نیتی آیوگ نے 14 جون، 2018 کو شائع ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ 2020 تک دہلی، بنگلور، چنئی اور حیدر آباد کے علاوہ 21 شہروں کا گراؤنڈ واٹر ختم ہو سکتا ہے۔
نئی دہلی: حکومت ہند کی تھنک-ٹینک اکائی نیتی آیوگ نے 14 جون، 2018 کو شائع ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ 2020 تک دہلی، بنگلور، چنئی اور حیدر آباد کے علاوہ 21 ہندوستانی شہروں کا گراؤنڈ واٹر ختم ہو سکتا ہے۔ اس اعداد و شمار کا ہندوستان میں سنگین آبی بحران والی کئی رپورٹس میں ذکر کیا گیا۔حالانکہ، اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ حقیقت میں شاید صحیح نہ ہو۔ انٹرنیشنل اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ہندوستانی بیورو کی چیف جوئنا اسلیٹر نے گزشتہ 28 جون کو اپنے ٹوئٹر پر کئی سارے ٹوئٹ کے ذریعے دعویٰ کیا کہ نیتی آیوگ کا یہ اعداد و شمار مرکزی گراؤنڈ واٹر بورڈ (سی جی ڈبلیو بی) کے ذریعے فراہم کیے گئے ضلعی سطح کے اعداد و شمار پر مبنی ہو سکتا ہے۔
نیتی آیوگ کی رپورٹ میں اعداد و شمار کے لئے ورلڈ بینک، ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ (ڈبلیوآرآئی)، ہندوستان ٹائمس اور دی ہندو کا حوالہ دیا گیا ہے۔ حالانکہ اسلیٹر کے مطابق ڈبلیوآر آئی کمیشن کے ذریعے کئے گئے دعویٰ کا ماخذ نہیں ہے، وہیں ہندوستان ٹائمس اور د ہندو نے اپنی رپورٹ میں ورلڈ بینک کا حوالہ دیا ہے۔ورلڈ بینک نے ہندوستان میں پانی پر دو اہم رپورٹس شائع کی ہیں، ایک 2005 میں اور ایک 2010 میں۔ ان میں سے کسی میں بھی 2020 تک 21 ہندوستانی شہروں میں گراؤنڈ واٹر ختم ہونے کے بارے میں اعداد و شمار نہیں ہے۔ اسلیٹر کا دعویٰ ہے کہ جب انہوں نے ورلڈ بینک سے نیتی آیوگ کی رپورٹ کے متعلق رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ان کو نہیں پتہ ہے کہ یہ معلومات کہاں سے آئی ہے۔
اس کے علاوہ جن دو اخباروں کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے ایک کی رپورٹ 2017 کی ہے اور دوسرے کی 2018 کی۔ دونوں رپورٹوں میں ورلڈ بینک کا حوالہ دیا گیا ہے، لیکن ان میں یہ نہیں لکھا ہے کہ ورلڈ بینک کی کون سی رپورٹ پر مبنی ان کے دعوے ہیں۔ صحافی کا دعویٰ ہے کہ حقیقت میں ایسی کوئی رپورٹ ہے ہی نہیں۔نیتی آیوگ سے ورلڈ بینک کی وہ رپورٹ دکھانے کے لئے کہا گیا، لیکن وہ بتانے میں نااہل رہے۔جب اسلیٹر نے نیتی آیوگ سے رابطہ کیا تو انہوں نے سینٹرل گراؤنڈ واٹر بورڈ کی طرف اشارہ کیا، جس کے بعد انہوں نے بورڈ سے رابطہ کیا۔سینٹرل گراؤنڈ واٹر بورڈ نے کہا کہ انہوں نے ایسا کوئی اعداد و شمار نہیں دیا ہے کہ 2020 تک 21 ہندوستانی شہروں کا گراؤنڈ واٹر ختم ہو سکتا ہے۔
نیتی آیوگ جس ذرائع کا حوالہ دے رہا تھا، وہ دراصل سی جی ڈبلیو بی کے ذریعے سال 2017 میں جاری کی گئی ایک رپورٹ ہے جس میں 2013 تک کا اپ ڈیٹیڈ اعداد و شمار ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں شہر پر مبنی کوئی معلومات نہیں دی گئی ہے۔ بلکہ اس میں ضلعی سطح پر اور بلاک سطح پر گراؤنڈ واٹر کی سطح کی معلومات دی گئی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جتنا پانی موجود ہے، اس سے کہیں زیادہ تیزی سے گراؤنڈ واٹر کا ناجائز استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اس رپورٹ میں 2013 کے بعد کی حالت کی کوئی معلومات نہیں ہے۔ چنئی میں پیدا ہوئی حالت اس کی مثال ہے۔
اسلیٹر اور دیگر نے کہا ہے کہ آبی بحران کو دکھانے کے لئے جھوٹے دعوے پیش کرنا صحیح طریقہ نہیں ہے۔ بھلےہی بحران کتنا بڑا ہو، لیکن اس کے متعلق کیا گیا دعویٰ صحیح ہونا چاہیے۔غلط دعویٰ کرنے کا ایک بڑا برا انجام یہ ہے کہ اس طرح کی رپورٹوں سے یہ اثر پڑ سکتا ہے کہ ہم اصل میں کہیں زیادہ پریشانی میں ہیں، جس کی وجہ سے لوگ پریشان، مایوس اور آگے کچھ کرنے سے بے اعتنائی کی حالت میں پہنچ جائیںگے۔
دوسرا، اس کا برا پہلو یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب ریاست اور مرکزی حکومت دونوں کو پانی کے مدعوں پر دھیان دینے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے، ایسے میں اگر مسئلہ کو بڑھاچڑھاکر دکھایا جاتا ہے تو شاید ہم ان حل کی طرف چلے جائیں جس کی ہمیں ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے اصل مسئلہ کی ان دیکھی ہو جائےگی۔مثال کے طور پر بی بی سی نے گزشتہ سال فروری میں ایک رپورٹ شائع کی، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ بنگلور شہر کے آس پاس کی جھیلوں کے صاف نہیں ہونے کی وجہ سے شہر کے پینے اور نہانے کا پانی ختم ہو جائےگا۔
رپورٹ شائع ہونے کے بعد، شہر میں پانی کے مستقل استعمال کی سمت میں کام کر رہے ایس وشوناتھ نے سٹیزن میٹرس نام کی ایک ویب سائٹ پر مضمون لکھا اور بتایا کہ کس طرح بی بی سی کی رپورٹ اصل مسائل سے لوگوں کا دھیان بھٹکاتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ سال 1896 میں ہیسرگھٹّا منصوبہ کے شروع ہونے کے بعد سے بنگلور کبھی بھی پانی کی فراہمی کے لئے رسمی طور پر اپنے جھیلوں اور ٹینکوں پر منحصر نہیں رہا۔
Categories: خبریں