نریندر مودی نے وزیر اعظم بننے سے پہلےبغیرکسی جانبداری کے ایک سال کے اندر جس پارلیامنٹ کو جرم سے آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ پانچ سال بعد بھی پورا نہیں ہوا۔ اس دوران ان کی پارٹی کے کئی رکن پارلیامان اور وزراء پر سنگین الزام لگے مگر مجرمانہ مقدمہ چلانے کی بات تو دور، انہوں نے عام اخلاقیات کی بنیاد پر کسی کا استعفیٰ تک نہیں لیا۔
نئی دہلی: پانچ سال پہلے 7 اپریل، 2014 کو بی جے پی نے اپنا منشور جاری کیا تھا اور اس میں انتخابی اصلاح کی بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مجرموں کو سیاست سے باہر کرنے کے لئے سنجیدہ ہے۔اس کے بعد، 2014 کی لوک سبھا انتخاب کے دوران وزیر اعظم عہدے کے لئے کھڑے نریندر مودی نے اپنی تقریر میں سیاست کو جرم سے آزاد کرنے کو خوب مدعا بنایا تھا۔
اس کی ایک مثال 2014 میں آپ کو راجستھان میں کی گئی ان کی انتخابی تقریر میں مل جائےگی۔ وہ کہتے ہیں،’آج کل یہ تذکرہ زوروں پر ہے کہ مجرموں کو سیاست میں گھسنے سے کیسے روکا جائے۔ میرے پاس ایک علاج ہے اور میں نے ہندوستانی سیاست کو صاف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ‘وہ آگے کہتے ہیں،’میں اس بات کو لےکر پرامید ہوں کہ ہماری حکومت کے پانچ سالوں بعد پورا نظام صاف-ستھرا ہو جائےگا اور تمام مجرم جیل میں ہوںگے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس میں کوئی جانبداری نہیں ہوگی اور میں اپنی پارٹی کے مجرموں کو بھی سزا دلانے سے نہیں ہچکوںگا۔ ’16 مئی کو لوک سبھا انتخاب کے نتیجے آ جاتے ہیں اور نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کا راستہ صاف ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد 11 جون 2014 کو پارلیامنٹ میں اپنی پہلی تقریر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی عمل سے مجرمانہ امیج کے عوامی نمائندوں کو ہٹانے کی پہل کرنے کے وعدے کو دوہرایا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ان کی حکومت ایسے رہنماؤں کے خلاف مقدموں کے تیزی سےنپٹارے کے لیے کارروائی کرےگی۔ انہوں نے ایک سال کے اندر ایسے معاملوں کے نپٹارے کی بات کہی تھی۔مودی اسٹائل کی سیاست کو سمجھنے کے لئے اب آپ کو تھوڑا پیچھے جانا پڑےگا۔ 10 مارچ 2014 کو پبلک انڈیا فاؤنڈیشن کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے بد عنوانی اور دیگر سنگین مجرمانہ معاملوں کا سامنا کرنے والے عوامی نمائندوں کے معاملوں کی سماعت چارج شیٹ داخل ہونے کے ایک سال اندر مکمل کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔اس کا مطلب ہے یہ اس وقت ایک بالکل گرم مدعا تھا جس کو بد عنوانی، عورتوں کے تحفظ، بےروزگاری جیسے دیگر مدعوں کی طرح مودی نے پکڑ لیا۔ مگر اس سمت میں مودی حکومت نے کیا کیا اس پر ہم ایک نظر ڈالیںگے۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) اور نیشنل الیکشن واچ (نیو) کے ذریعے 541 رکن پارلیامان کے حلف نامے کے تجزیے کی بنیاد پر رپورٹ دی گئی تھی کہ 2014 کے لوک سبھا میں 186 یعنی 34 فیصدی رکن پارلیامان کے خلاف مجرمانہ معاملے درج تھے۔ ان میں سے 112 کے خلاف سنگین مجرمانہ معاملے تھے۔سال 2009 کے لوک سبھا کے لئے یہ اعداد و شمار 30 فیصدی تھا۔2014 کے انتخاب میں جیتنے والے بی جے پی کے 282 رکن پارلیامان میں سے 35 فیصدی (98) رکن پارلیامان کے خلاف مجرمانہ معاملے درج تھے جس میں سے 22 فیصدی کے خلاف سنگین مجرمانہ معاملے درج تھے۔یہی نہیں، نریندر مودی نے اپنے کابینہ میں جن 78 رکن پارلیامان کو مرکزی وزیر بنایا اس میں سے 31 فیصدی کے خلاف مجرمانہ معاملے درج تھے۔ ان میں سے بھی 14 وزیر (18 فیصدی) کے خلاف سنگین مجرمانہ معاملے درج تھے۔
خیر، مان لیتے ہیں کہ اس دوران نریندر مودی وزیر اعظم نہیں تھے اس لئے مجرم سیاست میں پہنچ گئے۔ مگر مودی حکومت کے آج پانچ سال گزر جانے کے بعد پارلیامان میں کتنے مجرم بچے ہیں اور کتنے کو سزا ہوئی ہے، اگر یہ اعداد و شمار دیکھیںگے تو وزیر اعظم کے ایک اور دعوے کی پول کھل جائےگی۔جون 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے وزارتِ داخلہ اور وزارت قانوں کو رکن پارلیامان کے معاملوں کا حل ایک سال میں کرنے سے متعلق ایک بلیوپرنٹ تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ حالانکہ اس کے بعد کیا ہوا اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔اس کے بعد 2 اگست 2014 کو ایک معاملے کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے رکن پارلیامان کے معاملوں کو ایک سال اندر حل کرنے کی بات رکھی۔
حالانکہ اس پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے تب سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ صرف رکن پارلیامان سے جڑے معاملوں کا فاسٹ ٹریک سماعت نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ایسا کرانا چاہتے ہیں تو پورے نظام کو درست کیجئے۔کورٹ نے کہا تھا کہ حکومت بتائے کہ وہ فیصلوں کے تیزی سے حل کئے جانے کے لئے کیا کرےگی تاکہ سبھی کو انصاف ملنے کا آئینی عزم پورا ہو سکے۔
اس کے بعد 1 نومبر 2017 کو وکیل اور بی جے پی رہنما اشونی اپادھیائے کی پی آئی ایل پر سپریم کورٹ نے فاسٹ ٹریک کورٹ کی تشکیل کی ہدایت دے دی اور مرکزی حکومت سے 6 ہفتے میں کورٹ میں فاسٹ ٹریک کورٹ کے لئے منصوبہ بنانے اور اس کے لئے فنڈ اور وسائل جمع کرنے کے تعلق سے جانکاری مانگی۔حالانکہ اس دوران سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے رویے پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اس کو جم کر پھٹکار لگائی۔ اس نے کہا کہ ایک طرف آپ اسپیشل کورٹ پر اتفاق کرتے ہیں ہیں تو دوسری طرف آپ یہ کہہکر ہاتھ دھوتے ہیں کہ یہ ریاستوں کا معاملہ ہے جبکہ کورٹ ایسا نہیں ہونے دےگا، مرکز نے پہلے بھی خاص اسکیم کے تحت اسپیشل کورٹ بنائے ہیں۔
14 دسمبر 2017 کو مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ دائر کرکے بتایا تھا کہ اس وقت 1581 رکن پارلیامان اور ایم ایل اے پر تقریباً 13500 مجرمانہ معاملے زیر التوا ہیں اور ان معاملوں کے حل کے لئے ایک سال کے لئے 12 خصوصی عدالتوں کی تشکیل ہوگی۔ اس کے لئے 7.80 کروڑ روپے کا خرچ آئےگا۔سپریم کورٹ نے مرکز کی 12 خصوصی عدالتوں کی تشکیل کو منظوری دیتے ہوئے مرکز کو 7.80 کروڑ کے فنڈ کو فوراً ریاستی حکومتوں کو ریلیز کرنے کو کہا۔مارچ 2018 میں فاسٹ ٹریک کورٹ کے لیے کارروائی شروع ہو گئی۔
اس کے بعد 12 مارچ 2018 کو مرکزی حکومت نے 5 مارچ تک کے اعداد و شمار سپریم کورٹ کو دستیاب کرائے اور بتایا کہ ملک کے 1765 رکن پارلیامان اور ایم ایل اے کے خلاف کل 3816 مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ان میں سے صرف 125 معاملوں کا حل ایک سال کے اندر کیا گیا جبکہ 3816 عوامی نمائندوں کے خلاف معاملے زیر التوا تھے۔30 اگست 2018 کو مرکزی حکومت نے حلف نامہ داخل کرکے سپریم کورٹ کو بتایا کہ 11 ریاستوں میں 12 اسپیشل فاسٹ ٹریک کورٹ بنانے کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہے۔ ان میں سے دو دہلی میں ہیں۔ اس کے لئے مختص 7.80 کروڑ روپے ریاستوں کو دئے جا رہے ہیں۔
