2019 کے لئے واحد مدعے کے طور پر شدت پسند ہندوتوا کو اٹھانا آر ایس ایس اور مودی-شاہ کا مشترکہ فیصلہ تھا۔ شاید اس وجہ سے کہ مودی اپنے کام کاج کے ریکارڈ کی بنیاد پر تو انتخابی منجدھار کو پار نہیں کر سکتے ہیں،شدت پسند ہندوتوا کے مدعے پر داؤ کھیلنے کا فیصلہ کیا گیا۔
بھوپال سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی امیدوار کے طور پر اپنی سیاسی پاری کی شروعات کر رہی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اپنے سرپرستوں کے لئے ‘دہشت ‘ثابت ہو رہی ہیں۔ان کے اہم سرپرست سابق وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ، جن کو بھوپال سے انتخاب لڑنے سے انکار کرنے کی سزا کے طور پر دہشت گردی کی ملزم امیدوار کا استقبال کرنے کے لئے مجبور کیا گیا،وہ اس سے بری طرح متنفر ہیں اور سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ ان کو کیا کرنا ہے۔چوہان ، جو اپنی خوش مزاجی کےلئے جانے جاتے ہیں، کو پارٹی صدر امت شاہ نے، پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے اس متنازعہ بیان کے بعدنیشنل میڈیا کو دیے جانے والے شروعاتی انٹرویو کے دوران ساتھ رہنے کے لئے مجبور کیا۔جس میں پرگیہ نے ،26/11 کے دہشت گردانہ حملے کے دوران شہید ہوئے ہیمنت کرکرے کو شراپ دینے والی بات کہی تھی۔
ہیمنت کرکرے اس اے ٹی ایس کے چیف تھے، جس نے 2008 کے مالیگاؤں دھماکے معاملے میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے خلاف چارج شیٹ دائر کی تھی۔یہ سچائی ہے کہ ایک طرح سے پرگیہ سنگھ لشکرِ طیبہ کے دہشت گرد اجمل قصاب کے ذریعے کیے گئے کرکرے کے قتل پر خوشی کا اظہار کر رہی تھی، بی جے پی کے لئے شرمندگی کی ایک بڑی وجہ بن گئی۔ جس کے بعد پرگیہ کو اس نقصان پہنچانے والے بیان کو واپس لینا پڑا۔بی جے پی کی مدھیہ پردیش اکائی، جس نے پرگیہ ٹھاکر کی نامزدگی کی پرزور مخالفت کی تھی، شاہ سے اس تنازعے کے بعد کہنا چاہتی تھی کہ ‘ ہم نے آپ کو پہلے ہی بتایا تھا ‘، لیکن یہ پارٹی اس طرح سے کام نہیں کرتی۔
ذرائع کا کہنا ہے، الٹے اس کی جگہ شاہ نے ان کو یہ کہتے ہوئے آڑے ہاتھوں لیا کہ انہوں نے ‘ملک-مخالف ‘میڈیا کو ایک’بھولی بھالی’سادھوی کو بیوقوف بنانے کا موقع دیا۔کچھ دن پہلے جب ٹی وی چینل ان کے ساتھ ایک کے بعد پروگرام کر رہے تھے، چوہان وہاں موجود تھے اور بےچارگی سے ان کی سیاسی رہنمائی کی کوشش کر رہے تھے۔ حالانکہ ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ ان کی کوششوں کو اَن سنا کر دیا گیا۔جب بھی وہ کوئی ایسی ہدایت دیتے تھے، جو انھیں(پرگیہ ٹھاکر کو)پسند نہیں آتی، تو وہ’وجد’ [trance] میں چلی جاتیں اور اس سے واپس آکر وہ چوہان سے کافی بےرخی کے ساتھ کہتیں کہ وہ ‘ ٹھاکرجی’سے بات کر رہی تھیں اور اب انھیں آگے بڑھنے کے لئے ان کا آشِیرواد حاصل ہے۔ اور پھر وہ وہی کہتی تھیں، جو ان کا من کرتا تھا۔
چوہان اس سے مجروح ہوئے۔ آخر تین بار وزیراعلیٰ رہے شیوراج سنگھ چوہان جیسے سرپرست کی صلاح کی قیمت بھی کیا ہے، جب ان کا امیدوار سیدھے بھگوان سے جڑا ہو۔بتایا جاتا ہے کہ ایک دوسرے انٹرویو کے دوران چوہان نے ان سے بھوپال کی بہتری کے لئے اپنی اسکیم پر مرکوز رہنے کی صلاح دینے کی کوشش کی-لیکن تب تک ٹھاکر گئوشالہ کی طرف جا چکی تھیں، جہاں ٹی وی کیمرا ان کے پیچھے پیچھے تھا۔وہ اپنی یہ جانکاری شیئر کرنا چاہتی تھیں کہ گائے کو سہلانے سے بلڈ پریشر کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ‘گئو موُتر ‘(گائے کا پیشاب)پر اپنی زبردست جانکاری پیش کی کہ گائے کے پیشاب سے کینسر کا علاج ہو سکتا ہے۔ اس وقت گئوموُتر ان کی کرسی کے بغل میں نمایاں طور پر رکھا ہوا تھا۔
حیران رہ گئے چوہان نے ٹی وی مدیروں سے گزارش کی کہ کیا وہ کچھ (خاص طور پر شرمندہ کرنے والے)حصوں کو ختم کر سکتے تھے۔ لیکن ٹھاکر نے ان کو فوراً ٹوکتے ہوئے کہا کہ ان کے جواب ‘ ٹھاکرجی’کے ذریعے بتائے گئے ہیں۔جس طرح سے کالم نگاروں کے ذریعے اکثر ‘فرنج’کہے جانے والے آدتیہ ناتھ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ بنے، پرگیہ بھی اسی طرح بی جے پی اوراس سے کہیں آگے بڑھ کر سنگھ پریوار کا حصہ بن چکی ہیں۔ٹھاکر کو انتخاب میں اتارنا-اور مودی اور شاہ کے ذریعے اس کو لےکر اپوزیشن کو یہ طعنہ مارنا کہ یہ’ ہندو دہشت گردی’لفظ کےاستعمال کرنے کی سزا ہے-اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی کتنی زہریلی ہو چکی ہے۔
آر ایس ایس پرگیہ ٹھاکر کو امیدوار بناکر ان کے سچے حامیوں اور بی جے پی کے شدت پسند رائےدہندگان کو خوش کرنا چاہتی تھی۔ لیکن بڑا سوال ہے کہ آخر یہ شدت پسند اورسچے حامی ہیں کون، جنھیں خوش کرنے میں سنگھ پریوار ہمیشہ لگا رہتا ہے؟آخر وہ کون-سا ووٹر طبقہ ہے جو آدتیہ ناتھ اور پرگیہ ٹھاکر جیسے لوگوں کو اپنے رہنما کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے؟مودی نے آدتیہ ناتھ کو ہندوستان کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کا وزیراعلیٰ نامزد کیا-ووٹرس نے انھیں منتخب نہیں کیا تھا۔ آر ایس ایس نے دہشت گردی کے ملزم کی امیدواری کو تھوپا-بھوپال سے ایسی کوئی مانگ نہیں اٹھی تھی۔
اس سے پہلے، پرگیہ ٹھاکر کی پیش رو ‘سادھوی’اوما بھارتی نے کانگریس سے مدھیہ پردیش کا اقتدار چھینا تھا۔ لیکن وہ ایک ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اتنی بری طرح سے ناکام ثابت ہوئیں کہ ان سے جلدی جلدی میں پلہ چھڑایا گیا اور ان کی جگہ مین اسٹریم کے رہنما چوہان کو لایا گیا۔اس مضمون کے لئے میں نے بی جے پی کے جن سینئر رہنماؤں سے بات کی ان میں سے کئی ٹھاکر کی امیدواری اور ان کے احمقانہ تبصروں سے سخت پریشان تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا،’اس کے ساتھ آر ایس ایس نے اس آخری لکیر کو پارکر لیا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہے۔ یوگی(آدتیہ ناتھ)اور پرگیہ سے پیچھے لوٹنا ممکن نہیں ہے۔ موہن بھاگوت اور بھیاجی جوشی بھی اپنے بنائے گئے شدت پسند دیووں کے ذریعے نگل لئے جائیںگے۔ ‘
اس رہنما نے، جو مودی حکومت میں وزیر بھی ہیں، نے اس بات پر زور دیا کہ آدتیہ ناتھ جو اپنے شدت پسند ہندوتوا کی تقریروں کے لئے جانے جاتے ہیں، کو اتر پردیش میں کوئی سننے والا نہیں بچا ہے۔ وہ آج کل شدت پسند ہندوتوا کے چہرے کے طور پورے ملک میں گھوم رہے ہیں۔
2019 کے لئے واحد مدعے کے طور پر شدت پسند ہندوتوا کو اٹھانا آر ایس ایس اور مودی-شاہ کا مشترکہ فیصلہ تھا۔ شاید اس وجہ سے کہ مودی اپنے کام کاج کے ریکارڈ کی بنیاد پر تو انتخابی منجدھار کو پار نہیں کر سکتے ہیں،شدت پسند ہندوتوا کے مدعے پر داؤ کھیلنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس سے یہ بات یقینی ہوگئی ہے کہ سنگھ نے رہنماؤں کی جو نئی فصل تیار کی ہے، وہ پیٹ-پیٹکر مار دینے والی بھیڑ کے گروہوں کے رہنما ہوںگے۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی-سنگھ کا رہا سہا مکھوٹا بھی اتر گیا ہے۔
Categories: فکر و نظر