کیرل حکومت نے ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں ریاستی مفادات کا حوالہ دیتے ہوئے جانکاری دینے سے انکار کر دیا تھا۔ کیرل ہائی کورٹ نے اس حکم کو غیراطمینان بخش اور آر ٹی آئی قانون کے اہتماموں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ریاستی حکومت کو پھٹکار لگائی ہے۔
نئی دہلی: کیرل ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ریاستی انفارمیشن کمیشن سے خود مختار رہنے اور حکومت کے دباؤ کے بغیر کام کرنے کی امید کی جاتی ہے۔ کورٹ نے یہ تبصرہ ایک سماجی کارکن اور وکیل ڈی بی بینو کی عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے کیا۔لائیو لاء کے مطابق، آر ٹی آئی کارکن نے آر ٹی آئی کے تحت ریاستی حکومت سے کچھ اعداد و شمار سے متعلق جانکاری مانگی تھی۔ اس پر ریاست کے مفادات کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت نے کہا کہ ایسی جانکاری عام نہیں کی جا سکتی ہے۔
ریاستی حکومت نے کہا تھا، ‘ ریاست کے اندرونی مفادات سے جڑے ہوئے ایسے تمام دستاویزوں یا جانکاری کو آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت کی گئی گزارش کے باوجود عام کرنے سے منع کیا جا سکتا ہے جن کو حکومت خفیہ مانتی ہے اور ان کو عام کرنے سے ریاست کے مفادات سے سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ ‘مذکورہ حکم کو غیراطمینان بخش اور آر ٹی آئی ایکٹ کے اہتماموں کی خلاف ورزی بتاتے ہوئے کورٹ نے حکومت کی اس کوشش کو عوام تک پہنچائی جا سکنے والی اطلاعات پر اصولوں کو تھوپنے کا الزام لگایا۔
کورٹ نے کہا کہ انفارمیشن آفیسر اور اپیلیٹ اتھارٹی آزاد ہوتے ہیں اور صرف آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت کام کرتے ہیں۔آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت مانگی جانے والی کسی بھی جانکاری کو دینے سے صرف تبھی منع کیا جا سکتا ہے جب عدالت نے قانون کی دفعہ 8 اور 9 کے تحت اس پر روک لگائی ہو۔
جسٹس دیون رام چندرن نے کہا، ‘ اس معاملے میں کیرل حکومت آخر کس طرح ایسا حکم دے سکتی ہے۔ خاص کر، جب آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت صاف طور پر افسروں کے عہدوں کا تعین کیا گیا ہے، جن سے خود مختار رہنے اور بغیر کسی سرکاری دباؤ کے کام کرنے کی امید کی جاتی ہے۔ ‘انہوں نے مزید کہا، ‘ یہ یقینی طور پر ایک بہت ہی خطرناک تجویز ہے اور یہ سمجھ سے پرے ہے کہ حکومت اس طرح کے حکم کو جاری کرنے کی طاقت کیسے حاصل کر سکتی ہے۔ جبکہ حکومت یہ اچھی طرح سے جانتی ہے کہ یہ قانون کے اہتماموں کی خلاف ورزی کا ایک بڑا معاملہ ہے۔ ‘
کورٹ نے یہ واضح کر دیا کہ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت درخواستوں پر غور کرتے وقت وہ حکومت کے کسی بھی حکم سے متاثر نہ ہوں اور صرف آر ٹی آئی ایکٹ کے اہتماموں پر سختی سے عمل کریں۔
Categories: خبریں