تاجروں کا کہنا ہے کہ اچانک تجارت معطل کرنے سے تاجروں کو بڑے پیمانے پر مالی نقصان تو ہوا ہی ہے، پونچھ اور اوڑی کے سینکڑوں نوجوانوں سے روزگارچھن گیاہے۔
دہلی میں میرے ایک سابق کولیگ کے والد نامور تھوک تاجر ہیں۔ایک بار انہوں نے ایک قصہ سنایا کہ سرینگر کی پارمپورہ منڈی میں ان کے گودام میں مظفر آباد سے آر پار تجارت کے ذریعے پستوں کی ایک کھیپ پہنچی تھی۔ ڈبوں کو کھولنے پر معلوم ہوا کہ پستے سڑے ہوئے تھے اور ان میں کیڑے رینگ رہے تھے۔ ان سبھی پیٹیوں کو انہوں نے گودام کے پچھواڑے میں ڈالا تاکہ ان کو ٹھکانے لگایا جائے۔ اگلے روز کشمیری تاجروں کی ایک جمعیت ان کے پاس پہنچی اور پستے خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے بتایا کہ پستوں کی کھیپ سڑی ہوئی ہے اور وہ اس کو پھینکنے جا رہے ہیں۔ تاجروں نے پستے دیکھنے کی خواہش ظاہرکی۔ تھوک تاجر اور ان کا ملازم جب گودام میں پستے دکھا رہا تھا، تو ایک تاجر نے ان پستوں پر چمٹے ایک کیڑے کو اٹھا کر چوما اور کہا،’یہ تو پاکستان اور آزاد کشمیر کا کیڑا ہے’اور پھر آڑھتی سے درخواست کی کہ وہ دام لگائیں،‘ وہ سبھی پیٹیاں خریدنے کے لئے تیار ہیں۔
ان کا یہ کہنا تھا کہ کئی اور تاجر جمع ہو گئے اور ان پیٹیوں کی بڑھ چڑھ کر بولیاں لگا کر ان کا گودام خالی کروا دیا۔ اس طرح کے ان گنت جذباتی واقعات اس آر پار تجارت اور راہداری سے جڑے ہوئے ہیں، جس کو 19اپریل کو تاجروں کو نوٹس دئیے بغیر ہندوستانی حکومت نے تاحکم ثانی معطل کردینے کا اعلان کردیا۔ ہندوستانی حکومت کی دلیل تھی کہ اس تجارت کی آڑ میں ملک دشمن عناصر اپنے مفادات کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ ہندوستانی وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق اس تجارت کو عسکریت کو فنڈز کی فراہمی،نشیلی ادویات کی تجارت، ہتھیاروں کی سپلائی اور جعلی کرنسی کے کاروبار کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ وزارت داخلہ کے ایک نوٹ کے مطابق پاکستان میں مقیم دس سابق عسکریت پسند اس تجارت کے ساتھ منسلک تھے۔
جن کے نام بشیر احمدبٹ، شبیر الٰہی، شوکت احمد بٹ، نور محمد گنائی، خورشید، امتیاز احمد خان، عامر، سید اعجاز احمد، معراج الدین بٹ اور نذیر احمد بٹ ہیں۔اگر یہ افراد واقعی آر پار تجارت کی فرموں کے مالک تھے، تو اس میں آخر حرج ہی کیا ہے؟ حکومت کے لیے تو یہی طمانیت کا باعث تھا کہ عسکریت سے تائب ہوکر پر امن زندگی گذارنے کے لیے انہوں نے تجارت کا پیشہ اختیار کیاتھا۔ سخت تلاشی کے بعد ہی ٹرکوں کو لائن آف کنٹرول پار کرکے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس صورت حال میں فوج اور کسٹم کے حکام آخر غیر قانونی اشیاء کی ترسیل روکنے میں کیوں ناکام تھے اور کیا اس ناکامی کے لیے کسی افسر پر تادیبی کارروائی کی گئی ہے؟
اس پس منظر میں ہندوستانی حکومت کے اعتراضات بس ایک بہانہ معلوم ہوتے ہیں۔ یہ قدم محض کشمیریوں کی نفسیات کو مزید کچلنے اور ان کو یہ باور کرانے کے لیے کیا گیا ہے کہ دنیا کے دورازے ان کے لیے بند ہیں۔ ایک دہائی قبل کشمیر کے دورے پر آئے یورپی یونین کے ایک رکن جان والز کوشانن نے اس خطہ کو دنیا کی خوبصورت ترین جیل قرار دیاتھا۔ شایدفوجی جماؤ اور حالات کی وجہ سے ان کو یہ خطہ قید خانہ لگا ہوگا۔ مگر اس کی اور بھی کئی وجوہات ہیں۔ 20ویں صدی نے بیرون دنیا کے ساتھ کشمیر کے روابط مکمل طور پر سلب کر لئے۔ سوویت یونین کے وجود سے تاجکستان، کشمیریوں کی دستبرد سے دور ہوگیا۔کشمیریوں تک اسلام پہنچانے والی شخصیت میر سید علی ہمدانی کا مزار تاجکستان کے کلوب صوبہ میں ہے۔
بعد میں کاشغر تک رسائی بند ہوگئی۔ 1947ء نے تو ایسا قہر ڈھایا، کہ لائن آف کنٹرول یا حد متارکہ نے تو نہ صرف زمین پر بلکہ کشمیریوں کے سینوں پر ایک خونیں لکیر کھینچی۔ گو کہ پچھلی چار صدیوں سے اس خطے کے باسی مجبور و مقہور رہے ہیں، مگر وسطی اور جنوبی ایشیا کی رہ گزر پر ہونے کی وجہ سے باقی دنیا کے ساتھ روابط کی وجہ سے طمانیت کا احساس تھا۔ لائن آف کنٹرول نے سبھی روابط منقطع کر دئے۔ شمالی کشمیر اور پیرپنچال کے وسیع و عریض خطے تو سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ یہاں منقسم خاندان حسرت و یاس سے آج بھی دوسری طرف دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں۔ اس گھیرابندی اور فوجی جماؤ نے ایک طرح کی خوف کی نفسیات کے ساتھ ساتھ اسیری ذہنیت (Prison Mindset)کو پروان چڑھایا ہے۔ یہ ذہنیت ہمیشہ منفی ہوتی ہے اور حکمران کے ساتھ اس کا رشتہ وہی ہوتا ہے، جو قیدی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کا ہوتا ہے۔ جیل کا منتظم کتنا ہی ملائم اور قیدیوں کا خیال رکھنے والا کیوں نہ ہو، رشتہ تناؤپر ہی رہتا ہے۔
اعتمادسازی کے نام پر لائن آف کنٹرول پر جو یہ کھڑکی کھلی تھی، اس نے اس اسیری ذہنیت پر وار کرکے، ایک طرح سے کشمیریوں کے لیےمعمولی سطح پر ہی دینا کھول دی تھی۔ ہندوستان اور پاکستان کے حکمراں ابھی تک کشمیریوں کی نفسیات کے اس نکتے کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔اس کھڑی کو کھولنے کے لیے بھی کشمیریوں نے قربانیاں دی ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ تجارت دونوں حکومتوں کی سرد مہری کا شکار تھی۔ یہ شاید دنیا بھر میں واحد تجارت تھی جہاں کرنسی کے بدلے اور بینکوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے زمانہ قدیم کا بارٹر سسٹم یعنی چیز کے بدلے چیز لاگو تھی۔ سیبوں کی پیٹی کے عوض پشاوری چپلیں اور پستوں کے بدلے کشمیری شالیں۔ اسی طرح کے بارٹر سسٹم پر یہ تجارت سانس لے رہی تھی۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اچانک تجارت معطل کرنے سے تاجروں کو بڑے پیمانے پر مالی نقصان تو ہوا ہی ہے، پونچھ اور اوڑی کے سینکڑوں نوجوانوں سے روزگارچھن گیاہے۔
باہمی اعتماد سازی کے تحت 2008میں یہ تجارت شروع ہونے کے بعد اب تک69ارب روپے کی تجارت ہوئی ہے۔اس تجارت میں 21اشیاء فہرست میں شامل ہیں،جن میں کیلا،کڑائی کی اشیاء،لال مرچ، جڑی بوٹیاں،آم،پستہ،املی،زیرہ اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔اوڑی کے سلام آباد۔چکوٹی پوائنٹ سے ابھی تک44ارب اور پونچھ۔ راولاکوٹ سے25ارب روپے کی تجارت ہوئی ہے۔ابتدائی دور میں اس تجارت سے646 تاجر جڑے ہوئے تھے،تاہم بعد میں انکی تعداد کم ہوئی اور فی الوقت280تاجر سرکار کی طرف سے تسلیم شدہ ہیں۔2008میں جب یہ تجارت شروع ہوئی تھی تو ہفتے میں دو دن تجارتی ایام مقرر کئے گئے تھے تاہم2011کے بعد ایام کار میں اضافہ ہوا،اور4دن کرائے گئے۔اسلام آبادٹریڈیونین کے چیئرمین ہلال ترکی نے بتایاکہ تجارتی سرگرمیوں کومعطل کئے جانے سے پہلے متعلقہ تاجران کویہ موقع فراہم کیاجاناچاہئے تھاکہ وہ نقصان سے بچ سکیں۔
