انتخابی منشور میں سرکاری نوکریوں کو ایک لفظ کے لائق نہ سمجھکر بی جے پی نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے لئے نوجوان اور روزگار دونوں کا مطلب بدل گیا ہے۔
بی جے پی کی انتخابی منشور میں سرکاری نوکریوں پر ایک لفظ نہیں ہے۔تب بھی نہیں جب کانگریس اور ایس پی نے ایک سال میں 1 لاکھ سے 5 لاکھ سرکاری نوکریاں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ تب بھی ذکر نہیں ہے جب سرکاری نوکریوں کی تیاری میں لگے کروڑوں نوجوانوں میں سے بڑی تعداد میں مودی کو ہی پسند کرتے ہوںگے۔
تب بھی ذکر نہیں ہے کہ جب پچھلے دو سال میں سرکاری بحالیوں کو لےکر کئی چھوٹی-بڑی تحریک ہوئی۔تب بھی ذکر نہیں ہے جب مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کو نوجوانوں کا ساتھ نہیں ملا۔ ووٹرس کے اتنے بڑے گروپ کے سوال کو سامنے سے چھوڑ دینے کی جرأت صرف بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کر سکتے ہیں۔
پرائم ٹائم کی نوکری سریز میں ہم نے تمام ریاستوں میں سرکاری بحالیوں میں بےایمانی کے خلاف بےشمار مظاہروں کو کور کیا ہے۔ اتر پردیش میں ہی کئی امتحانوں کے ستائے ہوئے نوجوانوں کی تعداد جوڑ لیں تو یہ لاکھوں میں پہنچتی ہے۔کوئی ریاست مستثنیٰ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرکاری نوکریوں کی تیاری میں لگے کروڑوں نوجوانوں کے مظاہروں کا ہی دباؤ تھا کہ روزگار مدعا بنا۔ اس کے دباؤ میں پانچ سال سے ریلوے کی ویکنسی پر کنڈلی مارکر بیٹھی مودی حکومت کو حکومت کے آخری دور میں دو لاکھ سے زیادہ ویکنسی کا اعلان کرنا پڑا۔
وزیر اعظم مودی نے اکھنور کے جلسہ میں تعداد بتائی کہ یہاں کے بیس ہزار نوجوانوں کو فوج اور مرکزی دستوں میں نوکری دی ہے۔ حزب مخالف کے بعد لگا تھا کہ ان سے مقابلہ میں بی جے پی سرکاری نوکریوں کے سسٹم میں اصلاح کو لےکر کچھ بہتر اور پختہ وعدہ کرےگی، جیسا کہ کانگریس اور ایس پی نے کیا ہے۔ تعداد اور ڈیڈلائن کے ساتھ۔ بی جے پی نے نہیں کیا۔
کوئی بھی پارٹی نوجوانوں میں بھروسہ کئے بغیر اقتدار میں واپسی کرنے کا خواب نہیں دیکھ سکتی۔ اپنے آنکھ-کان اور ناک کھلا رکھنے والی، ہمیشہ انتخابی موڈ میں رہنے والی بی جے پی کو لگا ہوگا کہ 2019 کے انتخاب میں نوجوان روزگار کے لئے ووٹ نہیں کر رہا ہے۔فرقہ وارانہ رنگ اور ٹون سے بھرے راشٹرواد کے پروپیگنڈہ سے اس کا دماغ اس قدر برین واش ہو چکا ہے کہ اب وہ روزگار کے سوال پر بی جے پی کے خلاف جا ہی نہیں سکتا ہے۔
