این آر سی سے باہر رہ جانے والوں کی اکثریت مسلمان ہے۔ ہندو بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔ چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے ان ہندوؤں کو بچانے کا ایک حل تلاش کر لیا۔ جو مسلمان ہیں انھیں بی جے پی “گھس پیٹھیا” کہتی ہے اور جو ہندو ہیں انہیں “شررنارتھی” یعنی رفیوجی۔ گھس پیٹھیوں کو پارٹی ملک بدر کرنا چاہتی ہے جبکہ شررنارتھیوں کو شہریت سے نوازنا چاہتی ہے۔ اس کام کے لئے مرکزی حکومت نے 2016 میں ایک بل پیش کیا اور 2018 میں اسے لوک سبھا سے پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی۔
وزارت داخلہ نے 7 جون کو ایک نیا آرڈر جاری کیا ہے جس کے تحت آسام کے وہ 40لاکھ باشندے جنہیں غیر ملکی قرار دے دیا گیا ہے اپیل دائر کر سکیں گے۔ اپیل کا حق انھیں پہلے بھی تھا۔ نئے آرڈر میں اس کے طریقۂ کار اور اس عمل کو جلد مکمّل کرنے پر زور ہے۔ یہ آرڈر ان لوگوں کے لئے ہے جن کا نام این آر سی یعنی نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز میں شامل نہیں ہے۔ این آر سی 1951 کی مردم شماری کے بعد تیار ہوا تھا جس میں اُس وقت آسام میں موجود تمام باشندوں کا نام درج ہے۔ اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی تھی کیونکہ تقسیم ہند کے بعد آسام کے کچھ حصّے مشرقی پاکستان میں چلے گئے تھے۔
2013 میں سپریم کورٹ کی نگرانی میں اس رجسٹر میں نئے نام جوڑنے کا کام شروع ہوا کیونکہ یہ بات سامنے آئی کہ1971 میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد سے لے کر اب تک بہت سارے لوگ ہندوستان میں در آئے ہیں اور ہندوستان بھرمیں، خاص کر سرحدی ریاست آسام اور بنگال میں، پھیل گئے۔ آسام میں یہ ایک بڑا سیاسی مدعا بنا۔ اس نام پر وہاں 1979 سے 1985کے بیچ طلبہ تحریک بھی چلی جو مرکزی حکومت اور آل آسام سٹوڈنٹس یونین کے بیچ ایک معاہدہ جو “آسام اکارڈ” کے نام سے موسوم ہے کے ساتھ ختم ہوئی۔
بہرحال این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کا کام 2013 سے 2018 تک چلا اور صرف ان لوگوں کا نام اس میں شامل کیا گیا جو یہ ثبوت پیش کر سکیں کہ 24 مارچ 1971 تک وہ آسام یا ہندوستان کے کسی بھی حصے میں موجود تھے۔ پچھلے سال جولائی میں این آر سی کا فائنل ڈرافٹ سامنے آیا تو ایک ہنگامہ ہو گیا جو آج تک جاری ہے کیونکہ 40 لاکھ لوگ اپنے ہندوستانی ہونے کا ثبوت فراہم کرنے سے قاصر رہے۔ ایسے “غیر ملکیوں” کے لئے آسام میں چھ ڈیٹینشن کیمپ بنائے گئے ہیں جہاں سے انھیں ملک بدر کیا جائے گا۔
جن لوگوں کا نام این آر سی میں آنے سےرہ گیا ہے انھیں اپنے مقدمے کی پیروی کرنے کے لئے آسام حکومت نے “فارنرس ٹریبونلس” قائم کیا ہے جن کی تعداد ایک سو ہے اور جنہیں اب بڑھا کر ایک ہزار کرنے کی تجویز ہے تاکہ ان کی قسمت کا فیصلہ جلد از جلد کیا جا سکے۔ سپریم کورٹ نے 31 جولائی کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔ یعنی آئندہ دو مہینے سے بھی کم عرصے میں این آر سی کی حتمی فہرست شائع ہو جانی ہے۔ وزارت داخلہ کا تازہ ترین آرڈر اسی ڈیڈ لائن کو سامنے رکھ کر جاری کیا گیا ہے۔
اس آرڈر کے ساتھ ہی اس سے جڑی ایک خبر اور آئی ہے کہ گوہاٹی ہائی کورٹ نے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر محمّد ثنااللہ جنہیں گزشتہ ماہ غیر ملکی قرار دے کر ڈیٹینشن کیمپ بھیج دیا گیا تھا کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔ ثنااللہ کا کیس این آر سی کے گرد ہو رہی کارروائیوں اور سیاست کی سنگینی کا پتہ دیتی ہیں۔ اس سے پہلے آسام کی وزیر اعلیٰ رہ چکیں انورہ تیمور “غیر ملکیوں” کی فہرست میں شامل ہو چکی ہیں اور سابق صدر جمہوریہ فخرالدین علی احمد کے رشتہ دار بھی۔
ثنااللہ جو30 سال تک فوج میں نوکری کرتے رہے، کارگل جنگ میں حصّہ لیا اور صدر جمہوریہ سے اپنی کارگردگی کے لئے سرٹیفکیٹ پایا 2017 میں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد اس وقت آسام بارڈر پولیس میں سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کے خلاف 2008 سے انکوائری چل رہی تھی۔ ان کے بارے میں شبہ تھا کے وہ سابق مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی گرفتاری جب سرخیوں میں آئی تو جس افسر نے ان سے پوچھ گچھ کی تھی اس نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ اس نے جس ثنااللہ سے بات کی تھی یہ وہ نہیں ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تب بھی گرفتاری کا وقت معنی خیز ہے۔ 23مئی کو جب انھیں حراست میں لیا گیا تو الیکشن کا نتیجہ سامنے آرہا تھا۔
ثنااللہ اور انورہ تیمور تو چند بڑے نام ہیں جو سرخیوں میں آجاتے ہیں مگر اکثریت غریب اور کم پڑھے لکھے لوگوں کی ہے جن کے لئے قانونی پیچیدگیوں کو سمجھنا اور پھر اپنے مقدمے کی پیروی کرنا لوہے کے چنے چبانا جیسا ہے۔ اوپر سے سرکاری دفتروں اور پولیس ڈیپارٹمنٹ میں پھیلا کرپشن کسی غریب کا استحصال کس طرح کر رہا ہوگا سمجھنا مشکل نہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ آسام اور مرکز میں ایک ایسی پارٹی برسر اقتدار ہے جو ملکی سلامتی کا ہوّا کھڑا کرنے اور مذہبی منافرت پھیلانے میں مہارت رکھتی ہے۔
این آر سی سے باہر رہ جانے والوں کی اکثریت مسلمان ہے۔ مگر ہندو بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔ چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے ان ہندوؤں کو بچانے کا ایک حل تلاش کر لیا۔ جو مسلمان ہیں انھیں بی جے پی “گھس پیٹھیا” کہتی ہے اور جو ہندو ہیں انہیں “شررنارتھی” یعنی رفیوجی۔ گھس پیٹھیوں کو پارٹی ملک بدر کرنا چاہتی ہے جبکہ شررنارتھیوں کو شہریت سے نوازنا چاہتی ہے۔ اس کام کے لئے مرکزی حکومت نے 2016 میں ایک بل پیش کیا اور 2018 میں اسے لوک سبھا سے پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی۔
اس بل کے ذریعہ 1955 کے سیٹزنشپ ایکٹ یعنی شہریت کے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بودھوں، جینیوں، پارسیوں اور عیسائیوں کو شہریت دینے کی تجویز ہے۔ مسلمانوں کو اس سے محروم رکھا گیا۔ آسام اور شمال مشرق میں اس بل کے خلاف زبردست احتجاج ہوا یہاں تک کہ بی جے پی کی حلیف پارٹی آسام گنا پریشد این ڈی اے سے الگ ہو گئی۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر یہ بل قانون بن گیا تو بنگلہ دیش کے ہندو آسام کی تہذیب و ثقافت کو برباد کر دیں گے۔ دیگر اپوزیشن پارٹیاں بھی اس کی سخت مخالف تھیں۔
چونکہ راجیہ سبھا میں بی جے پی کے پاس اکثریت نہیں ہے اس لئے یہ بل ایوان بالا سے پاس نہیں ہو سکا۔ اب اسے نئی لوک سبھا سے دوبارہ پاس کرایا جائے گا جو بی جے پی کی لئے مشکل نہیں۔ امت شاہ نے وزارت داخلہ کا چارج لیتے ہی اس بارے میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: “پہلے سیٹزنشپ امنڈمنٹ بل آئے گا۔ تمام شررنارتھیوں کو شہریت دی جائے گی جس سے ان کا نام این آر سی میں چھوٹے ہوئے لوگوں کی فہرست سے نکل جائے گا۔ اس کے بعد این آر سی پورے ملک میں نافذ کیا جائے گا۔”
انہوں نے زور دے کر کہا کہ “این آر سی صرف بنگال کے لئے نہیں ہے بلکہ پورے ملک کے لئے ہے۔ بنگال چونکہ سرحدی ریاست ہے اس لئے اس کا معاملہ زیادہ سنگین ہے مگر یہ پورے ملک کے لئے ہے کیونکہ گھس پیٹھئے پورے ملک کا مسئلہ ہیں۔” غور طلب ہے کہ بی جے پی نے ایسے ہی متنازعہ اور فرقہ پرست مسئلوں کو اٹھا کر آسام میں اقتدار حاصل کیا ہے۔ اب اس کی نظر بنگال پر ہے۔ آنے والے وقتوں میں بنگال اور پورے ملک میں کس قسم کی سیاست ہونے والی ہے اس کا اندازہ امت شاہ کے بیان سے ہو رہا ہے۔
این آر سی سے باہر رہ جانے والوں کو مذہب کے نام پر دو خانوں میں بانٹ کر اور انھیں پورے ملک کا مسئلہ بنا کر بی جے پی نے 2024 کے الیکشن کا ایجنڈا ابھی سے طئے کر لیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کی اس نئی سیاسی چال کا کیا توڑ کرتی ہیں اور مسلمان جنہیں نریندر مودی اور امت شاہ کی جوڑی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے ایک بار پھر سے بلی کا بکرا بنانے کی تیاری میں ہے کیا حکمت عملی اپناتے ہیں۔
Categories: فکر و نظر