ہلال ترکی نے بتایاکہ ہم نے اس تجارت کے لیے کروڑوں کاسامان یامال خریدا ہواہے جو گوداموں میں پڑا ہواہے جبکہ گزشتہ لگ بھگ آٹھ ہفتوں سے اوڑی کے راستے تجارت معطل رہنے کے نتیجے میں درجنوں گاڑیوں میں بھراسامان بالخصوص میوہ جات سڑرہے ہیں۔پونچھ راولاکوٹ ٹریڈ ایسو سی ایشن صدر عبدالرزاق خاکی کے مطابق اعلان سے ایک دن قبل انہوں نے33گاڑیوں میں مال بھرا تھا،تاہم انہیں اس پار جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا ہے اس تجارت سے ہزاروں لوگوں کے گھروں کا نظام چل رہا تھاجو ٹھپ ہوگیاہے۔جن وجوہات کی حکومت کی طرف سے نشاندہی کی گئی ہے، ان کے تدارک کے لیےتاجروں اور ریاستی حکومت کی طرف سے ہی بارہا سکینرز کی تنصیب اور دیگر اقدامات کی اپیل کی جاتی رہی ہے۔ لیکن خود ہندوستانی حکومت نے ہی اس حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ تجارت کی معطلی سے بہتر ان خدشات کودور کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت تھی جو وزارت داخلہ کی جانب سے ظاہر کئے گئے ہیں۔ستم ظریفی تو یہ تھی، پاکستان کی طرف بھی چند افراد اس تجار ت اور راہداری کو بند کرنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
لگتا ہے کہ جس طرح کشمیری پنڈتوں کے ایک مفاد پرست گروپ نے نئی دہلی کے پاور اسٹرکچرمیں غلط اور ناکافی معلومات کی ایک طرح سے بمباری کروا کے، پچھلے 60 سالوں سے ہندوستانی حکام کو ایک ناکام، لاحاصل اور غلط کشمیر پالیسی اپنانے پر مجبور کر رکھا ہے‘اسی طرح کا رول اب ایک گروپ اسلام آباد میں بھی ادا کر رہا ہے۔ وہ پاکستانی حکام کو زمینی حقائق کے بجائے عجیب و غریب مشوروں سے نواز رہا ہے۔ کہاں کشمیری عوام کا یہ جذبہ کہ ریاست میں کسی نہ کسی صورت میں پاکستان کا زیادہ سے زیادہ عمل دخل بڑھے، کہاں اسلام آباد اور مظفر آباد میں موجود کچھ قائدین آر پار تجارت اور راہداری کے سہارے زندہ موہوم سی امید کا چراغ بھی گل کرنے پر تلے ہوئے تھے۔2008ء میں امرناتھ یاترا ایجی ٹیشن اور جموں میں ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے اقتصادی ناکہ بندی کے رد عمل میں کشمیری عوام اور تاجروں نے پارمپورہ اور سوپور کی منڈی سے ٹرکوں میں سوار ہو کر اوڑی کی طرف مارچ کیا تھا۔
یہ راہداری حریت کے سینئر قائد شیخ عبدالعزیز اور 64 دیگر افراد کے لہو اور قربانیوں کی دین ہے۔ ضرورت ہے کہ چکوٹھی کی طرف شیخ صاحب کی یاد میں کوئی پوانٹ موسوم کیا جائے یا کوئی کتبہ لگایا جائے،‘جس میں شیخ صاحب اور اس لائن کو کھولنے کے مطالبے کو لے کر شہید ہونے والے افراد کے نام کندہ کروائے جاہیں، تاکہ اگلی نسل تاریخ سے نابلد نہ رہے۔اس تجارت کو حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت تھی۔ امید کی جانی چاہئے کہ اعتمادسازی کے طور پر شروع کی گئی تجارت کی یہ معطلی عارضی ثابت ہوگی اور ہندوستانی حکومت اس پر نہ صرف نظرثانی کرے گی بلکہ اس کی بحالی کے لیے بھی فوری اقدامات کئے جائیں گے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اوران کا کالم بدھ کے روز شائع ہوتا ہے۔ پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر