور ماہر قانون کے طورپر جناح کی شبیہ ابھارنے کی لاتعداد کوششیں کی گئی ہیں مگر ان کے سوانحی کوائف اور ان کی جذباتی، رومانی اور سیاسی زندگی کو مرکوز پہلو دار بیانیہ خلق کرنے کی کوششیں شاذ ہی کی گئی ہیں۔ حکومت برطانیہ کے زوال کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور ان کی سیاسی تقدیر کو ایک متعین جہت عطا کرنے کے ضمن میں محمد علی جناح کے رول سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا اور اس کی تفہیم ان کی شخصیت کے داخلی اور نہاں گوشوں کے تناظر سے زیادہ بہتر طور پر کی جا سکتی ہے۔
سردمہری، تکلفانہ خوش اخلاقی اور اعتدال پر اصرار کے دبیز پردے کے پیچھے ناآسودہ خواہشات، آرزومندی اور جذباتی تلاطم کی کیسی تغیر آسا دنیا آباد ہے اور اس کا اظہار کس طرح اخفا کی صورت میں نمایاں ہوتا ہے، یہ ایسے نکات ہیں جنہیں محض شخصی روابط اور گہرے جذباتی تعلق کی نفسی کیفیات کے توسط سے بخوبی خاطر نشان کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں یادداشتوں، خطوط اور قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے تاثرات اور مشاہدات سے استفادہ کرنا لازمی ہے۔
مقام مسرت ہے کہ یہ دشوار گزار تحریری فریضہ مشہور صحافی شیلا ریڈی نے بڑی فنی مہارت اور تخلیقی تازہ کاری کے ساتھ انجام دیا ہے۔ اصل انگریزی تصنیف کا اردو ترجمہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، کراچی نے مسٹر اینڈ مسز جناح: ہندوستان کی ایک حیران کن شادی‘‘ کے عنوان سے حال ہی میں شائع کیاہے۔
شیلا ریڈی نے جناح کی تمنائی اور حسیاتی زندگی کے نقوش سروجنی نائیڈو، کانجی، پدمجانائیڈو اور رتی جناح کے خطوط اور دوارکا داس کی تحریروں اور پارسیوں کی اجتماعی زندگی کے متعدد واقعات کی وساطت سے پوری تابندگی کے ساتھ واضح کیے ہیں اور جناح کی شخصیت کے مختلف ابواب بڑی چابکدستی سے وا کیے ہیں۔ شیلا ریڈی نے محض محمد علی جناح کی بین المذہبی شادی کی راہ میں مزاحم ہونے والی رکاوٹوں کو موضوع بحث نہیں بنایا بلکہ بیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کی معاشرتی زندگی کے تضادات کو بھی بے نقاب کیا ہے۔
سروجنی نائیڈو کے والد اگھوری چٹوپادھیائے، پنڈت موتی لعل نہرو اور پنجاب کی معروف شخصیت ہرکشن لال اور دنشا پیٹٹ سیکولراور لبرل اقدار کے حامل تھے اور بین المذہبی، بین المسلکی اور بین الفرقہ شادی اور تکثیری معاشرہ کے قیام کے لیے کوشاں رہتے تھے، تاہم جب مسئلہ ان اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کا آیا تو ان کا رویہ بالکل مختلف اور عام غیر تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کا سا تھا۔
اگھوری چٹوپادھیائے نے اپنی صاحبزادی سروجنی نائیڈو کی ایک غیر بنگالی تیلگو برہمن سے شادی کی تجویز کو سختی سے مسترد کیا تو موتی لعل نہرو نے پنڈت وجے لکشمی کے معروف صحافی سید حسن سے رشتے کو بڑی حکمت عملی سے ختم کرایا۔اسی طرح جناح کے سسر دنشا پیٹٹ نے اپنی بیٹی رتی کی شادی کی بڑی سختی سے مخالفت کی اور جناح کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ گو کہ اس میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اسی طرح مشہور کاروباری کرشن لال نے اپنے بیٹے کنہیا لال گابا (کے ایل گابا)کے عزیز حسن کی بیٹی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی تجویز کو قبول نہیں کیا۔
شیلا ریڈی نے ان عوامی دانش وروں کے قول و عمل میں تضاد کے پہلو دقت نظری اور دستاویزی شواہد کے ساتھ اجاگر کیے ہیں۔جناح کے خاندان کے بارے میں مکمل تفصیلات منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔ ان کے والد اور والدہ کے سلسلے میں معلومات خاصی تشنہ ہیں۔ جناح کے ابتدائی زندگی کے نقوش بھی بہت زیادہ واضح نہیں ہیں۔ شیلا ریڈی کے مطابق جناح کی پہلی شادی ایمی بائی سے ہوئی ، جب ان کی عمر16 اور دلہن کی عمر14 سال تھی۔ اس کے بعد جناح ایک کمپنی میں ملازم ہوکر لندن چلے گئے اور اسی درمیان میں ایمی بائی کا انتقال ہو گیا۔
خود اعتمادی، سخت محنت اور غیر جذباتیت جناح کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی تھے اور ان پر عمل پیرا ہوکر انہوں نے فقید المثال کامیابی حاصل کی۔ جناح ایک کمپنی میں چھوٹی سی ملازمت پر فائز تھے اور انہوں نے پیسے بچا کر بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی جس کے لیے انہوں نے ہر طرح کی صعوبتیں اٹھائیں۔
20ابواب میں منقسم یہ کتاب محض پسند کی شادی کے رومان کی سنسنی خیز اور دلچسپ حکایت رقم نہیں کرتی بلکہ پارسیوں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات، ہندو مسلم روابط، کانگریس اور مسلم لیگ کے اشتراک اور پھر اختلافات بلکہ مخاصمت کے اور انگریزوں کے تئیں جناح کے رویہ کی تفصیلات پوری معروضیت کے ساتھ پیش کرتی ہے۔
جناح رتی کے والد کے تقریباً ہم عمر تھے اور ان میں اور رتی میں 24 برس کا تفاوت تھا شیلا نے جناح کی رتی کے ساتھ شادی کے محرکات اور پس منظر کی وضاحت پہلے باب میں کی ہے۔ ان کے مطابق دوسال تک دنیاکو قیاس آرائیوں میں مبتلا رکھنے کے بعد اپریل 1918ء کی ایک گرم شام کو محمد علی جناح نے رتی پیٹٹ سے شادی کر لی جو ایک امیر پارسی بیرونیٹ کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ وہ 42 سال کے ٹھنڈے مزاج کے ایک سنجیدہ آدمی تھے، جنہوں نے اپنی زندگی اپنے محتاط انداز سے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت گذاری تھی اور دو دہائیوں کی سخت محنت کے بعد عین اس مقام پر پہنچے تھے جہاں وہ خود کو دیکھنا چاہتے تھے۔
ملک کے سب سے زیادہ معاوضہ پانے والے وکیل، وائسرائے کی امپیریل کونسل کے منتخب ممبر، مسلم سیاست کے سب سے بلند قامت قائد جو کانگریس کے سب سے اہم لیڈر بننے کی جانب گامزن تھے، ان کے اب تک منصوبوں میں شادی شامل نہیں تھی۔وہ بھی ایک ایسی امیر سوسائٹی گرل سے جو ان سے نصف عمر کی تھیں۔ لیکن ایک مرتبہ رتی سے شادی کر لینے کے فیصلے کے بعد وہ اپنی مخصوص پر عزم مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے ارادے کی تکمیل کی جانب چل پڑے۔ وہ پلک جھپکائے بغیر بے شمار تضحیک اور تحقیر آمیز تنقید کا سامنا کرتے، مہارت کے ساتھ اپنے راستے میں بچھائی گئی رکاوٹوں کو عبور کرتے اور ہر قدم اپنی زیرک منصوبہ بندی سے اٹھاتے رہے۔
جناح عقل کی پاسبانی سے عارضی دستبرداری کے بھی قائل نہیں تھے۔ جب رتی نے پیش قدمی کرتے ہوئے انہیں اپنی جانب پوری طرح ما ئل کرلیا ، اس وقت رتی کی عمر 16 سال تھی۔ جناح نے اپنی ’’زیرک منصوبہ بندی‘‘ کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے مزید دو برس کے لیے موخر کردیا اور رتی جب 18 برس کی ہوئی تو انہوں نے اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے بجائے رتی کو اسلام قبول کرنے کے لیے راضی کرلیا۔ اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت جناح اور رتی دونوں کو اپنے روایتی مذاہب سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا حلف نامہ بھرنا پڑتا جو جناح کے سیاسی عزائم سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔
رتی کے والد ایک انتہائی دولت مند اور باعزت پارسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے گھر پر اکثر جناح مہمان کے طور پر ٹھہرتے تھے اور یہیں سے رتی سے تعلق پیدا ہوا جس نے جلد ہی عشق کی صورت اختیار کرلی۔ رتی کو والدین کی جانب سے مکمل آزادی حاصل تھی اور جناح کے ساتھ گھومنے پھرنے اور تفریح کے بھرپور مواقع میسر تھے۔ رتی کے والد دنشا پیٹٹ کو جب جناح کے عزائم کا علم ہوا تو انہوں نے عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ درج کرایا تاہم رتی نے ان کے خلاف گواہی دی۔ جناح کی شادی رتی کے ساتھ اسماعیلی رسوم کے ساتھ ہوئی۔
اس کتاب کے مشمولات سے اندازہ ہوتا ہے کہ جناح میں نرگسیت کے عناصر بیش ازبیش موجود تھے اور ان کے نزدیک شہرت اور اقتدار کا حصول ہی حاصل زندگی تھا۔ یہی سبب تھا کہ وہ انسانی روابط کو اپنی منزل مقصود نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی ازدواجی زندگی کی تلخی کا سبب بھی یہی تھا۔ وہ رتی پر بے دریغ پیسہ لٹاتے تھے مگر ان کے ساتھ وقت بہت کم گذارتے تھے۔ رتی نے ابتدا میں ان کی سیاسی سرگرمیوں میں بڑی دلچسپی دکھائی اور بہت سے جلسوں میں انہوں نے شرکت بھی کی مگر رفتہ رفتہ یہ سلسلہ ختم ہوا۔
اولاً توبیٹی کی پیدائش اور پھر جناح کی بے پناہ مصروفیت نے ان کی زندگی کے ڈھرے کو یکسر تبدیل کر دیا تھا۔ بچی کی نگہداشت نوکرانیوں کے سپرد تھی لہٰذا وہ خود کو بچی کی پرورش میں مصروف نہ کر سکیں۔ تنہائی ان کی رفیق تھی اور سروجنی نائیڈو، کانجی اور پدمجا نائیڈو کی دوستی بھی انہیں ڈپریشن سے بچا نہ سکی اور وہ 29 برس کی عمر میں اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔ فاطمہ جناح کو بھی اس سلسلہ میں مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کے خانگی معاملات میں روایتی نند کا رول ادا کرتی تھیں۔
رتی مغربی طرز کا لباس زیب تن کرتی تھیں اور اکثر کھلے گلے کا بلاؤز پہنتی تھیں اور ان کے شانے بھی کھلے رہتے۔ جناح اس سلسلے میں کسی قسم کی پابندی کے قائل نہیں تھے اور رتی کی پسند کا وہ احترام کرتے تھے۔شیلا نے لکھا ہے کہ ایک بار رتی گورنر کے یہاں پارٹی میں اسی طرح کی ساڑی پہن کر چلی گئیں ۔ لیڈی ویلنگڈن نے اے ڈی سی سے ان کے لیے شال منگوائی۔ اس پر جناح کو طیش آگیا اور وہ پارٹی چھوڑ کر چلے گئے۔
مصنفہ نے اس نوع کے کئی واقعات لکھے ہیں اور رتی کے خطوط کے حوالے بھی کثرت سے دیے ہیں جو انہوں نے سروجنی نائیڈو اور پدمجا کو لکھے تھے۔
اس کتاب کی ا متیازی صفت یہ ہے کہ شیلا ریڈی نے جناح کے سیاسی عقائد کو طنز و تشنیع کا نشانہ نہیں بنایا ہے اور نہ ان کی مدح سرائی کی ہے۔ واقعات معروضیت کے ساتھ درج کیے گئے ہیں۔
مصنفہ کے نزدیک جناح کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی لاتعلقی اور سرد مہری تھی جس کے باعث انہوں نے بڑی مقبولیت حاصل کی اور ان کے یہاں انسانی دردمندی کا احساس بھی تھا۔ مصنفہ نے لکھا ہے کہ رتی کے انتقال پر پہلی بار جناح کو آنسو سے روتے ہوئے دیکھا گیا اور جب وہ ممبئی سے رخصت ہو رہے تھے تو وہ قبرستان گئے اور رتی کی قبر پر جاکر روئے۔یہ دو مواقع ایسے تھے جب جناح کو حد درجہ جذباتی دیکھا گیا۔
مصنفہ نے جناح اوررتی سے متعلق ایسی اطلاعات جمع کرد ی ہیں جن سے واقفیت عام نہیں ہے اور یہ کتاب جناح کی شخصیت کا ایک نیا نقش قائم کرتی ہے جس کے لیے شیلا ریڈی کی پذیرائی کرنا ضروری ہے۔
(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)
Categories: ادبستان