12 ستمبر 2018 کو حلف نامہ کے ذریعے مرکز نے کورٹ کو بتایا ہے کہ ابھی تک دہلی سمیت 11 ریاستوں سے ملی تفصیل کے مطابق فی الحال رکن پارلیامان / ایم ایل اے کے خلاف 1233 مقدمہ ان 12 اسپیشل فاسٹ ٹریک میں ٹرانسفر کئے گئے ہیں جبکہ 136 مقدموں کا حل کیا گیا ہے اور فی الحال 1097 معاملے زیر التوا ہیں۔10 اکتوبر 2018 کو عوامی نمائندہوں کے مجرمانہ معاملوں کے لئے اسپیشل فاسٹ ٹریک کورٹ کے معاملے میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے کہا کہ 11 اسپیشل فاسٹ ٹریک کورٹ کافی نہیں ہیں۔ کورٹ نے مرکز کو کہا کہ وہ تمام ریاستی حکومتوں کو اور فنڈ مہیا کرائے تاکہ دیگر ریاستوں میں بھی فاسٹ ٹریک کورٹ کی تعداد اور بڑھائی جا سکے۔
26 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ کی طرف اس معاملے میں موررایمکس کیوری وجے ہنسریا نے 12 خصوصی عدالتوں کی تشکیل کو یکساں پیٹرن پر نہیں ہونے کی بات رکھتے ہوئے صلاح دی کہ سیشن کورٹ کی سطح پر تعداد بڑھاکر 19 کرنے اور مجسٹریٹ سطح پر سماعت کے لئے 51 اور عدالتوں کی تشکیل کی ضرورت ہے۔4 دسمبر 2018 کو ایمکس کیوری نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ملک میں کل 724 ضلعوں میں سے 440 ضلعوں میں موجودہ اور سابق رکن پارلیامان/ایم ایل اے کے خلاف 4122 مجرمانہ مقدمے زیر التوا ہیں۔4122 معاملوں میں سے 2324 تو موجودہ رکن پارلیامان اور ایم ایل اے کے خلاف ہیں جبکہ 1675 مقدمے سابق رکن پارلیامان اور ایم ایل اے سے متعلق ہیں۔4122 مقدموں میں سے 1991 معاملوں میں الزام طے نہیں کئے گئے اور اعلیٰ عدالتوں کی روک کے سبب سے 264 معاملے زیر التوا ہیں۔
505 معاملے سیشن عدالتوں میں اور 1928 معاملے مجسٹریٹ عدالتوں میں جبکہ 33 خصوصی عدالتوں میں زیر التوا ہے۔1650 مقدمے موجودہ معاملے میں اس عدالت کی ہدایتوں کے تحت رکن پارلیامان/ایم ایل اے کے لئے تشکیل شدہ خصوصی عدالتوں میں منتقل کئے گئے۔فاسٹ ٹریک کورٹ کی تشکیل ہوئے ایک سال بیت چکے ہیں مگر 16ویں لوک سبھا کے کسی بھی رکن پارلیامان کو سزا نہیں ملی ہے۔اس طرح نریندر مودی نے وزیر اعظم بننے سے پہلے جانبداری کے بغیر ایک سال کے اندر جس پارلیامنٹ کو جرم سے آزاد بنانے کا وعدہ کیا تھا وہ پانچ سال کی مکمل اکثریت کی حکومت کے بعد بھی بالکل نہیں بدلی۔بلکہ اس دوران ان کی پارٹی کے کئی رکن پارلیامان اور وزراء پر کئی سنگین الزام لگے مگر انہوں نے عام اخلاقیات کی بنیاد پر بھی کسی کا استعفیٰ نہیں لیا، ان کے خلاف مجرمانہ مقدمہ چلانے کی بات تو دور ہی رہی۔
نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے اور پانچ سال بعد وزیر اعظم کے طور پر اپنی مدت پوری کرنے کا موازنہ کریں تو ایک فرق صاف طور پر نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ پانچ سال پہلے وزیر اعظم مودی سیاست کو جرم سے آزاد کرنے کا نعرہ دیتے تھے اور وہ ان کے منشور میں بھی شامل تھا لیکن آج پانچ سال بعد نہ تو مودی کی انتخابی تقریروں میں شامل ہیں اور نہ ہی بی جے پی کے منشور میں۔
Categories: فکر و نظر