ہتھیاروں کے سودے کرانا، دو ریاستوں کے رشتوں میں ان کی سرحدوں کو متنازعہ بنانا، ڈپلومیسی اور انٹیلیجینس میں اس کا عمل دخل رہتا تھا۔ اندرا گاندھی کے دور میں ویلی مائیکل کا دہلی آنا جانا بھی لگا رہتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ کچے تیل کا قرار کرانے میں اس نے اہم کردار نبھایا تھا، نیز ہندوستان میں برٹش سفارت خانے کے کئی بھیدیوں سے بھی اس کا خاصہ ربط ضبط تھا۔
متنازع آرمس ڈیلر کرسچین جیمس مائیکل 3600 کروڑ روپیے کے اگستا ویسٹ لینڈ چاپرگیٹ اسکینڈل میں زیر حراست ہے۔ اس شخص کا “گاندھی” سے ایک پرانا رشتہ ہے۔موقر صحافی راجو سنتھانم کی حال ہی شائع ہوئی ایک نئی کتاب ‘د ی ان ٹولڈ اسٹوری آف کرسچین مائیکل اینڈ اگستا ویسٹ لینڈ’ میں اس موضوع پر کافی معلومات مہیا کرائی گئی ہیں۔ رولی بکس کے ذریعے شائع مذکورہ بالا کتاب کے مصنف راجو سنتھانم موقر انگریزی اخبار ‘د اسٹیٹسمین’ اور ٹی وی چینل زی نیوز میں بطور تحقیقاتی رپورٹر کام کر چکے ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے بے حد پیچدہ معاملے کا ہر پہلو سے جائزہ لیتے ہوئے اسے واضح کر دیا ہے کہ کیسے یہ معاملہ “بوفورس” معاملے سے میل کھاتا ہے۔ اس معاملے کو لے کر کی گئی اپنی تحقیق میں سنتھانم نے مائیکل کے والد وافگینگ میکس رچرڈ مائیکل المعروف بہ ویلی مائیکل کے بارے میں بھی تفصیلی معلومات مہیا کرائی ہے۔ یہ ایک پر اسرار شخص تھا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے 1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کی پیشگوئی کر دی تھی۔
مائیکل سینیئر اس وقت لندن میں تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اسے کسی طرح اس کی خبر لگ گئی تھی کہ خالصتانی تحریک سے جڑے لوگوں نے اندرا گاندھی کے کسی بہت قریبی شخص کو ان کے قتل کے لیے خرید لیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تب ویلی مائیکل نے اندرا گاندھی کے معتمد خاص معاون آنجہانی آر کے دھون کو اس بابت اطلاع بھیج کر آگاہ کیا تھا کہ اندرا گاندھی کا قتل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے دو ہفتے بعد ہی مسز اندرا گاندھی کا بہیمانہ قتل ان کے باڈی گارڈس نے کر دیا۔راجیو گاندھی نے اس قتل کی تفتیش کے احکامات جاری کیے، اور گہرائی سے کی گئی جانچ میں وہ خط سامنے آ گیا۔ اس سے شاید سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں آر کے دھون کو چار سال تک کتے کے دڑبے میں رکھا گیا اور جانچ کمیشن نے کیوں دھون کا رول بھی اس معاملے میں مشکوک مانا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن نژاد ویلی مائیکل جرمنی سے بھاگ کر لندن پہنچ گیا، جہاں اسے برٹش انٹیلیجینس کے اعلیٰ ترین عہدے داران کا اعتماد حاصل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے سعودی عرب اور لیبیا کے دفاعی معاملات تک رسائی حاصل کر لی تھی. یہ دونوں ایسے ممالک تھے، مغربی حلقے جن کے قریب جانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ ہتھیاروں کے سودے کرانا، دو ریاستوں کے رشتوں میں ان کی سرحدوں کو متنازعہ بنانا، ڈپلومیسی اور انٹیلیجینس میں اس کا عمل دخل رہتا تھا۔ اندرا گاندھی کے دور میں ویلی مائیکل کا دہلی آنا جانا بھی لگا رہتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ کچے تیل کا قرار کرانے میں اس نے اہم کردار نبھایا تھا، نیز ہندوستان میں برٹش سفارت خانے کے کئی بھیدیوں سے بھی اس کا خاصہ ربط ضبط تھا۔
لندن میں واقع انڈین ہائی کمیشن سے بھی ویلی مائیکل کے قریبی تعلقات تھے۔ اس کے وسیع روابط اور کارکردگی دیکھتے ہوئے بین الاقوامی سیاست پر مسلسل اس کی صلاح اور مختلف معاملات میں اس کی مدد لی جاتی تھی۔ سنتھانم کے مطابق ویلی سے کہا گیا تھا کہ انگلینڈ میں چل رہے خالصتانی تحریک کی سرگرمیوں اور خصوصاً اس کے لیڈر بیر سنگھ پرمار پر نظر رکھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی نے برٹش سرکار سے کہا تھا کہ وہ ویلی مائیکل کو ہندوستان بھیج دے۔ سنتھانم کے مطابق “ہندوستان پہنچنے پر تحقیقاتی افسر کے کے پال (سابق گورنر اور بیوروکریٹ اومیتا پال کے شوہر) نے اس سے پوچھ تاچھ کی۔ وافگینگ نے بعد میں پال کی تعریف کرتے ہوئے انہیں ایک بہترین انسان قرار دیا۔ اس معاملے میں ہوئی غلطیاں اس کی نظر میں تھیں۔ خفیہ محکمے کی ناکامی نے حفاظتی نظام کو ناکام کیا تھا، یہ بھی اس کی نظر میں تھا۔”
لمبے قد کا جاذب نظر ویلی مائیکل کو خداداد خود اعتمادی ودیعت تھی۔ اس سے اعلیٰ ترین انگلش سوسائٹی میں اس کا عمل دخل بہت آسان ہو گیا تھا۔ ویلی کی بیوی (کرشچین مائیکل کی والدہ) بھی اپنے شوہر کی طرح بہت خوبصورت تھیں اور دونوں کا جوڑا بہت پرکشش نظر آتا تھا۔ لیکن سنتھانم نے ذکر کیا ہے کہ کئی بار ویلی مائیکل اپنی بیوی سے بہت ناراض ہو جاتا تھا۔ اس کی کچھ باتوں سے وہ چڑھ جاتا اور غصے میں چڑھ دوڑتا۔ دونوں کے بیچ خاصہ جھگڑا ہوتا، جس میں کئی بار کرشچین مائیکل کو بیچ بچاو کے دوران ہاتھ بھی چلانے پڑ جاتے تھے۔
پاٹ دار آواز اور پرکشش شخصیت کی بدولت عورتیں فطری طور پر ویلی کی طرف مائل ہو جاتیں۔ اس سے وہ کئی بار الجنھوں میں بھی پھنس جاتا۔ سنتھانم نے بتایا ہے کہ لندن کی معروف سماجی شخصیت، بے حد حسین اینی میکس میولر کے ساتھ تو ویلی کا کھلا معاشقہ تھا۔ اسی معاشقے کے چلتے ویلی نے اس ٹائپنگ پول میں شرکت کی تھی، جس سے ہاوسیز آف پارلیمنٹ کے ممبرس جڑے ہوئے تھے۔ یہ لیڈی ٹائپسٹ برٹس وزراء کے خفیہ دستاویزات ٹائپ کرتی تھی اور فطری طور پر معلومات حاصل کرنے کا بہت اچھا ذریعہ تھی۔
راجیو گاندھی کے ساتھ ویلی کی قربت کے چلتے ہی ویسٹ لینڈ 1986 میں ایک ایسا قرار کرنے میں کامیاب ہو گئی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم نے اس کی مخالفت کی تھی۔ خفیہ دستاویزات کی بنیاد پر سنتھانم نے دعویٰ کیا ہے کہ راجیو کو اس کے لیے راضی کرنے میں اس وقت کی برٹش پریمیئر مارگریٹ تھیچر کا بھی رول تھا۔ سنتھانم نے اپنی کتاب میں ایک پیغام پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “چنمئے گھریکن (وزیر اعظم راجیو گاندھی کے سکریٹری) نے جب برٹش پرائم منسٹر کے آفس کو مطلع کیا کہ ڈیل ہو گئی ہے، تو اس میں ایک مخصوص سطر بھی لکھی تھی – “یہ ان کی خاطر کیا گیا ہے۔”
دسمبر 2018 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے پالی (راجستھان) میں ایک جلسے کو خطاب کرتے ہوئے کرشچین مائیکل کی گرفتاری کو ایک ‘رازدار’ کی گرفتاری بتایا تھا۔ انہوں نے تب کہا تھا کہ ” یو پی اے کے دور اقتدار میں ایک VVIP ہیلی کاپٹر گھوٹالہ ہوا تھا۔ ہماری سرکار آنے کے بعد اس کی جانچ کرائی گئی اور دبئی کا ایک شخص اس میں (مبینہ طور پر) خاطی پایا گیا ہے۔ یہ رازدار اب سارے بھید کھول دے گا۔”
(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )
Categories: فکر و نظر