انٹرویو: وارانسی لوک سبھا سیٹ سے نریندر مودی کے خلاف انتخاب لڑ رہے کانگریس امیدوار اجئے رائے سے بات چیت۔
بی جے پی سے اپنے سیاسی کریئر کی شروعات کرنے والے اجئے رائے پانچ بار ایم ایل اے رہے ہیں۔ اجئے رائے کو کانگریس نے وارانسی سے پی ایم مودی کے خلاف میدان میں اتارا ہے۔ اس سے پہلے 2014 کا انتخاب بھی پی ایم مودی کے خلاف لڑ چکے ہیں۔1996 میں پہلی بار اجئے رائے بی جے پی کے ٹکٹ پر وارانسی کی کولسلا اسمبلی سیٹ سے انتخاب لڑے اور جیت گئے تھے۔ اس کے بعد اجئے رائے 2009 تک بی جے پی کے ساتھ رہے۔ اس کے بعد ٹکٹ نہ ملنے سے ناراض ہوکر بی جے پی چھوڑ ایس پی میں آ گئے اورایس پی کی ٹکٹ پر وارانسی سے انتخاب لڑا، حالانکہ تب مرلی منوہر جوشی جیتے اور اجئے رائے تیسرے نمبر پر رہے۔اس کے بعد اجئے رائے نے ایس پی کا دامن بھی چھوڑ دیا اور اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں اپنی کولسلا سیٹ سے آزاد میدان میں اترے اور جیتے۔ 2012 میں رائے کانگریس میں شامل ہوئے اور پنڈرا اسمبلی سیٹ سے لڑے اور جیتے۔ 2014 لوک سبھا انتخاب میں کانگریس نے ان کو نریندر مودی کے خلاف میدان میں اتارا لیکن ان کو محض 75 ہزار ووٹ ملے۔
اس بار وہ پھر کانگریس کے ٹکٹ پر نریندر مودی کے سامنے ہیں۔ وارانسی میں اجئے رائے سے ہوئی بات چیت کے اقتباسات :
پچھلے لوک سبھا انتخاب کا نتیجے آپ کے لئے اچھے ثابت نہیں ہوئے تھے، اس بار صورت حال کیسی لگتی ہے؟
اروند کیجریوال پچھلی بار جب آئے تھے تو صرف بڑی-بڑی باتیں کرکے بنارس کے لوگوں کا ووٹ لیا، کبھی بنارس کے لوگوں کے ساتھ نہیں آئے۔ یہ باہر کے لوگ ہیں، مودی جی بھی باہر سے ہیں اور تمام بڑی-بڑی باتیں کرتے ہیں۔بنارس کی گلیوں کو، بنارس کے مسائل کو، یہاں کی جو چیزیں ہیں، وہ ابھی تک وزیر اعظم سمجھ نہیں پائے اور نہ ہی وزیر اعظم کو جانکاری ہو پائی ہے۔ ہم لوگ یہاں کے لوکل ہیں اور یہاں کی ہر صورت حال کو جانتے ہیں، چاہے وہ ہندو ایریا ہو، مسلم یا سکھ۔ تمام ایریا کو ہم لوگ جانتے ہیں۔ جو بنارس کا ہو وہ کام کرےگا اور یقینی طور پر اسی کو بنارس کی عوام اس بار ووٹ دینے والی ہے۔
کن مدعوں کو لےکر آپ انتخاب لڑ رہے ہیں؟
دیکھیے، یہاں پر انتخابی مدعا لوکل بنام باہری ہے۔ پچھلی بار بھی ہم نے کہا تھا لوکل بنام باہری انتخاب ہوگا۔ اس بار یہی ہے کہ لوکل آدمی یہاں کی آب وہوا کو جانےگا، یہاں کی گنگا-جمنی تہذیب کو جانےگا، باہر کا آدمی نہیں سمجھ پائےگا۔یہاں بجلی، پانی، سڑک، ماں گنگا، جس کو صاف کرنے کی بات مودی جی نے کی تھا، جو وشوناتھ کاریڈور کے نام پر آکریہاں آرائش و زیبائش کے نام پر مندروں کو توڑا ہے، مذہبی مقامات کو توڑا ہے، یہ سب بنارس کے مدعے ہیں اور یقینی طور پر آنے والے وقت میں مودی جی کو یہاں سے واپس بھیجنے والے ہیں۔
وارانسی میں کئی سال سے بی جے پی جیتتی آئی ہے اور وزیر اعظم مودی موجودہ ایم پی بھی ہیں۔ آپ کی نظر میں کتنا بدلا ہے بنارس؟
دیکھیے، بی جے پی کا دورحکومت یہاں پر رہا ،پر چیزیں صرف ڈھکوسلے پر چلی ہیں۔ کام تو کچھ نہیں ہوا ہے۔ ہمارے دفتر (کھجری، پانڈےپور روڈ) کے باہر نکلکر دیکھیے، سڑک کی حالت کیسی ہے؟ بنارس بدلا نہیں ہے، بنارس کی حالت اور خراب ہوئی ہے۔
بی جے پی، ایس پی ، اس کے بعد آزاد اور اب کانگریس، کتنا فرق محسوس کیا ان پارٹیوں میں؟
کانگریس پارٹی ایک پارٹی ہی نہیں بلکہ ایک برگد کے درخت کی طرح ہے۔ ایک ایسا برگد کا درخت جس کے نیچے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، امیر-غریب سب لوگ آرام سے بیٹھکر اپنی سیاسی زندگی لےکر چل سکتے ہیں۔اور ان کو کوئی دقت یا پریشانی نہیں ہوگی کیونکہ یہاں پر گھر والا ماحول ہے۔ یہاں پر استحصال نہیں کیا جاتا، پریشان نہیں کیا جاتا۔ آپ کو کام کرنے کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔
بی جے پی چھوڑنے کی وجہ کیا رہی؟
بی جے پی میں جب تک اٹل بہاری واجپائی جی کی حکومت چل رہی تھی تب وہاں کوئی دقت نہیں تھی۔ لیکن جب اٹل جی بیمار رہنے لگے اور فیصلہ لینے کے قابل نہیں رہ گئے، اس کے بعد بی جے پی کی حالت بہت خراب ہو گئی۔پارٹی میں جو کارکن تھے ان کی عزت ختم ہو گئی، اس لئے بی جے پی کو چھوڑنا پڑا۔ بی جے پی میں کارکنان کی قدر ختم ہو گئی۔ وہاں کارپوریٹ کلچر آ گیا، کارپوریٹ کی طرح ڈیل ہوتی ہے وہاں اب۔ ایسا اٹل جیکے وقت میں نہیں تھا۔
وارانسی میں پہلے کانگریس سے پرینکا گاندھی کے کھڑے ہونے کا ذکر تھا، پھر آخری وقت پر آپ کے نام پر مہر لگی۔ کیا ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا؟
پرینکا گاندھی کے انتخاب لڑنے کی بات کارکنان نے کی تھی، کانگریس پارٹی نے کبھی ایسی بات نہیں کی تھی۔ صرف کارکنان کی مانگ پر بات ہو رہی تھی۔ پرینکا گاندھی کے انتخاب لڑنے کی بات کانگریس نے کبھی نہیں کی۔اور ایسا نہیں ہے کہ کانگریس کے پاس آپشن نہیں تھا، کانگریس کارکنان کی عزت کرتی ہے۔ جو کارکن زمین پر لڑےگا، سڑک پر لڑےگا، یقینی طور پر پارٹی اس کو اہمیت دےگی۔کیا لگتا ہے کہ اگر پرینکا گاندھی وارانسی سے انتخاب لڑتی تو حالت کچھ اور ہوتی۔پرینکا جی ہماری رہنما ہیں، وہ لڑیںگی، تو ہم سب ان کا استقبال کریںگے۔
نریندر مودی اگر جیتے تو پھر وزیر اعظم بن سکتے ہیں، تو عوام ایک وزیر اعظم کو جتائےگی یا صرف ایک ایم پی کو؟
دیکھیے، وزیر اعظم کو کامیاب کر کے عوام نے پانچ سال تک ان کی مدت کار کو دیکھ لیا۔ اب وہ اپنے بیٹے (اجئے رائے) کو رکن پارلیامان بنائیںگے، جو ان کے لئے ہمیشہ کھڑا رہےگا، ہمیشہ جدو جہد کرےگا۔ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر لڑےگا۔ اور جو جانےگا کہ کون سا آدمی کہاں کا ہے، کون سا محلہ کہاں ہے۔وزیر اعظم کو تو پانچ سال دیکھا، 18 سے 19بار آئے۔ بنارس میں پل کا بیم (ستون) گرا، پچاسوں لوگ مر گئے لیکن اس دن وہ لوگ کرناٹک انتخاب کا جشن دہلی میں منا رہے تھے۔ ہمارے بھائی یہاں مر رہے ہیں، ہم لوگ وہاں جاکر مدد کر رہے ہیں اور وہ جشن منا رہے تھے۔ ایسا وزیر اعظم نہیں چاہیے، ایسا عوامی نمائندہ نہیں چاہیے۔
بی ایچ یو کی طالبات کئی بار مختلف مدعوں کو لےکر مظاہرہ کر چکی ہیں، اس پر کیا کہیںگے؟