انتخابی منشور میں سرکاری نوکریوں کو ایک لفظ کے لائق نہ سمجھکر بی جے پی نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے لئے نوجوان اور روزگار دونوں کا مطلب بدل گیا ہے۔ اس کو اپنے ووٹر میں بھروسہ ہے جس کو اس نے وہاٹس ایپ اور نیوز چینلوں کے لئے گڑھا ہے۔بی جے پی یعنی برین واش جنتا پارٹی۔ جس کو بھروسہ ہے کہ نوجوانوں اور کسانوں کا جو برین واش کیا گیا ہے اس سے وہ کبھی نہیں نکل پائیںگے۔ انھیں بے انتہا بھوک میں بھی مودی کا چہرہ دکھےگا اور وہ اس کو دیکھکر اپنی بھوک کا درد بھول جائیںگے۔
وہ خود کو برین واش کئے گئے نوجوانوں اور کسانوں کے دم پر پرچم لہرانے والی پارٹی سمجھنے لگی ہے۔ بی جے پی کو بھروسہ ہے کہ اس کا ووٹر اپنی جوانی کھو دےگا مگر جو کہانی سنتا رہا ہے اس کو نہیں بھول سکےگا۔ہو سکتا ہے کہ بی جے پی صحیح نکلے۔ سرکاری نوکریوں کی تیاری میں لگے کروڑوں نوجوان اپنی بےروزگاری کو سینے سے چپکاکے ناچتے گاتے اس کو ووٹ دےکر آ جائیںگے۔ ایسا بھروسہ کسی جماعت میں، میں نے نہیں دیکھا۔
ہندوستانی معیشت کو رفتار دینے والے 22 چیمپئن سیکٹر کی پہچانکر ان شعبوں میں فیصلہ کن پالیسیوں کے ذریعے روزگار کے نئے مواقع کو پیدا کرنے کا کام کریںگے۔ گھریلو اور بین الاقوامی بازار میں دستیاب مواقع کو دھیان میں رکھتے ہوئے اعلیٰ صلاحیت والے شعبوں جیسے دفاع اور فارماسیوٹیکل میں روزگار پیدا کرنے کی سمت میں کام کریںگے۔
بی جے پی بتا دیتی کہ پانچ سال کے فیصلہ کن فیصلوں اور پالیسیوں کی وجہ سے کتنے روزگار پیدا ہوئے۔ روزگار دینے میں مینوفیکچرنگ اور ٹیکسٹائل سیکٹر کی بڑی شراکت ہوتی ہے۔ پورے پانچ سال یہ دونوں سیکٹر لڑکھڑاتے ہی رہے۔روزگار کی آندھی چھوڑئیے دھیمی رفتار کی ہوا بھی پیدا نہیں کر سکے۔ فارما کی پڑھائی کرنے والوں کو بھی اسپتالوں میں نوکریاں نہیں دی گئی ہیں۔ آپ فارماسسٹ سے پوچھیے ان کی کیا حالت ہے۔
انتظامیہ میں نوجوان نام سے ایک حصے کو دیکھکر لگتا ہے کہ بی جے پی انتظامیہ میں شراکت داری دینے جا رہی ہے۔ افسر بنانے جا رہی ہے۔مگر وہاں لکھا ہے کہ ‘ ہم نوجوانوں کو نشیلی اشیاء کے استعمال اور بری عادت کے نقصاندہ اثرات سے بچانے کے لئے نوجوانوں کو نشہ سے آزاد کرنے کے لئے ایک خاص بیداری اور علاج پروگرام شروع کریںگے۔ ‘
کیا یہ انتظامیہ میں شراکت داری کی تجویز ہے؟ ظاہر ہے بی جے پی روزگار پر دائیں-بائیں بھی نہیں بلکہ پورے مدعے کو کباڑ کی طرح پٹککر چل دی ہے۔نوکری کی طرح ایم ایس پی کو بھی بی جے پی نے سامنے سے چھوڑ دیا۔ بی جے پی کے ہر دعویٰ پر سوال ہے کہ لاگت سے دوگنی ایم ایس پی دینے کا وعدہ پورا نہیں کیا مگر بی جے پی کہتی ہے کہ پورا کر دیا۔
ملک بھرکے کسان اس سچائی کو جانتے ہیں۔ شاید بی جے پی کو بھروسہ ہے کہ ہندو مسلم اور پاکستان کو لےکر کسانوں کا جو برین واش کیا ہے، وہی ووٹ دلائےگا نہ کہ ایم ایس پی۔12-2011 کے زراعتی تخمینہ کے حساب سے 13.80 کروڑ کسانوں میں سے تقریباً 12 کروڑ کسانوں کو پہلے ہی پی ایم کسان اسکیم کے تحت سال میں 6000 دیا جا رہا ہے۔ 75000 کروڑ کا بجٹ رکھا گیا ہے۔ اگر آپ اس کو 6000 سے منقسم کریںگے تو 12 کروڑ ہی آئےگا۔
یعنی 13.80 کروڑ کسانوں میں سے 12 کروڑ کو سال میں 6000 دے رہے ہیں تو بچا ہی کون۔ کیا بی جے پی بڑے کسانوں کو بھی 6000 روپے دینا چاہتی ہے؟ یا صرف اپنے سلوگن کو بڑا کرنا چاہتی ہے کہ ہم تمام کسانوں کو 6000 کروڑ دے رہے ہیں۔آپ پی ایم کسان کا ڈیٹا دیکھیں۔ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں بھی اس اسکیم کے تحت 40 فیصد سے زیادہ کسانوں کو فائدہ نہیں دے پائی ہے۔
کچھ ریاستوں میں تو زیرو ہے۔ پھر بھی بی جے پی حزب مخالف کی حکومت والی ریاستوں پر الزام لگاتی ہے کہ انہوں نے اس اسکیم کا فائدہ کسانوں کو نہیں لینے دیا۔آپ ویب سائٹ پر جاکر خود بھی اس اعداد و شمار کو چیک کر سکتے ہیں۔ اتر پردیش میں ضرور ایک کروڑ سے زیادہ کسانوں کو پی ایم کسان اسکیم کے تحت پیسے دے دئے گئے ہیں۔ اب دیکھنا ہے اس کا اثر ووٹ پر کیا پڑنے والا ہے۔ منشور میں ایم ایس پی کو نہ دیکھکر کیا گاؤں-گاؤں میں کسان جشن منا رہے ہوںگے؟
تو اسی طرح کی خانہ پوری ہے۔ جس کو راشٹرواد کے نعروں اور سلوگن سے بھر دیا گیا ہے۔ بی جے پی کا منشور قومی سلامتی پر 10ویں کلاس کا مضمون لگتا ہے جو سستی گائڈ بک میں چھپا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ الزام قابل اعتراض ہے کہ کانگریس کا منشور پاکستان کی زبان بول رہا ہے۔
راہل گاندھی پر ہنسا جاتا تھا کہ پریس کا سامنا نہیں کر پاتے ہیں۔ راہل گاندھی نے جب اپنا منشور جاری کیا تب پریس سے سوال بھی لیا اور کرسی سے اٹھکر جواب دیا۔ یہاں بی جے پی نے منشور جاری کیا۔ سیکڑوں صحافی کوور کرنے آ گئے۔ منشور جاری ہوا اور وزیر اعظم بنا سوال لئے چلے گئے۔
اس کو کہتے ہیں برین واش پروجیکٹ پر بھروسہ۔ ہم بات کریں یا نہ کریں، نوکری دے یا نہ دیں، ووٹ آپ ہم کو ہی دیںگے۔ ہو سکتا ہے وہ صحیح ہوں، 400 سیٹیں جیت لیں مگر تب بھی کہوںگا کہ وزیر اعظم غلط ہیں۔بی جے پی غرور میں ہے۔ وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کو سرکاری نوکریوں میں لگے کروڑوں نوجوانوں کے لئے بولنا چاہیے تھا۔
(یہ مضمون بنیادی طور پر رویش کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر