اورنگ آباد جسے کبھی ورلڈ بینک نے ایشیا کا سب سے تیز رفتاری سے بڑھتا ہوا کاروباری ضلع قرار دیا تھا آج بہت ہی خوفناک طریقے سے پانی کی قلت کا سامنا کر رہا ہے۔
اورنگ آباد جو کہ مراٹھواڑ کا مرکز ی شہر بھی ہے، اس شہر میں مسلمانوں کی30.79 فیصد آبادی اور دلت طبقہ کی 15.7فیصد آبادی ہے، یہ شہر فرقہ وارانہ فسادات کا گڑھ رہا ہے۔ 1980 کے بعد شو سینا کی تخریبی سیاست اور سیاسی غلبے کی وجہ سے یہاں بارہا فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے یہ شہر مذہبی اور ذات پات کی تفریق کی وجہ سے بہت گہرے طریقے سے بٹ چکا ہے۔ پچھلے سال ہی مئی کے مہینے میں یہ شہر فرقہ وارانہ فسادات کا شکار ہوا تھا جس میں دو شہری جاں بحق اور کئی دکانیں جلائیں بھی گئی تھی۔ اور پھر بھیما کورےگاؤں کے واقعہ کے بعد بھی یہاں فسادات ہوئے تھے۔ یہ شہر ہمیشہ فسادات کی دہلیز پر رہا ہے۔ کوئی بھی اس شہر میں قدم رکھتے ہی یہ محسوس کرسکتا ہے کہ یہاں کے ماحول میں ہی ہڑبڑی ہوتی ہے۔ یہ شہر کبھی بھی کرفیو میں چلا جاسکتا ہے۔ پرانے فسادات کے واقعات آج بھی یہاں کے شہریوں کے ذہنوں میں تازہ نقش ہے۔
یہاں کے لوگ اور پولیس دونوں ہمیشہ چوکنے رہتے ہیں کیوں کہ کبھی بھی یہ شہر نفرت کی آگ کا شکار ہوسکتا ہے۔ جس دن پارلیامانی انتخابات کے نتائج ظاہر ہونے والے تھے اس دن لوگوں نے یہاں اپنے دفتروں اور دکانوں کو شام ہونے سے پہلے ہی بند کردیا تھا کیوں کہ یہ افواہ پھیلی تھی کہ یہاں فسادات ہونے والے ہیں۔حال ہی میں کچھ نفرت پھیلانےوالے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے تھے جس کی وجہ سے پولیس کو پیش قدمی بھی کرنی پڑی۔
ایک ایسا واقعہ تب پیش آیا جب ایک نابالغ بچہ کا ویڈیو سوشل میڈیا میں انتخابی مہم کے دوران سامنے آیا۔ اس ویڈیو میں ایک 13 سالہ بچہ مہاراشٹر کے مشہور و مفکر شخصیتوں کو گالی گلوگ دیتا ہوا نظر آیا۔ یہ لڑکا مسلم سماج سے تعلق رکھنے والا بتایا گیا تھا۔ بہت ساری سماجی پارٹیوں نے اسے کل ہند مجلس اتحاد المسلمین (ایم آئی ایم)کی کارستانی بتائی ۔ اس ویڈیو کے ردِعمل میں آزاد امیدوار ہرش وردھن جادو نے ایک اور ویڈیو جاری کیا جس میں انہوں نے ایم آئی ایم کے خلاف کارروائی کی دھمکی دیتے ہو ئے یہ کہا کہ وہ ایم آئی ایم کے اس شہر میں سارے دفتروں کو مسمار کرکے رکھ دیں گےساتھ ہی ساتھ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایم آئی آیم کے امیدوار معافی بھی مانگ لیں۔ جادو اورنگ آباد کے پارلیامانی انتخابی امیدوارکےتین بڑے امیدواروں میں سے ایک تھے، انہوں نے حال ہی میں شوسینا سے اپنا ناطہ توڑ کر الگ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جادو مہاراشٹر بی جے پی صدر راؤ صاحب دانوے کےرشتہ میں داماد بھی لگتے ہیں۔
اس ویڈیو کے رد عمل میں وہاں کے ایم ائی ایم کے پا رلیامانی انتخابی اُمیدوار اور ایم ایل اے جو اب ایم پی بھی چنے گئے، امتیاز جلیل نے عقل مندی اور سمجھداری سے کام لیتے ہوئے ویڈیو جاری کیا جس میں انہوں نے اپنی پارٹی پر سارے الزمات کو رد کرتے ہوئے امن کی اپیل کی۔ اس کے نتیجہ میں جادو کو دوسرے ویڈیو میں اپنے پہلے بیان سے دستبردار ہونا پڑا ساتھ ہی ساتھ ان کو پولیس سے معافی بھی مانگنی پڑی۔ پولیس نے اس کے نتیجہ میں جادؔو کے خلاف ایک معاملہ بھی درج کیا۔ جلیل جو کہ ونچت بہوجن اگھاڑی(وی بی اے) اور ایم آئی ایم کے اتحاد کی طرف سے اورنگ آباد کے پارلیامانی حلقہ سے امیدوارتھے،ان کی وجہ سے یہ شہر ایک بڑے کہرام سے بچ پایا۔
ایک بہت ہی قابل ذکر بات جو اورنگ آباد کے پارلیامانی انتخاب میں دیکھنے کو ملی وہ یہ ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد و تفریق کا شکار ہونے کے باوجود بھی یہاں لوگوں کا جو اتحاد و اتفاق نظر آیا، خاص طورپر دلت اور مسلمان طبقہ کا اتحاد وہ لائق تقلید ہے۔میری جن اشخاص سے بھی وہاں بات چیت ہوئی انہوں نے بتایا کہ یہ اتحاد اس شہر کے امن و امان کے لئے کافی اہم قدم ہوسکتا ہے۔
1980 کے بعدسےاس شہر پر شو سینا قابض رہ چکا ہے۔ شو سینا کے پارلیامانی امیدوار چندر کانت کھیرے یہاں دو دہائی سے پارلیامنٹ کے رکن چنے گئے ہیں۔ کھیرے غالباً اس باراپنے بہت سے حامیوں کا بھروسہ کھوبیٹھے تھے۔بتا یا گیا کہ ان کی میونسپل کارپوریشن اورضلع پریشد میں مداخلت کی وجہ سے بھی ان کے حامی ان سے خفا تھے۔ کچرے کا مسئلہ اور پانی کی کافی قلت دونوں کھیرے کی ناکامی مانی جاتی ہے۔ یہی وجہ رہی کہ جادؔو نے شو سینا چھوڑ کر الگ سے انتخابات میں حصہ لیا۔ اس انتخاب میں بھی خان یابھان جیسے نفرت پھیلانے والےنعرے شو سینا نے اپنی انتخابی مہم میں لگائے۔ اتفاقاً اس پارلیامانی انتخاب میں شو سینا سے الگ ہوئے امیدوار جادو اور شو سینا -بی جے پی اتحاد کے امیدوار چندر کانت کھیرے کے بیچ کی کڑی لڑائی کی وجہ سےایم آئی ایم وی بی اے کے امیدوار امتیا زجلیل کو فائدہ ہوا۔ جلیل نے اپنے مد مقابل شو سینا کے امیدوارکھیرے کے خلاف صرف 4492ووٹوں سے جیت حاصل کی۔
2014کے ریاستی انتخابات میں ایم آئی ایم کے امیدوار امتیازجلیل نے اورنگ آباد سینٹرل سے جیت حاصل کی تھی۔ ایک سال بعد ہی ایم آئی ایم نے اپنے پہلے میونسپل الیکسن میں حصہ لیتے ہوئے 113 میں سے 25 سیٹ جیت لی تھی اور دوسری بڑی پارٹی کے طور سے ابھر کر سامنےآچکے تھے۔ میونسپل انتخابات میں بھی یہ پارٹی دلت، مسلم اور او بی سی کے اتحاد کے فارمولہ پر ہی عمل پیر ا تھی۔ ان طبقوں کو ساتھ لے کرہی ایم آئی ایم نے اورنگ آباد میں اپنے قدم جمائے ہیں۔
اورنگ آباد جسے کبھی ورلڈ بینک نے ایشیا کا سب سے تیز رفتاری سے بڑھتا ہوا کاروباری ضلع قرار دیا تھا آج بہت ہی خوفناک طریقے سے پانی اور کچرے کے بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ نئے منتخب پارلیامانی ممبر کو ترقیاتی و فکری دونوں سطح پر اس شہر کے مسئلوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
جب سے بی جے پی نے یہاں انتخابات جیتے ہیں تب سے ہی تقریباً 5 سے زائد ایسے واقعات سرزد ہوئے ہےجس میں دلت، مسلمان اور ٓادیواسیوں کے خلاف نفرت آمیز واقعات سامنےآئے ہیں، اس کے باوجود اس ملک کے بدلتے سیاسی ڈھانچے کو سمجھنے کے لئے اورنگ آباد ایک اچھی مثال ہے۔امتیاز جلیل پچھلے 15 سالوں میں پہلے نو منتخب مسلمان ہیں۔مسلمانوں کی آبادی مہاراشٹر میں11.54 فیصد ہے پھر بھی صرف نو یم ایل اے ہی یہاں سے پچھلے ریاستی انتخاب میں چنے گئے۔ قاضی سلیم اورنگ آباد سے آخری مسلمان امیدوار تھے جنہوں نے 1980 میں پارلیامانی انتخاب اورنگ آباد سے جیتا تھا۔
Categories: فکر و نظر