افتخار عالم خاں کی کتاب –سرسید کی لبرل ،سیکولراور سائنسی طرز فکر’سرسید شناسی کے بالکل نئے امکانات کو سامنے لاتی ہے اور عہد حاضر میں سرسید کی معنویت کے نئے ابواب رقم کرتی ہے۔
سرسید ہماری اجتماعی تہذیبی، قومی، ملی اورفکری زندگی کا ایک ایسا روشن حوالہ ہیں جس کی تابانی مرورِ زمانہ سے متاثر نہیں ہوئی ہے اور امتدادِ وقت کے ساتھ ساتھ سرسید کی معنویت کے نئے ابواب وا ہو رہے ہیں مگر یوں بھی ہے کہ سرسید کی شناخت کا مرکزی حوالہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام اور مختلف جہات کو محیط ان کی اصلاحی تحریک ہے۔ سرسید کی سوانح، افکار اور نظریات اور ان کے علمی، فکری، ادبی اور صحافتی اکتباسات کا منبع و مخرج حیات جاوید (1901) اور اسماعیل پانی پتی کی 16جلدوں پر مشتمل کتاب ”مقالات سرسید“ (1962)ہے۔ سرسید کے انتقال (1898)کے بعد سے ان سے متعلق بے شمار تحریریں شائع ہوئی ہیں مگر ان میں سے بیش تر کتابوں اور مقالات کی حیثیت حیات جاوید کی صدائے بازگشت سے زیادہ نہیں ہے کہ حالی کے اندراجات کو تحقیقی (Cross reference)عمل سے نہیں گذارا گیا اور اسی طرح مقالات سرسید میں شامل تحریروں کو بلا شرکتِ غیرے سرسید کی تصانیف کے طور پر قبول کیا گیا۔ حالی کی سرسید سے قربت، ان کی گرانقدر علمی صلاحیتوں اور ادبی مباحث اور تنقیدی نکات پر ماہرانہ دسترس سے انکار نہیں مگر حیات جاوید تحقیقی تسامحات سے پُر ہے، مثلاً سوانح کے باب میں سرسید کے اجداد کی ہندوستان میں آمد، ان کے والد اور بہن کا صحیح نام، ان کے بڑے بھائی سید محمد خاں کی ادارت میں شائع ہونے والے اخبار ”سید الاخبار“ کی اشاعت کا زمانہ اور سرسید کی ملازمت اور مختلف اہم سرکاری اداروں (مثلاً وائسرائے کونسل اور شمال مشرقی صوبہ کے گورنرکی کونسل اور پبلک سروس کمیشن کی ممبری)سے ان کی وابستگی کے ذکر میں تحقیقی تقاضوں کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ لہٰذا اطلاعات درست نہیں ہیں۔
اسی طرح مقالات سرسید میں متعدد ایسی تحریروں کو شامل کر دیا گیا ہے جو سرسید کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدوں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق میں دیگر مضمون نگاروں کے نام سے شائع ہوئی ہیں یا پھر انہیں انگریزی سے اردو میں منتقل کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں سب سے اہم مثال سرسید کے بعض مشہور مضامین بحث و تکرار، گذرا ہوا زمانہ اور خوشامد وغیرہ کی ہے جو انگریزی سے ترجمہ ہیں اور اس کا برملا اعتراف خود سرسید نے کیا ہے کہ یہ مضامین جب علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع ہوئے تو ان میں سرسید نے اصل مضمون نگار کی صراحت بھی کرد ی تھی۔ اس قدرے طویل تمہید کامقصد نہ صرف سرسید سے متعلق مسلسل شائع ہونے والی تحریروں کی بے بضاعتی کو خاطر نشان کرنا ہے بلکہ تحقیقی دیانت داری اور تنقیدی ژرف نگاہی سے منور ایسی اہم کتابوں اور مضامین کی تحریر کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے جو سرسید فہمی کے نئے ڈسکورس کو قائم کرتی ہیں۔اس ضمن میں ایک خیال انگیز تجزیاتی بصیرت اور تعبیراتی تازہ کاری کے نئے افق روشن کرنے والی کتاب ”سرسید کی لبرل، سیکولر اورسائنسی طرزِ فکر“ شائع ہوئی ہے۔
سرسید کی لبرل، سیکولر اورسائنسی طرزِ فکرافتخار عالم خاں کی کتاب ہے۔ انہوں نے گزشتہ دو تین دہائیوں میں سرسید شناسی کا نیا تحقیقی اور علمی تناظر قائم کیا ہے اورمعروف ماہرین سرسید کی طرح حیات جاوید اور مقالات سرسید کومقدس صحیفہ کے طور پر قبول نہیں کیا ہے اور بنیادی ماخذ اوردستاویزات کے براہ راست مطالعہ سے سرسید سے متعلق متعدد غلط فہمیوں اور مفروضوں کی معروضیت کے ساتھ تردید کی ہے۔ افتخار عالم خاں کا اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے سرسید کی سوانح اور کارناموں پر مبنی بیانیہ کی تقلیب کی ہے اور ان کی 11 کتابیں سرسید کے فقید المثال کارناموں کا ایک نیا علمی ڈسکورس قائم کرتی ہیں۔
پروفیسر افتخار عالم خاں نے اپنی کتاب میں سرسید کے افکار و نظریات کے ان پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے جن سے واقفیت عام نہیں ہے کہ حالی نے ان پہلوؤں کو موضوع بحث نہیں بنایا ہے۔ مثلاًکانگریس کی پر زور مخالفت کو سرسید کے نقطہ نظر کا جزو جلیل سمجھا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر مطعون بھی کیا جاتا ہے مگر افتخار صاحب نے اس ضمن میں تحقیقی دقت نظری کے ساتھ سرسید کی ان تحریروں اور واقعات کا ذکر کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرسید کا کانگریس سے نظری اختلاف تھا تاہم وہ کانگریس کے لیڈروں کے خلاف کارروائی یا ان کی سرگرمیوں کو ملک دشمن نہیں سمجھتے تھے۔ مصنف نے کانگریس کے تئیں سرسید کے مفاہمتی رویہ کو خاطر نشان کرنے کے لیے یونائٹیڈ انڈین پیٹریاٹک سوسائٹی کے اجلاس منعقدہ1888 کا ذکر کیا ہے جس میں راجہ شیو پرساد نے کانگریسی لیڈر بھیم جی کی اشتعال انگیز تقریروں اور تحریروں پر پابندی لگانے کی تجویز پیش کی اور قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تو سرسید نے اس تجویز کی سخت مخالفت کی اور پاینیر کے نام اپنے ایک مراسلہ میں لکھا؛
میں اس ریزولیوشن سے متفق نہیں ہوں۔ بنگالیوں کو میں ہرگز بدخواہ گورنمنٹ کا نہیں سمجھتا ہوں گو کہ انہوں نے نہایت بری طرح کارروائی کی ہے۔ کانگریس والوں سے ہم کو کچھ عداوت نہیں ہے کہ ان کو فوجداری میں نامزد کرانے کی تدبیریں کریں۔ ہم میں اور ان میں رائے کا اختلاف ہے۔
افتخار عالم نے کانگریس کی جانب نرمی اور مفاہمت کے رویے کی ایک اور مثال درج کی ہے۔ 1886 میں مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کی مہم کر تیز کرنے کی غرض سے سرسید نے محمڈن ایجوکیشنل کانگریس کی تشکیل کی تھی مگر1890 میں اس تنظیم کا نام محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کردیا گیا۔ افتخار صاحب نے 1890 میں الٰہ آباد میں منعقدہ اجلاس میں منظور تجویز کو نقل کیا ہے جس میں کہا گیا ہے؛
اس جلسے کی رائے ہے کہ ہمارے اس قومی تعلیمی جلسے کا نام ’محمڈن ایجوکیشنل کانگریس رکھا گیا ہے۔ لفظ کانگریس لوگوں کو شبہ میں ڈالتا ہے۔بعض سمجھتے ہیں کہ یہ مثل کانگریس کے ہے جو اس نام سے مشہور ہے اور بعض سمجھتے ہیں کہ یہ جلسہ اس کے برخلاف اینٹی کانگریس ہے حالانکہ اس جلسے کا ان دونوں باتوں سے کچھ تعلق نہیں ہے اس لیے نام میں فرق کیا جائے اور آئندہ سے اس جلسے کا نام ’محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس‘ قرار دیا جائے“۔
مصنف نے ان واقعات کی صراحت کے حوالے سے سرسید کے بدلتے ہوئے رویے کو نشان زد کرنے کی سعی کی ہے اور پھر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اگر عمر وفا کرتی تو سرسید کا نقطہ نظر مختلف ہوتا۔ افتخار صاحب کی یہ تاویل یا تعبیر محض خوش فہمی یا رائے زنی کے ذیل میں نہیں آتی بلکہ اس سے مصنف کی سیاسی فراست اور تدبر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس کی اساس سرسید کی تحریروں کے بالاستیعاب اور براہ راست مطالعہ پر قائم ہے۔ان کا مفروضہ خاصا خیال انگیز اور قابل اعتبار ہے؛
ہمارا مفروضہ ہے کہ اگر عمر نے وفا کی ہوتی تو خیال اغلب ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز تک جب ملک میں جدید قومیت کے تصورات باقاعدہ تشکیل پانا شروع ہو گئے تھے، سرسید بھی اس جدید قومیت کی تشکیل کے سربرآوردہ اشخاص کی صف اول میں کھڑے نظر آتے۔ اس مفروضہ کے سلسلے میں یہ امر ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ 1906 میں شملہ ڈپوٹیشن اور مسلم لیگ کی تاسیس میں شریک ان کے سابق شرکائے کار (بشمول وقار الملک اور محسن الملک)سرسید کی جدیدیت کی حامل تعلیمی اور معاشرتی اصلاح کی تحریک سے سرسید کی زندگی کے آخری دور میں نظریاتی طور پر (اور امت کے مفاد اور عقیدے کے تحفظ کے نام پر) خاصے دور ہو گئے تھے، یہاں تک کہ ان کے سرسید سے ذاتی مراسم تک خاصے آزردہ اور کبیدہ خاطر ہو گئے تھے۔
150سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب سرسید کی لبرل، سیکولر اور سائنسی طرز فکر کے بتدریج ارتقا کا ایک حساس بیانیہ مرتب کرتی ہے۔سرسید کے بیش تر سوانح نگاروں نے سرسید کی تفہیم میں مذہبی تشخص کو بنیادہ اہمیت دی ہے اور سرسید نے جن تکثیری رویوں کی آبیاری کی اس سے اعراض برتا ہے۔ افتخار عالم صاحب نے سرسید فہمی کے اس خلا کو پُر کرنے کی قابل قدر کوشش کی ہے۔ سیکولر ازم کو ایک جدید مغربی اصطلاح سمجھا جاتا ہے مگر سیکولرازم کا بنیادی تصور بہت پرانا ہے اور اس کی جڑیں بقول مصنف اس قدیم ہندوستانی روحانی فلسفے پر مبنی ہیں جس کی رو سے یہ یقین کیا جاتا ہے کہ دراصل حقیقی سچائی ایک ہے جس کو انسان نے مختلف ادوار میں مختلف تعبیرات اور مختلف اشکال میں تلاش کرنے کی جستجو کی ہے جس کی وجہ سے مختلف تعبیرات اور مختلف اشکال وجود میں آ گئی ہیں۔
سرسید کے یہاں سیکولرازم یعنی تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مساوی حقوق اور تحفظ میسر ہو، کا واضح تصور موجود ہے اور ان کا یہ بھی خیال تھا کہ حکومت کو مذہبی معاملات میں غیر جانبدار ہونا چاہئے۔ پروفیسر افتخار عالم نے سرسید کے سفر نامہ لندن کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تعلیمی امور میں مذہبی ناجانبداری کا تصور یہاں کھل کر سامنے آتا ہے۔ دوران سفر دخانی جہاز پر سرسید کی ملاقات ناگپور کے ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن میجر ڈاڈ سے ہوئی اور ان سے اکثر بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ میجر ڈاڈ نے اپنے ایک ساتھی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس عہدہ (ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن) پر کامیاب نہ ہو سکے کہ وہ لا مذہب تھے۔ اس پر سرسید کے جواب سے ان کی سیکولر فکر واضح ہوتی ہے ؛
میں (سرسید) نے کہا کہ میری رائے میں ضروری ہے کہ ہندوستان میں ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن ایسے ہی ہوں جو لامذہب ہوں۔ کہنے لگے ’کیوں؟‘۔ میں نے کہا جب ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہوں تو مذہبی آدمی کا افسرِ تعلیم ہونا اکثر دفعہ بے تعصب عام تعلیم کا مانع ہو جاتا ہے۔ یہ بات سن کر متعجب ہو کر خاموش ہو رہے۔ درحقیقت میری رائے یہ ہے کہ جیسا خدا بے تعصب ہے۔ مشرک، بت پرست، خدا پرست سب کی برابر پرورش کرتا ہے، اسی طرح گورنمنٹ کو اور افسر تعلیم کو بے تعصب ہونا چاہئے“۔
افتخار صاحب مغرب کی روشن خیال جدیدیت، کلونیل جدیدیت اور سرسید کے تصور جدیدیت کی جس میں سائنسی نقطہ نظر کو اخلاقی اقدار سے ہم آہنگ کرنے کی شعوری سعی شامل ہے، تفصیلی بحث کو موضوع بنایا ہے۔ اسی طرح سرسید کے تصور قوم سے بھی خیال انگیز بحث کی گئی ہے۔ سرسید کا تصور قوم تضادات کی آماجگاہ ہے کہ ان کے ہاں قومیت، حب الوطنی اور شہریت میں تفریق روا نہیں رکھی گئی ہے، لہٰذا سرسید کے تصورِ قوم کو کسی ایک دائرہ تک محدود نہیں کیا جا سکتاہے۔ یہاں مصنف کی تعبیر میں ایک نوع کی تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔
عوامی مسائل کی ترجمانی، تعلیم نسواں، قدیم ہندوستانی تہذیب، قومی یکجہتی، نظریہ وفا شعاری، مسلم پرستی، مذہب اور سائنس، سائنسی طرز فکر اور عصری سائنسی نظریات کے تناظر میں سرسید کے افکاروخیالات پر بڑی کارآمد گفتگو کی ہے۔ یہاں سرسید کی ان تحریروں سے استفادہ کیا گیا ہے جن سے زیادہ تر ماہرین آشنا نہیں ہیں۔ یہ کتاب سرسید شناسی کے بالکل نئے امکانات کو سامنے لاتی ہے اور عہد حاضر میں سرسید کی معنویت کے نئے ابواب رقم کرتی ہے جس کے لیے مصنف لائق صد تبریک و تحسین ہیں۔
(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)
Categories: ادبستان