مودی کی تشہیر کرنے والے ان کو چوکیدار کہنے والی مہم کا سہارا لے کر ان کی امیج بدلنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کی بد عنوانی مخالف امیج کا پتہ ان کے دفتر اور حکومت کے ذریعے بڑے صنعت کاروں کی مبینہ مجرمانہ بد عنوانی کے معاملوں پر کارروائی نہ کرنے سے لگایا جا سکتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی میں غضب کی بے شرمی ہے۔ ان کی پارٹی کی میں بھی چوکیدار [MainBhiChowkidar#]مہم ایسے وقت میں شروع کی گئی ہے جب سپریم کورٹ یہ جانچ کر رہی ہے کہ قومی سلامتی کو الگ رکھتے ہوئے کیا رافیل معاملے سے متعلق نئے حقائق پر توجہ دی جاسکتی ہے یا نہیں۔اس کے علاوہ مبینہ بد عنوانی کے کئی سنگین معاملے جیسے-رگھو رام راجن ذریعےدی گئی بڑے ڈفالٹرس کی فہرست، 2جی معاملے کی اپیل اور نیرو مودی معاملے کی جانچ اب تک چوکیدار کا دھیان کھینچنے میں ناکام رہے ہیں۔
مودی کی تشہیر کرنے والے ان کو چوکیدارکہنے والی مہم کا سہارا لے کر ان کی امیج بدلنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ مودی کی بد عنوانی-مخالف امیج کی سچائی کا اندازہ ان کے دفتر اور حکومت کے ذریعے بڑے صنعت کاروں کی مبینہ مجرمانہ بد عنوانی کے معاملوں پر کارروائی کرنے سے انکار سے لگایا جا سکتا ہے۔مودی کیبے تحاشہ تشہیر کو ایک منٹ کنارے رکھکر صرف ان حقائق پر دھیان دیں۔ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے نریندر مودی کی مدت کار کے شروعاتی 8 مہینوں کے اندر ہی ان کے دفتر کو ہائی-پروفائل لون ڈفالٹرس کی فہرست بھیجی تھی۔
راجن ان پر مختلف ایجنسیوں کے ذریعے جانچ کرواتے ہوئے کارروائی چاہتے تھے، جس سے کہ یہ ایسے باقیوں کے لئے سبق کے ہوں۔آپ سوچیںگے کہ تب تو چوکیدار نے فوراً بد عنوانی کو جواب دہ ٹھہرانے کے لئے جانچکے حکم دے دئے ہوںگے۔ پر آپ غلط ہیں۔سماجی کارکن سورو داس نے ایک آر ٹی آئی درخواست بھیجکر جواب مانگا تھا کہ کیا وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) کےذریعے یہ فہرست سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسیس (سی بی ڈی ٹی) کو بھیجی گئی اور اس کی تفتیش شروع ہوئی۔ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ پی ایم او کے ذریعے کسی کارروائی کا کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی اس فہرست کو شیئر کیا گیا ہے۔
یہاں تک کہ سینئر بی جے پی رہنما مرلی منوہر جوشی کی صدارت والی ایسٹیمیٹ کمیٹی کے ذریعے 6 تحریری ریمائنڈر بھیجے جانے کے باوجود پی ایم او کے ذریعے پارلیا منٹ میں راجن والی فہرست اور ان مبینہ گھوٹالےبازوں پر کی گئی کارروائی کے بارے میں بتانے سے منع کر دیا۔اس سے بھی خراب یہ ہے کہ مرلی منوہر جوشی کی رپورٹ فائنل کرنے کے وقت جب راجن نے ان کو ان ناموں کی فہرست دی، تب اس کمیٹی میں شامل بی جے پی رکن پارلیامان نے میٹنگ میں آنے سے منع کر دیا۔ اس سے یہ یقنیی بنایا گیا کہ اس رپورٹ پر کوئی فیصلہ لینے کی حالت میں خاطرخواہ ممبر وں کی تعداد نہ ہو۔
سی بی آئی اور ای ڈی کے اعلیٰ ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ پی ایم او کے ذریعے نہ تو ایسی کوئی فہرست شیئر کی گئی ہے، نہ ہی کسی کارروائی کے لئے کہا گیا ہے۔مودی کی ٹیم بھلےہی اس کو کسی بھی طرح گھمائے یا الگ طرح سے پیش کرے، سچ یہی ہے کہ ریزرو بینک کےگورنر کی واضح سفارش کے باوجود حکومت نے ارب پتی گھوٹالےبازوں پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
مودی ہائی-پروفائل 2جی اسپیکٹرم گھوٹالہ کی لہر پر چڑھکر اقتدار تک پہنچے تھے لیکن ان کی حکومت کی لاپروائی سے بھری بےکار جانچکی وجہ سےیہ معاملہ عدالت میں ٹک نہیں پایا۔ اسپیشل کورٹ کے جج اوپی سینی نے سابق ٹیلی کام کے وزیر اے راجا سمیت تمام 17 ملزمین کو بری کر دیا۔اس شرمندگی کے بعد حکومت کے لوگوں نے جج اور سرکاری وکیل کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ پھر بھی سی بی آئی کے ذریعے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے بعد گزشتہ ایک سال میں اس معاملے کی ایک بھی مناسب سماعت نہیں ہوئی، جہاں حکومت بنا کسی مزاحمت کے اس کو بار بار ٹالنے دے رہی ہے۔
مجھے ایک سینئر وزیر نے بتایا، ایک بار ہم ہیڈلائنس مینج کر لیتے ہیں، مودی جی کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ آخر جیسے بوفورس معاملے میں گاندھی فیملی کے کچھ قریبی تھے، ویسے ہی 2جی سے جڑا ایک آدمی وزیر اعظم کا پیارا ہے۔ شو کیا، ختم کیا۔ایک دوسرا معاملہ جہاں راجن کی دی گئی فہرست کی جھلک دکھتی ہے، مودی حکومت نے یوکے کے سیریس فراڈ آفس (ایس ایف او) کے ذریعے ہیرا کاروباری نیرو مودی کو گرفتار کرنے کی درخواست کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ہے۔
جب اس ہیرا کاروباری نے ہندوستان سے بھاگکر یوکے میں پناہ لی تھی، تب برٹش حکومت نے اس کے ‘کریمنل فراڈ ‘ کو دیکھتے ہوئے اس کو گرفتار کرنے میں مدد کرنے کی بات کہی تھی۔ایس ایف او نے گزشتہ سال مارچ میں ہندوستانی افسروں کو بتایا تھا کہ نیرو مودی لندن میں ہے اور اس کو گرفتار کرنے کے لئے ضروری دستاویز لانے کے لئے ایک ٹیم ہندوستان بھیجنے کی تجویز بھی رکھی تھی۔ لیکن حکومت ہند کے ذریعے اس کو بنا کسی وجہ کے لٹکا دیا گیا۔
مجھے کچھ ذرائع نے بتایا کہ اس بارے میں پی ایم او میں گفتگو ہوئی تھی اور قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے)اجیت ڈوبھال کو اس کی اطلاع دی گئی تھی، لیکن پھر بھی مودی حکومت نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔سابق سی بی آئی ڈائریکٹرآ لوک ورما کے ذریعے متنازعہ رافیل معاہدے کی جانچکے حکم پر مودی حکومت کی تشویش کا نتیجہ ورما کی آدھی رات کو ہوئی برخاستگی تھی۔
اب مرکزی حکومت نے متنازعہ افسروں کو بدلا لینے اور وصولی کی اجازت دےکر سی بی آئی اور ای ڈی کی خودمختاریت کو تباہ کر دیا ہے۔ان سب سے صرف ایک بات واضح ہوتی ہے-جہاں سرخیاں بٹورنے والوں کی فوج بہت اچھی طرح سے خبریں مینج کر رہی ہے، وہیں سچ یہی ہے کہ مودی بد عنوانی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر