جموں و کشمیر کا اپنا آئین ہے اور مرکزی حکومت جموں و کشمیر کے آئین میں ترمیم کے بغیر ریاست میں حدبندی نہیں کر سکتی اوریہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ کشمیر کی کسی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہ ہو۔وہیں لوگوں کا ماننا ہے کہ ، بی جے پی اسمبلی انتخابات سے قبل اس خطے میں اسمبلی حلقوں میں اضافہ کرکے اقتدار میں آنا چاہتی ہے ۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے جموں و کشمیر میں سکیورٹی صورتحال کا جائرہ لینے کے لیے4 جون کو ایک میٹنگ طلب کی تھی اس میٹنگ میں یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ ریاست میں خاص طور جموں اور لداخ میں اسمبلی نشستوں کو بڑھانے کے لیے حدبندی کی ضرورت ہے۔اگرچہ مرکزی حکومت نے سرکاری سطح پر اسمبلی نشستوں کی تعداد بڑھانے کی تصدیق نہیں کی لیکن اس میٹنگ کے بعد سے ہی ریاست میں حد بندی بحث و مباحثہ کا موضوع بن چکا ہے۔ان چہ مگوئیوں کے درمیان 12 جون کو ریاستی گورنر ستیہ پال ملک نے سرینگر میں ایک پریس کانفرس کے دوران واضح کیا کہ اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ریاست میں اسمبلی انتخابات کرانے کا فیصلہ الیکشن کمیشن اور وزارت داخلہ کو کرنا ہے۔
دریں اثنا ریاستی بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے حدبندی کا خیرمقدم کیا ، ان کی دلیل تھی کہ جموں اور لداخ خطے کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے ایسے میں حدبندی کا مقصد جموں کشمیر اور لداخ کی یکساں ترقی کو یقینی بنانا ہے۔کشمیر یونٹ کے بی جے پی ترجمان الطاف ٹھاکر نے اپنے ایک میڈیا بیان میں کہا :’جموں کے ساتھ ہو رہے امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے حدبندی لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مقابلے جموں میں ووٹرز کی تعداد زیادہ ہے اور اگر جموں کی عوام انصاف کا مطالبہ کر رہی ہے تو انہیں انصاف ملنا چاہیے’۔ وہیں کشمیر کی علاقائی جماعتیں بی جے پی کے اس حربے کو غیر آئینی قرار دے رہی ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کا ماننا ہے کہ ریاست میں حدبندی کرکے بی جے پی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتی ہے۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنے ٹویٹ میں کہا ، ‘2026 تک پورے ملک میں حدبندی پر روک ہے اور اس کے باوجود کچھ ٹی وی چینل اسے فروخت کرنا چاہتی ہیں’۔ان کا کہنا تھا،’جب پورے ملک میں حدبندی ہوگی، اس وقت بی جے پی کو جموں و کشمیر میں اس کا اطلاق کرنے پر خیر مقدم کیا جائے گا لیکن عوامی مینڈیٹ کے بغیر اس کا فیصلہ کرنے کے لیے نیشنل کانفرنس سخت مخالفت کرے گی’۔
It’s rather surprising that the BJP, which talks about bringing J&K at par with other states by removing 370 & 35-A now wants to treat J&K differently from other states in this one respect.
— Omar Abdullah (@OmarAbdullah) June 4, 2019
سی پی آئی ایم کے سینئر رہنما محمد یوسف تاریگامی نے کہا،’ بی جے پی کے پاس روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کا کوئی حل نہیں اسی وجہ سے جذباتی کیفیت پیدا کر کے لوگوں کے اندر نفرت پیدا کرنا چاہتی ہے جس سے ووٹ تو مل سکتے ہیں لیکن نہ ملک کا بچاؤ ہو سکتا ہے اور نہ ریاستی عوام کا بھلا ہو سکتا ہے’۔
حد بندی کیا ہے اور اس کی تاریخ پر ایک نظر
حدبندی کا مقصد انتخابی حلقوں میں ووٹرز کی تعداد اور اس کے حدود کومتعین کرنا ہوتا ہے اس کے تحت از سر نو مردم شماری کی جاتی ہے۔اس سے دستور ہند کی دفعہ 82 کے تحت انتخابی حلقوں کی جو حد بندی کی گئی ہے اس میں میں ردو بدل ہو سکتی ہے۔تاہم اس کے لیے ایک کمیشن قائم کیا جا تا ہے سپریم کورٹ کے جج یا سابق جج کو اس کمیشن کا چئیرمین مقرر کیا جاتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور ریاست کے الیکشن کمشنر بھی اس کمیشن کے رُکن ہوتے ہیں اس کے علاوہ ریاست کے دو اراکین پارلیامان اور ریاست کے پانچ اراکین اسمبلی کو ایسوس ایٹ ممبر کے طور پر منتخب کیا جاتا ہے۔
کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق ہونے کے بعد شیخ محمد عبداللہ کی سربراہی والی حکومت نے جموں و کشمیر میں اسمبلی نشستوں کا تعین عمل میں لانے کے لیے 11 جولائی 1951 میں 5 رُکنی ڈی لیمٹیشن کمیٹی تشکیل دی۔کمیٹی کی تجویز کے بعد ہر ایک اسمبلی حلقہ کو چالیس ہزار ووٹرز پر مشتمل رکھا گیا اور اس طرح سے پہلی حدبندی کے مطابق جموں و کشمیر کے لیے 75 سیٹیں قائم کی گئیں جن میں سے کشمیر میں 43، جموں میں 30 اور لداخ کے لیے 2 سیٹیں مخصوص کی گئی۔ریاست میں آخری بار گورنر جگموہن نے 1993 میں حدبندی کرائی تھی جس کے بعد ریاست میں اسمبلی حلقوں کی تعداد 87 ہو گئی، اس کے تحت جموں میں 37، کشمیر میں 46 اور لداخ میں چار ۔
2002 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے ریاستی عوامی نمائندگی قانون 1957 کی (سیکشن 3) میں ترمیم کر کے 2026 تک حدبندی پر روک لگا دی ہے۔2008 میں پورے ملک میں نئی حدبندی کی گئی، تاہم جموں و کشمیر کو اس سے الگ رکھاگیا۔2005 میں جب غلام نبی آزاد ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے انہوں نے جغرافیائی لحاظ سے منقسم ریاست کے تینوں خطوں میں اسمبلی نشستوں میں25 فیصد کا اضافہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا لیکن اسمبلی میں پی ڈی پی اور کانگریس کو دو تہائی اکثریت نہیں مل سکی اس لیے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ ہندو اکثریت خطہ جموں کی سیاسی جماعتوں نے حدبندی میں ردو بدل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔2010 میں پینتھرس پارٹی کے بھیم سنگھ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ نے ان کی عرضی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اسمبلی حلقوں کی حدبندی کا معاملہ انتظامی نوعیت کا ہے اور اس میں عدالتوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔اننت ناگ سے نومنتخب رُکن پارلیامان ریٹائرڈ جسٹس حسین مسعودی نئی حد بندی کے تعلق سے کہتے ہیں کہ جب تک نئی مردم شماری نہیں کی جاتی ہے تب تک حد بندی پر روک لگی ہے، اور اس کا اطلاق جموں و کشمیر سمیت ملک کی تمام ریاستوں پر ہوتاہے۔قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر کا اپنا آئین ہے اور مرکزی حکومت جموں و کشمیر کے آئین میں ترمیم کے بغیر ریاست میں حدبندی نہیں کر سکتی اور جب تک کشمیر کی کسی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہ ہو۔
اس حوالے سے سابق آئی اے ایس اور جموں و کشمیر پیپلز موومنٹ کے سربراہ ڈاکٹر شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے جو بیان آیا ہے اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم امید کرتے ہیں بی جے پی ریاست میں ایسا کوئی کام نہیں کرے گی جو یہاں کے آئین کے خلاف ہو۔ حدبندی سے پیدا ہونے والے صورتحال کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ریاست میں حدبندی آئین کی خلاف ورزی ہے اور غیر قانونی عمل ہے اور یہ عمل یہاں کے عوام کے خلاف ہوگا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔سیاسی ماہر و وکیل محمد حفیظ لون مقامی کا کہنا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے آئین کی دفعہ47 کے تحت انتخابی حلقوں کی حدبندی کرنے کا حق دیتی ہے اور اس دفعہ میں ترمیم کر کے ہی حدبندی کی جا سکتی ہے جو گورنر کے اختیار میں نہیں ہے۔
ریاست کے تینوں خطوں کی آبادی پر نظر ڈالی جائے تو خطہ جموں میں سب سے زیادہ آبادی ہے، کشمیر میں 56 فیصد آبادی کشمیر میں ہے جو جموں 42( فیصد) کے مقابلے زیادہ ہے۔ جبکہ لداخ میں صرف 3 فیصد آبادی ہے۔ رقبہ سے لحاظ سے لداخ (55 فیصد) پہلے نمبر پر ہے، جموں 30 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر جبکہ کشمیر کا رقبہ صرف 15 فیصد ہے۔کشمیر کے ایک صحافی محمد امین مسعودی نے کہا کہ چونکہ رقبے کے لحاظ سے خطہ جموں بڑا ہے اور بی جے پی اسمبلی انتخابات سے قبل اس خطے میں اسمبلی نشستوں میں اضافہ کرکے اقتدار میں آنا چاہتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ریاست میں 30 فیصد آبادی ہندوؤں کی ہے اور اس کے برعکس 70 فیصد مسلمان ہیں اور اگر بی جے پی اس میں کامیاب ہوئی تو 30 فیصد ہندو 70 فیصد مسلمانوں پر راج کریں گے جس کے نتائج سنگین ہوں گے اور ریاست فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہو سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے :’چونکہ پارلیامنٹ جموں و کشمیر کے لیے کوئی قانون نہیں بنا سکتی ہے اس کا حق صرف ریاستی حکومت کے پاس ہے، بی جے پی حدبندی کا نیا حربہ اختیار کر کے جموں میں اسمبلی نشستوں میں اضافہ کرنا چاہتی ہے تاکہ انہیں دفعہ 370 اور 35 اے کو ہٹانے کے لیے راہ ہموار ہو سکیں’۔ واضح رہے ہندوستانی آئین کی دفعہ 370 جموں و کشمیر کوخصوصی درجہ دیتا ہے ۔ اس دفعہ کے تحت دفاعی امور، خارجی امور اور مواصلات کو چھوڑ کر ریاستی حکومت کی منظوری کے بغیر کسی ہندوستانی قانون کا نفاذ جموں و کشمیر میں نہیں کیا جا سکتا ہے۔دفعہ 35 اے بھی آئینی دفعہ 370 کا حصہ ہے اس دفعہ کے مطابق غیر ریاستی باشندے جموں و کشمیر کی شہریت حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی جائیداد کا مالک بن سکتے ہیں۔
(محمد رضوان سرینگر میں مقیم آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر