راجستھان کے وزیر تعلیم نے بتایا کہ ریاست کی پچھلی بی جے پی حکومت نے محکمہ تعلیم کو تجربہ گاہ بنا دیا تھا، آر ایس ایس کے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے نصاب میں تبدیلی کی گئی تھی۔ سیاسی مفادات کے لئے ساورکر کی بہتر امیج بنائی گئی تھی۔
نئی دہلی: راجستھان حکومت کے محکمہ تعلیم نے اسکولی نصاب میں ویر ساورکر کی سوانح حیات والے حصے میں تبدیلی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تین سال پہلے ریاست کی بی جے پی حکومت میں ونایک دامودر ساورکر کو ویر، عظیم محب وطن اور عظیم انقلابی بتایا گیا تھا لیکن اب کانگریس حکومت میں نئے سرے سے تیار اسکولی نصاب میں ان کو ویر کی جگہ جیل کی اذیتوں سے پریشان ہوکر برٹش حکومت سے رحمکی فریادکرنے والا بتایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی نئے حقائق بھی جوڑے گئے ہیں۔دینک بھاسکر کی رپورٹ کے مطابق، حکومت کا کہنا ہے کہ وہ طالب علموں کو صحیح طریقے سے تاریخ سے روبرو کرانے کے لئے نصاب میں تبدیلی کر رہے ہیں۔
راجستھان کے وزیر تعلیم گووند سنگھ دوتاسرا کا کہنا ہے کہ نصاب کا تجزیہ کے لئے ایک کمیٹی کی تشکیل کی گئی تھی۔ اسی کی تجاویز کے مطابق نصاب تیار ہوا ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی سیاست نہیں کی گئی ہے۔ پھر بھی اگر نصاب کو لےکر کوئی معاملہ سامنے آئےگا تو اس پر عمل کیا جائےگا۔خبر رساں ایجنسی اے این آئی کی رپورٹ کے مطابق، دوتاسرا نے کہا، ‘اس وقت کی بی جے پی حکومت نے محکمہ تعلیم کو ایک تجربہ گاہ بنا دیا تھا، آر ایس ایس کے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے نصاب میں تبدیلی کی گئی تھی۔ اس وقت کی حکومت نے ساورکر کی سوانح حیات تیار کی۔ اس میں درج حقائق کا تجزیہ ہماری حکومت کی کمیٹی کے ذریعے کیا گیا، جس سے پتہ چلا کہ سیاسی مفادات کے لئے ساورکر کی بہترامیج بناکر پیش کی گئی۔ ‘انہوں نے کہا، ‘ پچھلی حکومت کے ذریعے تیار کی گئی ساورکر کی سوانح حیات سے دیگر مجاہدین آزادی کی خدمات کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی۔ ‘
بی جے پی نے اس کو ساورکر کی توہین بتایا ہے، جبکہ کانگریس کا کہنا ہے کہ نصاب کے تجزیہ کے لئے تشکیل شدہ کمیٹی کی تجاویز کے مطابق اس کو تیار کیا گیا ہے اور اس میں سیاست نہیں کی گئی ہے۔ ریاست میں کانگریس حکومت کے آتے ہی اسکولی نصاب کا تجزیہ کا کام شروع ہوا تھا۔ اس کے لئے دو کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ہائی اسکول کے نصاب کے تجزیہ کے لئے تشکیل شدہ کمیٹی نے 10ویں کلاس کے باب تین’انگریزی سلطنت کی مزاحمت اور جدو جہد ‘ میں ملک کی کئی عظیم شخصیتوں کی سوانح حیات شامل کی ہیں۔ اس میں ساورکر سے جڑے حصے میں کافی تبدیلی کی گئی ہے۔ساورکر کی سوانح حیات کی شروعاتی کچھ سطروں میں لکھا تھا کہ ویر ساورکر عظیم انقلابی، عظیم محب وطن اور عظیم تنظیم کار تھے۔ انہوں نے تاعمر ملک کی آزادی کے لئے ایثار و قربانی کے جذبے سے کام کیا۔ ان کی تعریف لفظوں میں نہیں کی جا سکتی۔ ساورکر کو عوام نے ویر کے خطاب سے نوازا، یعنی وہ ویر ساورکر کہلائے۔ بی جے پی حکومت میں پڑھایا گیا تھا کہ ساورکر نے ابھینو بھارت نام کی تنظیم کی بنیاد1904 میں ڈالی تھی۔
حالانکہ، ساورکر کی سوانح حیات میں جو نئے حقائق جوڑے گئے ہیں، ان میں کہا گیا ہے کہ جیل کی تکلیفوں سے پریشان ہوکر ساورکر نے برٹش حکومت کے پاس چاربار رحم کی عرضیاں بھیجی تھیں۔ اس میں انہوں نے حکومت کے مبینہ طورپر کام کرنے اور خود کو پرتگال کا بیٹا بتایا تھا۔برٹش حکومت نے عرضیاں منظور کرتے ہوئے ساورکر کو 1921 میں سیلولر جیل سے رہا کر دیا تھا اور رتناگری کی جیل میں رکھا تھا۔ یہاں سے چھوٹنے کے بعد ساورکر ہندو مہاسبھا کے ممبر بن گئے اور ہندوستان کو ایک ہندو ملک بنانے کی مہم چلاتے رہے۔دوسری عالمی جنگ میں ساورکر نے برٹش حکومت کی مدد کی۔ 1942 میں ہندوستان چھوڑو تحریک کی ساورکر نے مخالفت کی تھی۔ مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد ان پر گوڈسے کی مدد کرنے کا الزام لگاکر مقدمہ چلا۔ حالانکہ بعد میں وہ اس سے بری ہو گئے۔
سابق وزیر تعلیم واسودیو دیونانی کا کہنا ہے، ‘ویر ساورکر ہندوتوا سے جڑے رہے ہیں۔ کانگریس ہمیشہ ہندوتوا سے نفرت کرتی ہے اس لئے یہ ویر ساورکر کا قد چھوٹا کرنے کی کوشش ہے۔ انقلابیوں کو نصاب میں اس لئے شامل کیا جاتا ہے کہ بچےان سے ترغیب لے سکیں لیکن حقائق کو توڑ-مروڑکر اس طرح ان کی توہین ٹھیک نہیں ہے۔ ‘راجستھان کے وزیرتعلیم گووند سنگھ دوتاسرا کا کہنا ہے کہ نصاب کے تجزیہ کے لئے ایک کمیٹی کی تشکیل کی گئی تھی۔ اسی کی تجاویز کے مطابق نصاب تیار ہوا ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی سیاست نہیں کی گئی ہے۔ پھر بھی اگر نصاب کو لےکر کوئی معاملہ سامنے آئےگا تو اس پر عمل کیا جائےگا۔
Categories: خبریں