گڑگاؤں لگاتار نشانے پر ہے۔ انجان لوگوں سے بسا یہ شہر ہر کسی کو اجنبی سمجھنے کی فطرت پالے ہیں، اس لئے وہ مذہب کی بنیاد پر شک کئے جانے یا کسی کو پیٹ دئے جانے کو برا نہیں مانتا۔ ہندوستان کا یہ سب سے جدید شہر سسٹم سے لےکر ایک صحت مند سماج کے فیل ہونے کا شہر ہے۔ اس شہر میں دھول بھی سیمنٹ کی اڑتی ہے، مٹی کی نہیں۔
گروگرام کے واقعہ کا ویڈیو جب تب ابھر آتا ہے۔ سوشل میڈیا کے کسی پیج پر جاتا ہوں تو دکھ جاتا ہے۔ چھت پر لڑکیاں چلّا رہی ہیں۔ اس کی نچلی منزل پر کچھ لوگ ڈنڈے سے دو لوگوں کو مار رہے ہیں۔ ایک بوڑھی ماں بھی لاٹھیوں کی چپیٹ میں آ رہی ہے۔گروگرام کے دھمس پور گاؤں کا یہ ویڈیو ہماری حساسیت کا آخری امتحان لے رہا ہے۔ یہی کہ ہم سب ایسے ویڈیو سے نارمل ہونے کے امتحان میں پاس کر گئے ہیں۔
ویڈیو میں درج تشدد کی تصویریں اس حق کا اعلان کر رہی ہیں جو اب سڑکوں پر کسی کو بھی حاصل ہے۔ بس وہ اپنی دلیلوں میں گائے، پاکستان، بھارت ماتا کی جئے یا مودی مخالفت لے آئے، وہ کسی کو پیٹ سکتا ہے، مار سکتا ہے۔حملےکی فوری وجہ کیا رہی ہوںگی، یہ اہم نہیں ہیں۔ وجوہات کی افادیت ختم ہو چکی ہے۔ اہم یہ ہے کہ اکثریت کمیونٹی کے اس طبقے کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ وہ کبھی بھی کہیں بھی لاٹھی ڈنڈا لےکر گھس سکتا ہے۔
یہ وہی طبقہ ہے جو کسی صبح لکھنؤ کے فٹ پاتھ پر کاجو بادام بیچنے والے کشمیری کو اٹھاکر مارنے لگتا ہے۔یہ وہی طبقہ ہے جو جولائی 2016 میں گجرات کے اونا میں دلت فیملی کو نکالکر مارنے لگتا ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے جو انسپکٹر سبودھ سنگھ کو مار دیتا ہے۔یہ ویڈیو ہمارے اندر ہر دن ایک نئی جگہ کی تعمیر کرتے ہیں جہاں سے کسی کو بےدخل کیا جا چکا ہوتا ہے۔ ان ویڈیو میں لگاتار بےدخل کئے جاتے رہے لوگ صرف مار کھا رہے ہیں۔ مارنے والے ایک ہی ہیں۔
اب فرقہ پرستی شرماتی نہیں ہے۔ ویڈیو میں سج کر آتی ہے۔ ہر بار ٹیسٹ کرنے کہ کیا کوئی چیلنج ملےگا۔ ہر بار فاتح ہوکر چلی جاتی ہے۔ ہم اگلے ویڈیو کے انتظار میں تب تک راشٹرواد کے مشق میں لگا دئے جاتے ہیں۔پانچ سال سے نیوز چینلوں اور وہاٹس ایپ یونیورسٹی سے جو پروجیکٹ چلا ہے وہ کامیاب رہا ہے۔ اس نے جھوٹ اور فریب سے لیس شہریوں کے ایسے دستے تیار کر دئے ہیں جو کہیں بھی اچانک سامنےآکر کسی کو مار سکتے ہیں۔
میں ان کو روبو-ری پبلک کہتا ہوں۔ آدھی ادھوری اور جھوٹی اطلاعات سے لیس لوگوں کا ایک ایسا نظام، جو محض افواہ سے تشدد بھری بھیڑ میں بدل سکتا ہے اور کسی کو مار سکتا ہے۔ کچھ پہچان کو نشان زد کرتے ہی روبو-ری پبلک کے ہاتھ حرکت میں آ جاتے ہیں۔نیوز چینلوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے معمولی فیملی کے لڑکوں کو ایک مذہب کے خلاف تعصبات کے بندھن میں باندھکر رکھا گیا۔ ان کو دن رات سکھایا گیا کہ یہی سوچنے اور دیکھنے کا طریقہ ہے۔ اس کو اچھی خاصی حمایت حاصل ہے۔
مڈل کلاس اور اچھے گھروں کے لڑکے سوشل میڈیا پر ان کو سپورٹ کر اپنے دھندے میں لگ جاتے ہیں مگر معمولی گھروں کے لڑکے ان کی چپیٹ میں آکر جرم کر بیٹھتے ہیں۔آپ پچھلے پانچ سال کے ویڈیو میں تشدد کرتے لوگوں کی فیملی اور اقتصادی سطح کا پتہ لگائیے۔ میری بات صحیح ثابت ہوگی۔گڑگاؤں لگاتار نشانے پر ہے۔ اونچی عمارتوں میں بیٹھے لوگوں میں شہریت کی فہم ہوتی تو اس شہر کی حالت اتنی بےکار نہ ہوتی۔
ان عمارتوں میں بیٹھے لوگ اس مہانگری متوسط طبقہ کے لوگ ہیں جو ٹی وی دیکھنے کے بعد اپنے راشٹرواد کا جائزہ کسی دوست کو دھمکی دینے یا عدم اتفاق ہونے پر گالی دےکر کرتے ہیں۔اس کمیونٹی کو مقامی سطح پر خوراک دستیاب کرایا جا رہا ہے۔ کیا آپ نے گروگرام کے نام نہاد لوگوں کے شہری گروہوں کا اس طرح کے تشدد کے خلاف کوئی بڑا مارچ دیکھا ہے؟ وہاں رہنے والے مڈل کلاس کے بچّے ماحولیات پر ڈرائنگ بنا سکتے ہیں۔ ان کے ماں باپ اس ڈرائنگ کی فوٹو لےکر شیئر کر سکتے ہیں۔ ان کی بیداری یہی پر فل اسٹاپ ہو جاتی ہے۔
انجان لوگوں سے بسا یہ شہر ہر کسی کو اجنبی سمجھنے کی فطرت پالے ہیں، اس لئے وہ مذہب کی بنیاد پر شک کئے جانے یا کسی کو پیٹ دئے جانے کو برا نہیں مانتا۔ہندوستان کا یہ سب سے جدید شہر سسٹم سے لےکر ایک صحت مند سماج کے فیل ہونے کا شہر ہے۔ اس شہر میں دھول بھی سیمنٹ کی اڑتی ہے، مٹی کی نہیں۔ گروگرام کی سی حالت اب ہر شہر کی ہو گئی ہے۔
آپ میڈیا رپورٹ کو کھنگالیے۔ 2016 میں سوا گھنٹے کی زوردار بارش کی وجہ سے 16 گھنٹے تک 25 کلومیٹر لمبا جام لگ گیا تھا۔ کئی گھنٹوں کے لئے شہر تباہ ہو گیا تھا۔ وہاں کے لوگوں نے ٹوئٹر پر غصہ نکالا۔ ان کو شرم آئی کہ یہ ملینیم سٹی ہے۔کیا آپ نے وہاں کے لوگوں کو ٹوئٹر پر فرقہ پرستی کو لےکر غصہ نکالتے ہوئے، شرم کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ کیا یہی ملینیم سٹی ہے جہاں چار لوگ کسی کے گھر گھسکر حملہ کر دیتے ہیں۔ جب ملینیم سٹی میں قانون کا ڈر نہیں ہے تو پھر ہندوستان کا کیا حال ہوگا۔
گڑگاؤں کو گروگرام کرنے کی تنقید ضرور ہوئی مگر کوئی خاص مخالفت نہیں ہوئی۔ مگر اچانک اپنی قدامت کا دعویٰ کرنے والا یہ جدید شہر صرف نام بدلنے کی توقع پوری کر مطمئن نہیں ہونے والا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اس کی ہوا میں زہر گھول رہا ہے۔ سیمنٹ کے ساتھ فرقہ پرستی کا زہر اس کو چاہیے۔پچھلے تین چار دن کی میڈیا رپورٹ کھنگالنے پر دو تنظیموں کے نام کئی سیاق و سباق میں آتے ہیں۔ سنیوکت ہندو سنگھرش کمیٹی، اکھل بھارتیہ کرانتی دل۔ 2018 میں سنیوکت ہندو سنگھرش کمیٹی 10 جگہوں پر کھلے میں ہونے والی نماز کو روک دیتی ہے۔ محض چھے سات لوگوں نے سیکڑوں لوگوں کو نماز پڑھنے سے روک دیا اور بھگا دیا۔
بات یہاں تک پہنچ گئی کہ آس پاس کی ہندو آبادی نماز کے وقت ہون کرنے کا اعلان کرنے لگی۔ نماز کو غیر قانونی جام واڑا قرار دیا گیا۔اکھل بھارتیہ ہندو کرانتی دل نام کی تنظیم کا بھی ذکر میڈیا رپورٹ میں آتا ہے۔ اکتوبر 2018 میں ہی نوراتری کے موقع پر سنیوکت ہندو سنگھرش کمیٹی نے مارچ نکالا۔ میٹ کی دوکانیں بند کر دیں۔ تندور میں پانی ڈال دیا۔ دکانداروں کو دھمکایا اور مخالفت کرنے پر پیٹا۔
9 جون 2014 کو گروگرام سے 32 کلومیٹر دور ایک سڑک حادثہ کو لےکر ہندو مسلم ہو گیا۔ ایسا تشدد بھڑکا کہ 15 لوگ زخمی ہو گئے۔ ہم بھول چکے ہیں مگر چار گھنٹے تک چلے اس تشدد پر قابو کرنے کے لئے سی آر پی ایف اور بی ایس ایف کا دستہ بلایا گیا تھا۔پٹودی روڈ میں ڈنپر سے ایک بائکر کی موت ہو گئی۔ ڈنپر کا ڈرائیور مسلمان تھا۔ حادثہ میں مرنے والا ہندو۔ لوگوں نے ڈرائیور کو مارکر زخمی کر دیا اور پولیس کو ہاسپٹل لے جانے سے روکنے کے لئے ڈنپر سے ہی راستہ بند کر دیا۔ بعد میں دونوں کمیونٹی کی طرف سے تشدد بھڑک اٹھا۔ ایک سڑک حادثہ اور اس دوران نکلنے والا غصہ فرقہ وارانہ ہو گیا۔
گروگرام کی طرح سرحد پار سے بھی ایسی ہی ایک خبر آئی ہے۔ پاکستان کی سندھ ریاست میں روینہ اور رینا نام کی دو بہنوں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ جبراً ان کا مذہب تبدیل کرایا گیا ہے۔دی ہندو اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستان کی ہندو سروس ویلفیئر ٹرسٹ کا الزام ہے کہ پولیس نے معاملے کا ایف آائی آر درج نہیں کیا۔ مظاہرہ کے بعد ایف آئی آر کرنے کے لئے مجبور ہوئی ہے۔ بیٹیوں کے باپ کا ویڈیو بےچین کرنے والا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے معاملےکی جانچکے حکم دئے ہیں۔ پاکستان بھر میں ہندو تنظیموں کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ وہ عمران خان کو اقلیتوں کو تحفظ دلانے کا وعدہ یاد دلا رہے ہیں۔سشما سوراج نے کہا ہے کہ پاکستان واقع ہندوستانی سفارت خانہ سے رپورٹ مانگی ہے۔ اس پر پاکستان کے وزیر ان سے بھڑ گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں اقلیت محفوظ نہیں ہیں۔ ہمیں ہمارے پرچم کا سفید رنگ بھی اتنا ہی پیارا ہے۔ سفید رنگ اقلیتوں کے لئے ہے۔
مگر سچائی یہ ہے کہ پاکستان میں ہندو اور عیسائی دونوں اقلیتوں کی حالت بہت خراب ہے۔ کم سے کم ہم سندھ کی ان بیٹیوں کے لئے ہی آواز اٹھائیں۔ ان کے حق کے لئے بولیں۔ چیخیں۔ چلّائیں۔سوچیں کہ وہاں اور یہاں یہ وحشی پن ابھی تک کیوں بچا ہے۔ کیا ہم واقعی کبھی کسی تہذیب کا حصہ رہے ہیں۔ کم سے کم رینا اور روینا کے بہانے ہم ساجد کی بیٹیوں کی تکلیف کو سمجھنے لگیںگے۔
ورنہ اگلا ویڈیو جلدی آنے والا ہے۔ اس میں پھر کوئی کسی کو پیٹ رہا ہوگا۔ کسی کو جلا رہا ہوگا۔ کسی کو مار رہا ہوگا۔ بات-بات پر پاکستان بھیجنے کی سوچ کہیں یہاں وہی پاکستان تو نہیں بنا رہی ہے جس سے ہم رینا اور روینا کو بچانا چاہتے ہیں۔بس اتنا سوچنا ہے۔ باقی امید ہے کہ آپ اتنا بھی نہیں سوچیںگے۔ گروگرام ایک ملینیم سٹی ہے۔ا س کا دن میں دس بار پاٹھ کریں۔ آپ گروگرام پر پراؤڈ فیل کریںگے۔
(یہ مضمون رویش کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔ )
Categories: فکر و نظر