پنیہ پرسون باجپئی کو نکالنے والوں نے آپ کو پیغام بھیجا ہے۔ اب آپ پر ہے کہ آپ خاموش ہو جائیں، ہندوستان کو بزدل انڈیا بن جانے دیں یا آواز اٹھائیں۔ کیا واقعی بولنا اتنا مشکل ہو گیا ہے کہ بولنے پر سب کچھ ہی داؤ پر لگ جائے۔
وہاٹس ایپ کے ان باکس میں احمد آباد کے صحافی چراغ پٹیل کی خبر آتی جا رہی ہے۔ چراغ کا جسم جلا ہوا ملا ہے۔ پولیس کے مطابق چراغ پٹیل کی موت جمعہ کو ہی ہو گئی تھی۔ مگر اس کا جلا ہوا جسم سنیچر کو ملا ہے۔ چراغ پٹیل TV9 نیوزچینل میں کام کرتا تھا۔
ابھی تک چراغ پٹیل کے قتل کی وجوہات کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ خودکشی کو لےکر بھی تفتیش ہو رہی ہے۔ احمد آباد مرر نے لکھا ہے کہ اس کی جانچکے کام میں علاقے کی پولیس ڈپٹی کمشنر کے علاوہ 6 آئی پی ایس افسروں کی مدد لی جا رہی ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چراغ پٹیل کے جسم پر باہری چوٹ کے نشان نہیں ہیں۔ جسم کا نچلا حصہ زیادہ بری طرح جلا ہے۔
احمد آباد مرر نے تمام پہلوؤں پر بات کی ہے۔ لکھا ہے کہ پٹیل کا جسم جہاں جلا ملا ہے اس کے آس پاس 4سے5 فٹ تک جلنے کے نشان ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مار دینے کے بعد جلایا گیا ہو۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں چراغ اکیلا دکھ رہا ہے۔ پانی کی بوتل خرید رہا ہے۔ اس کے چہرے پر کوئی تناؤ نہیں ہے۔ موت سے پہلے اپنے دوست سے فون پر سیاست پر بات چیت ہوئی تھی۔ ابھی کسی نتیجہ پر پہنچنا ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن چراغ پٹیل کے جلنے کی وجوہات کو تصدیق کی جانی چاہیے۔
तो इंतज़ार ख़त्म …
कल शाम पॉंच बजे से टीवी स्क्रीन पर…
कैसा होगा चैनल/कैसी ख़बरें होंगीं
चर्चा शुरु करते है…
शाम पाँच बजे जुड़िये फ़ेसबुक/यूट्यूब लाइव में….https://t.co/gL2od5WaEt pic.twitter.com/Jn66e3BbZ3— punya prasun bajpai (@ppbajpai) February 8, 2019
پنیہ پرسون باجپئی کو پھر سے نکال دیا گیا ہے۔ آخر کون ہے جو پنیہ کے پیچھے اس حد تک پڑا ہے۔ ایک آدمی کے خلاف کون ہے جو اتنی طاقت سے لگا ہوا ہے۔ آئے دن ہم سنتے رہتے ہیں کہ فلاں مدیر کو دربار میں بلاکر دھمکایا گیا۔ فلاں مالک کو تنبیہ کی گئی۔ اب ایسے حالات میں کوئی صحافی کیا کرےگا۔ آپ کی خاموشی ان لوگوں کو مایوس کرےگی جو بول رہے ہیں۔ آخر میں آپ کا ہی نقصان ہے۔ آپ نے خاموش رہنا سیکھ لیا ہے۔ آپ نے مرنا سیکھ لیا ہے۔
یاد رکھیےگا، جب آپ کو کسی صحافی کی ضرورت پڑےگی تو اس کے نہیں ہونے کی وجہ آپ کی ہی خاموشی ہی ہوگی۔ الگ الگ مزاج کے صحافی ہوتے ہیں تو مسائل آواز پاتی رہتی ہیں۔ حکومت اور سماج تک پہنچتی رہتی ہیں۔
ایک صحافی کا نکال دیا جانا، اس معنی میں بےحد شرمناک اور خطرناک ہے۔ پرسون کو نکالنے والوں نے آپ کو پیغام بھیجا ہے۔ اب آپ پر ہے کہ آپ خاموش ہو جائیں۔ ہندوستان کو بزدل انڈیا بن جانے دیں یا آواز اٹھائیں۔ کیا واقعی بولنا اتنا مشکل ہو گیا ہے کہ بولنے پر سب کچھ ہی داؤ پر لگ جائے۔
اب وہی بچےگا جو گودی میڈیا ہوگا۔ گودی میڈیا ہی پھلےگا پھولےگا۔ اس کا پھلناپھولنا آپ کا ختم ہونا ہے۔ تبھی کہا تھا کہ نیوز چینلوں کو اپنے گھروں سے نکال دیجئے۔ ان پر اقتدار کا قبضہ ہو گیا ہے۔ آپ اپنی محنت کی کمائی اس ذرائع کو کیسے دے سکتے ہیں جو غلام ہو چکا ہے۔ اتنا تو آپ کر سکتے تھے۔
آپ جن چینلوں کو دیکھتے ہیں وہ آپ کے اوپر بھی تبصرے ہیں۔ آپ کا خاموش رہنا ثابت کرتا ہے کہ آپ بھی ہار گئے ہیں۔ جب عوام ہار جائےگی تو کچھ نہیں بچےگا۔ عوام اقتدار سے نہیں لڑ سکتی تو ٹی وی کے ان ڈبوں سے تو لڑ سکتی ہیں۔ بھلے نہ جیتے مگر لڑنے کی مشق تو بنی رہےگی۔ یہی گزارش ہے کہ ایک بار سوچیے۔ یہ کیوں ہو رہا ہے۔ اس کی قیمت کیا ہے، کون چکا رہا ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے، کس کو مل رہا ہے۔ جے ہند۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔ )
Categories: فکر و نظر