خبریں

لشکر طیبہ سے جڑے ہونے کے الزام میں بند شخص  نے رہا ہونے کے بعد کہا؛ این آئی اے کے مشورہ پر الزام قبول‌ کر لیا تھا

سال 2012 میں پانچ لوگوں کو لشکر طیبہ سے جڑے ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ 7 سال بعد اس ہفتے بامبے ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہا ہونے والے ان میں سے ایک محمد عرفان غوث نے دعویٰ کیا ہے کہ ہ وہ بےقصور تھے اور لمبی سماعت سے بچنے اور اپنی فیملی کو بگڑتے اقتصادی حالات سے بچانے کے لئے انہوں نے جرم قبول‌کر لیا تھا۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) سے جڑے ہونے کے الزام میں گرفتار کئے گئے پانچ لوگوں نے دو سال پہلے ممبئی کی ایک عدالت میں اپنا جرم قبول‌کر لیا تھا۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، سات سال جیل کی سزا کاٹنے کے بعد اس مہینے ضمانت پر رہا ہونے والے محمد عرفان غوث ان پانچ لوگوں میں سے ایک ہے۔ تلوجا جیل سے چھوٹنے کے بعد انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بےقصور تھے اور لمبی سماعت سے بچنے اور اپنی فیملی کو بگڑتے اقتصادی حالات سے بچانے کے لئے انہوں نے جرم قبول‌کر لیا تھا۔

پچھلے ہفتے غوث کو ضمانت دیتے ہوئے بامبے ہائی کورٹ نے کہا، ‘ پہلی نظر میں، اس سطح پر ہمارا خیال ہے کہ ہمارے سامنے جو ثبوت مہیا کرائے گئے ہیں، وہ اس بات کی مناسب بنیاد نہیں پیش کرتے ہیں کہ اپیل کنندہ / ملزم نمبر 4 (غوث) کے خلاف لگائے گئے الزام صحیح ہیں۔ ‘مہاراشٹر اے ٹی ایس نے غوث سمیت پانچ لوگوں کے خلاف یو اے پی اے، آئی پی سی اور آرمس ایکٹ کے تحت  چارج شیٹ داخل کیا تھا۔ 2013 میں یہ معاملہ این آئی اے کو سونپ دیا گیا تھا۔

32 سالہ غوث نے کہا، ‘ این آئی اے نے ہم سے کہا کہ بنگلور میں اسی طرح کے الزام میں کچھ ملزمین نے ایک خاص عدالت کے سامنے اپنا جرم قبول‌کر لیا اور ان کو پانچ سال جیل کی سزا ملی۔ این آئی اے نے مشورہ دیا کہ ہم جرم قبول کرنے کے بارے میں غور کریں۔ ‘انہوں نے کہا، ‘ ہم نے جرم قبول کرنے کا فیصلہ کیا اور این آئی اے سے درخواست کی کہ وہ عدالت سے ہمیں پانچ سال کی سزا دینے کی درخواست کرے کیونکہ وہ وقت ہم پہلے ہی جیل میں گزرا چکے ہیں۔ ‘

انہوں نے مزید کہا، ‘ ہمارے پاس جرم قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ ایسا اس لئے نہیں تھا کہ ہم مجرم تھے بلکہ ہمیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ ہمارا مقدمہ کب ختم ہوگا۔ ہمیں اپنی فیملی کی دیکھ بھال کرنی تھی۔ حالات بگڑتے جا رہے تھے۔ ‘این آئی اے کے لئے عدالت میں پیش ہونے والے وکیل اے ایم چملکر نے یہ کہتے ہوئے غوث کی ضمانت عرضی کی مخالفت کی تھی کہ ان کے خلاف ثبوت کے طور پر اہم دستاویز ہیں۔

استغاثہ کے مطابق، ‘ غوث اور ایک دوسرے ملزم مزمل نے ایک دوسرے کو 10 اکتوبر، 2011 اور 9 اگست، 2012 کے درمیان 214 فون کال کئے۔ اس کے ساتھ ہی مبینہ طور پر غوث نے مزمل کے ساتھ ممبئی سے ناندیڑ تک کا سفر کیا۔ ‘استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے ایک کو سعودی عرب سے پیسے ملے جس کو ایک دوسرے ملزم نے بھیجا تھا۔ ایسا الزام ہے کہ ملزم ایک ریوالور اور زندہ کارتوس کے ساتھ پکڑے گئے اور ان کی اسکیم مسلم نوجوانوں کو تشدد کے لئے اکسانے کی تھی۔

نومبر، 2017 میں پانچوں نے ٹرائل کورٹ کے سامنے جرم قبول کرنے کی درخواست کی۔ حالانکہ، عدالت نے ان کی درخواست خارج کر دی۔اس وقت غوث کی ضمانت عرضی خارج کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا تھا، ‘ معاملے کی شنوائی 8 مہینے کے اندر ہر حال میں جتنی جلدی ممکن ہو کی جائے۔’ حالانکہ، غوث نے کہا تھا، ‘ 8 مہینے میں صرف تین گواہوں کو ہی ایگزامن کیا  گیا اور معاملہ ابھی بھی اس سطح پر ہے کہ جانچ افسر کو آخری گواہ سے پوچھ تاچھ کرنی ہے۔ ‘

غوث نے کہا کہ  2012 میں گرفتار ہونے سے پہلے وہ اپنی انورٹر بیٹری کی دوکان پر کام کر رہے تھے۔ جب وہ جیل میں تھے تب ان کے والد اور بھائی  ان کی بیوی اور بیٹے کا خیال  رکھ رہے تھے۔