بی ایچ یو کی لڑکیاں جب اپنے حقوق کے لئے سڑک پر اتریں، تو ان کے اوپر لاٹھی چارج کیا گیا۔ وزیر اعظم کو اسی راستے سے جانا تھا لیکن انہوں نے راستہ بدل دیا۔ کیا یہی انسانیت ہے؟آپ کے گھر کی بیٹیاں ہیں، ان کو بلاکر ملنا چاہیے تھا۔ نہیں تو ان کے درمیان جاکر بات کرنی چاہیے تھی کہ آپ کو کیا مسئلہ ہے پر آپ نے راستہ بدل دیا۔ یہ نامردی ہے یا بز دلی ہے۔اگر اجئے رائے رہتا، تو جاکر ان کے درمیان بیٹھتا، فوراً وی سی کے خلاف کارروائی کی مانگ کرتا۔ میں ایم پی بنا تو دیکھیے گا کہ لاٹھی چلےگی کبھی! آپ دیکھ لینا۔ میں بتا رہا ہوں کہ اجئے رائے ان کے بیچ میں بیٹھیںگے اور جب تک وی سی ہٹائے نہیں جائیںگے، متعلقہ آدمی ہٹایا نہیں جائےگا، تب تک اجئے رائے وہاں سے نہیں ہٹیںگے۔
لگاتار کہا جا رہا کہ گزشتہ کئی سالوں میں بی ایچ یو کا ماحول خراب ہوا ہے، مہینے بھر پہلے ایک طالبعلم کا گولی مارکر قتل کر دیا گیا۔ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو تعلیمی اداروں کے تئیں کیسا رویہ ہوگا؟
کانگریس کی حکومت میں ہم نے ایسے-ایسے لوگوں کو وائس چانسلر بنایا، جن کا نام پورے ملک اور دنیا میں ہے۔ پنجاب سنگھ، زراعت کے جانے مانے سائنس داں ہیں، لال جی سنگھ، پروفیسر گوتم، ڈی پی سنگھ، یہ لوگ ماہر تعلیم تھے، جان کار تھے۔بی جے پی کی طرح نہیں کھوجے کہ سب سے بڑا چڈھی دھاری کون ہے، ہاف پتلون پہننے والا کون ہے، جو صبح اٹھکے جاکر جھنڈا پرنام کرتا ہے، اس کو کھوجکے لاکر وی سی بنائے ہیں، ایسے تعلیمی ادارے نہیں چلیںگے۔
کاشی وشوناتھ مندر کاریڈور کے بارے میں کیا رائے ہے؟
مندر کاریڈور کے بارے میں میری رائے ہے کہ جن لوگوں نے یہ گناہ کیا ہے، جنہوں نے وہ گناہ کیا ہے، ہماری حکومت بنےگی تو ان کے خلاف ہم کارروائی کرائیںگے۔
وزیر اعظم مودی کے بنارس آنے کے بعد یہاں کوئی تبدیلی آئی دیکھتے ہیں؟
یہ وزیر اعظم کا پارلیامانی حلقہ ہے۔ ان کے بنارس آنے کے بعد ٹھیلا والا بھگا دیا جاتا ہے، گمٹی والے، آٹو چلانے والے، غریبوں کو بھگا دیا جاتا ہے، جو روز کنواں کھود رہا ہے، پانی پی رہا ہے، اس کے اندر، عام آدمی کے اندر غصہ ہے۔میری نظر میں یہاں روزگار کے مواقع ہونے چاہیے، کل-کارخانے ہونے چاہیے، فیکٹریاں لگنی چاہیے۔ بنکر سماج کے لئے ٹریڈ سینٹر بنایا گیا ہے، اس میں آج تک بنکروں کا کوئی پروگرام نہیں ہوا۔وہاں موہن بھاگوت جی جاتے ہیں، مودی جی آتے ہیں وہاں میٹنگ کرتے ہیں، امت شاہ جی آتے ہیں اپنے کارکنان کا جلسہ کرتے ہیں۔ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بنکروں کے لئے بننے والی اس جگہ پر آج تک ایک بھی پروگرام بنکروں کے لئے نہیں ہوا ہے۔ پھر کیسی تبدیلی؟
جن کے نام پر وہ بنا ہے ان کا پروگرام ہی نہ ہو تو تبدیلی کیسی۔ ہاں، وزیر اعظم نریندر مودی جیکی مدت کار کی ایک کامیابی ہے جو بابت پور سے بنارس تک 14 کلومیٹر تک کی سڑک بناکر اسی کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔وزیر اعظم کی سطح کا بس وہی کام ہوا ہے۔ باقی ایک کل کارخانے، ایک کارخانہ، کسی پڑھے-لکھے لڑکے کو نوکری، کچھ نہیں ہوئی ہے۔ گنگا ماں کا بیٹا بنکر آئے تھے، آج بھی وہاں نالا گر رہے ہیں۔پنڈت مدن موہن مالویہ جی نے لوگوں سے چندہ لےکر، عطیہ لےکر اس لئے اتنے بڑے ادارے کی تعمیر نہیں کی تھی کہ ہمارے گلشن میں سنگھ کی شاکھاچلےگی، کیمپس میں جو بچےتعلیم لے رہے ہیں ان کا قتل کرایا جائے گا!
(رضوانہ تبسم آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر