لکھنؤ ضلع انتظامیہ نے مسلم مذہبی رہنماؤں کے مشورے پر طے کیا ہے کہ امام باڑے میں سیاح ’مہذب‘لباس پہنکر ہی داخل ہوں گے۔
نئی دہلی: اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں موجود امام باڑے میں سیاح اب چھوٹے کپڑے یا اسکرٹ پہنکر داخل نہیں ہو سکیںگے۔ لکھنؤ ضلع انتظامیہ نے مسلم مذہبی رہنماؤں کے مشورے پر طے کیا ہے کہ امام باڑے میں سیاح ‘ مہذب ‘ لباس پہنکر ہی داخل ہوں گے۔
آوٹ لک کے مطابق، حسین آباد ٹرسٹ کے نامزد صدر اور کلکٹر کوشل راج شرما نے کہا، اس کی نگرانی کی ذمہ داری سکیورٹی گارڈ کو سونپی گئی ہے اور سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگوائے جائیںگے۔ ضلع انتظامیہ کے اس حکم کے بعد گارڈ نے کئی خواتین کو امام باڑے میں داخل ہونے سے روک دیا جس کو لےکر کئی لوگوں نے ناراضگی بھی ظاہر کی ہے۔
لکھنؤ کے کلکٹریٹ آڈیٹوریم میں حسین آباد ٹرسٹ کے یادگار کے تحفظ کے لیے تجزیاتی میٹنگ میں ڈی ایم کوشل راج شرما نے کہا کہ چھوٹے اور بڑے امام باڑے میں لوگوں کے ‘ غیرمہذب ‘ لباس پہنکر آنے کی شکایتں مل رہی تھیں۔
Lucknow: Following a guideline by DM Kaushal Raj Sharma, visitors at Bara Imambara are now being asked to come in 'decent clothes',those in 'indecent clothes' are being stopped at gates. Guard says "We've put up a board. Those dressed indecently are being stopped&made to go back" pic.twitter.com/rTCp8IGx3f
— ANI UP (@ANINewsUP) July 1, 2019
ایسے میں طے کیا گیا ہے کہ امام باڑوں میں سیاح اب ‘ مہذب ‘ لباس پہنکر ہی داخل ہو سکیںگے۔ اس کی نگرانی کی ذمہ گارڈ کو سونپی جائےگی اور اس میں لاپروائی پر ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔غور طلب ہے کہ، کچھ دن پہلے بڑا امام باڑہ احاطہ میں ہونے والے فوٹو شوٹ اور فلموں کی شوٹنگ کو ‘ ناپاک ‘ بتاتے ہوئے سید محمد حیدر نے وزیر اعظم، یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، وزیرِ ثقافت پرہلاد پٹیل، محکمہ برائے آثارقدیمہ سروے کے افسران، ضلع انتظامیہ اور پولیس سے فوراً مداخلت کرنے کی مانگ کی تھی۔
سید محمد حیدر کا کہنا تھا، ‘ احاطے میں غیرمہذب کپڑے، فوٹو شوٹ اور فحش حرکتوں کی وجہ سے شیعہ کمیونٹی اور وراثت سے محبت رکھنے والے لوگوں میں عدم اطمینان پھیل رہا تھا۔ ساتھ ہی خط میں امام باڑے میں آصفی مسجد کے ہونے کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔اس سے پہلے 2014 میں بھی سر ڈھککر ہی خواتین کو بڑے اور چھوٹے امام باڑے میں داخل ہونے کا اصول نافذ کیا گیا تھا۔
اس کے بعد 2015 میں شیعہ کمیونٹی کے لمبے احتجاج کے بعد افسروں نے بڑے اور چھوٹے امام باڑے کے دروازوں میں تالا ڈالنے، ایک لباس کوڈ وغیرہ طے کرنے کے اصول بنائے تھے۔حالانکہ، یہ کچھ دنوں تک تو چلے لیکن بعد میں ان کو بھلا دیا گیا۔
ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، شرما نے کہا، ‘ مسجد، مندر اور گرودوارے میں داخل ہونے والے ہرایک شخص سے شائستگی برتنے کی امید کی جاتی ہے اور یہی امید بڑےامام باڑے میں آنے والے سیاحوں سے کی جاتی ہے۔ امام باڑے کی مذہبی قدروں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے اور اس میں توازن بنانے کی ضرورت ہے۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ یہاں پر کوئی لباس کوڈ نہیں ہے لیکن شارٹس یا اسکرٹس پہننے والی کسی بھی خاتون اور مرد سیاحوں کو داخلے کی اجازت نہیں دی جائےگی۔ حالانکہ، سر ڈھکنا یا نہ ڈھکنا لوگوں کے اختیار میں ہیں کیونکہ ہم قدامت پرست اصول نافذ کرنے سیاحوں کو بھگانا نہیں چاہتے ہیں۔’
Categories: خبریں