پچھلے سال بھی انڈین ریلوے کی63ہزار ملازمتوں کے لیے19 ملین درخواستیں جمع کرائی گئی تھيں۔
تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمت فراہم کرنا ہندوستانی وزير اعظم نریندر مودی کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔ ہندوستان ميں عنقريب عام انتخابات ہونے والے ہيں، جن ميں يہ صورتحال رائے دہی کے عمل ميں نماياں کردار ادا کر سکتی ہے۔
ہندوستانی نوجوان وشال چوہدری کے پاس روشن عزائم بھی ہیں اور ایم بی اے کی ڈگری بھی، کمی ہے تو صرف نوکری کی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چيت کرتے ہوئے چوہدری نے بتايا، ’’میں نے پچھلے ایک سال میں تقريباً پچاس انٹرویوز دیے ہیں۔ تاہم ميں ملازمت کے حصول ميں کامیاب نہ ہو سکا۔ ايک کمپنی نے مجھے نوکری پر رکھا تاہم پھر اس نے بھی کئی لوگوں کو فارغ کر ديا اور ميں پھر اسی مقام پر پہنچ گيا، جہاں سے ميں نے شروع کيا تھا۔ جب پریشانی حد سے بڑھ گئی، تودلبرداشتہ ہو کر میں بھی ان تيئس ہزار دارخواست گزاروں کا حصہ بن گیا، جو پانچ سرکاری نوکریوں کے لیے اپنی قسمت آزما رہے تھے۔‘‘
ہندوستان ایشیا کی تیسری بڑی معیشت ہے ليکن وہاں روزگار کی منڈی میں یہ اعداد و شمار غیر معمولی نہیں ہیں۔ پچھلے سال بھی ہندوستانی ریلوے کی63ہزار ملازمتوں کے لیے19 ملین درخواستیں جمع کرائی گئی تھيں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں نئی دہلی حکومت زيادہ کامياب دکھائی نہيں ديتی۔ يہی وجہ ہے کہ وزير اعظم نريندر مودی کا ووٹ بینک بھی اس سے متاثر ہو سکتا ہے۔ ہندوستان میں اس سال گيارہ اپریل سے انيس مئی تک انتخابات ہوں گے جبکہ ان کے نتائج کا اعلان تيئس مئی کو متوقع ہیں۔
ہندوستان کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور یقینی روزگار فراہم کرنے کے وعدے کے ساتھ نریندر مودی نے سن 2014 میں ہندوستانی وزير اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے وعدہ کیا گیا تھا کہ ملک ميں ہر ماہ ايک ملین نئی ملازمتيں سامنے آئيں گی۔ مگر یہ وعدہ وفا نہیں ہو پایا۔
ہندوستان کی65 فیصد آبادی 35سال سےکم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ حال ہی میں ملکی کی اقتصادی نمو کی شرح بھی 8 فیصد سے کم رہی، جو ملازمت کے نئے مواقع کے ليے درکاری ہوتی ہے۔ ہندوستان کے ایک اخبار نے حکومت کی ايک خفيہ رپورٹ کے حوالے سے لکھا کہ ملک ميں بے روزگاری کی شرح سن 1970 کے بعد اپنی بلند ترين سطح پر ہے۔
حزب اختلاف کی کانگریس پارٹی کے سربراہ راہول گاندھی کے مطابق، ’’اس تباہی کے ذمہ دار نریندر مودی ہیں۔ ان کی دو پالیسیوں کا ہندوستان کو بہت نقصان پہنچا ہے، جن میں ایک ’ڈی مونیٹائیزیشن(حکومت کا پرانی کرنسی کو نئی سے تبدیل کر دینا) اور دوسرا سروسز ٹیکس ہے۔‘‘
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر سنتوش مہروترا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا، ’’نوجوانوں کے لیے تعلیم اور روزگار دو بہت اہم موضوعات ہیں۔ موجودہ حکومت ان کی فراہمی میں ناکام ہوگئی ہے۔ ايسی کارکردگی کے بعد حکومت ووٹ کی حقدار نہیں ہے۔‘‘
Categories: خبریں