مرکز کی مودی حکومت نے صدر جمہوریہ کے حکم سے جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو سوموار کو ختم کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ریاست کو دو یونین ٹیریٹری ریاستوں-جموں و کشمیر اور لداخ میں بانٹ دیا گیا۔
نئی دہلی: بی جے پی کی مادری تنظیم کے ایجنڈے میں یہ شروع سے رہا ہے کہ آرٹیکل 370 کو ختم کرنا ہے۔ بی جے پی بھی اکثر اپنے منشورات میں کہتی رہی ہے اور جن سنگھ بھی یہی کہتا رہا ہے۔ ہندوستان کی تعمیر کے دوران اور اس کے فوراً بعد جتنی بھی پارٹیاں تھیں، ان میں سے کسی کا بھی ایجنڈا نہیں تھا کہ آرٹیکل 370 کو ختم کیا جائے۔
دستور ساز اسمبلی نے 17 اکتوبر 1949 کو آرٹیکل 370 کو اپنایا تھا۔ اس وقت جن سنگھ کے بانی اور بی جے پی رہنماؤں کے قابل پرستش رہنما ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی دستور ساز اسمبلی کے ممبر تھے۔ آرٹیکل 370 جب دستور ساز اسمبلی میں پاس کیا جا رہا تھا تب مکھرجی نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی۔
آرٹیکل 370 سے بار بار شیاما پرساد مکھرجی کو نام جوڑا جاتا ہے کیونکہ اسی کے خلاف مہم چلاتے ہوئے وہ سرحدی صوبے میں گئے اور اسی دوران شرینگر کی جیل میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ حالانکہ، انہوں نے مخالفت تب کی جب جموں و کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعظم شیخ عبداللہ نے اراضی اصلاح شروع کر دی تھی۔
اراضی اصلاح کے تحت غریبوں اور مظلوم طبقوں کو زمین دئے جانے سے بہت زیادہ کھیتی کی زمین والے ڈوگرا زمیندار اور کشمیری پنڈتوں کی لابی ناراض تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آرٹیکل 370 کی مخالفت کا بہانہ بناکر شیاما پرساد مکھرجی کو مخالفت کے لئے بھیجا گیا تھا۔مکھرجی، جواہر لال نہرو کے کابینہ کے ممبر بھی تھے اور انہوں نے اس کابینہ سے آرٹیکل 370 کے بجائے نہرو-لیاقت سمجھوتہ کو لےکر استعفیٰ دیا تھا۔
‘جنتِ ارضی’ کی زمین پر قبضے کے لئے آرٹیکل 370 کو ختم کیا گیا
آج جب آرٹیکل 370 کو ختم کیا گیا ہے تو اس کے پیچھے کی اصلی کہانی یہ ہے کہ کیسے اس کو ختم کرکے اپنی پسند کی حکومت قائم کی جائے۔ بہت سارے کاروباری، بڑی کمپنیاں، بڑے ہوٹل کے مالک لمبے وقت سے انتظار کر رہے تھے کہ کیسے جنتِ ارضی کی زمینوں پر قبضہ کیا جائے، کیسے جائیداد بنائی جائے اور کیسے وہاں پر دبدبہ قائم کیا جائے، اب ان کے خواب پورے ہو سکیںگے۔اس معاملے میں بہت سارے لوگوں کے مفاد جمع ہو گئے اور حکومت نے آر ایس ایس، کارپوریٹ اور بڑی کمپنیوں کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے۔
اقتصادی بحران جیسے مدعوں سے بھٹکانے کی سازش
دوسرا پہلو یہ ہے کہ حکومت کے سامنے گہرا بحران ہے اور معیشت پٹری سے اتر گئی ہے۔ بڑے اور حکومت کے بھکت کاروباری بھی پالیسیوں کی تنقید کر رہے ہیں۔ بڑے اور کامیاب صنعت کار بھی خودکشی کر رہے ہیں۔بڑے-بڑے بینکر کہہ رہے ہیں کہ ہم صبح اٹھتے ہیں اور آسمان میں دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ ہمارا بینک بچےگا یا نہیں؟ ایسے میں یہ مدعوں سے بھٹکانے کی حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے۔مودی حکومت لوگوں کو چونکانے میں ماہر ہے اور وہ ماضی میں نوٹ بندی جیسے فیصلے سے ایسا کر چکی ہے۔ بہت ساری وجہوں سے ایسا ہوا ہے جس میں آر ایس ایس کا اپنا سیاسی ایجنڈا تو شامل ہے ہی ساتھ ہی بہت سے دیگر سیاسی ایجنڈے بھی شامل ہیں۔
کشمیر کی بربادی اور حکومتیں
شروع سےہی ہندوستان کی مختلف حکومتوں کی جیسی پالیسیاں تھیں، اسی وجہ سے وہاں انتہاپسندی پیدا ہوئی جس میں کشمیری عوام کے کچھ حصے شامل رہے۔ جموں و کشمیر جب ہندوستان میں ملا تھا تب وہاں دہشت گردی نام کی چیز نہیں تھی۔جموں و کشمیر کے لوگوں نے تو قبیلائی پوشاک پہنکر آنے والے پاکستان کے گھس پیٹھیوں کے خلاف ڈوگرا مہاراجا اور ہندوستان کی فوج کے ساتھ ملکر بارامولا اور کئی دیگر علاقوں کی لڑائی لڑی تھی، جس میں زیادہ تر مسلم کمیونٹی کے لوگ شامل تھے۔
جو لوگ کہتے ہیں نہرو نے موقع نہیں دیا ورنہ ہندوستانی فوج سب فتح کر لیتی، ان لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ دراس اور کارگل کو کب آزاد کرایا گیا۔ دراس اور کارگل کو بہت بعد میں آزاد کرائے گئے تھے۔
جب اقوام متحدہ میں ہندوستان گیا تب ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن تھے اور دونوں ممالک کی فوجوں کے مکھیا انگریز تھے۔ حالانکہ، آر ایس ایس اور بی جے پی رہنماؤں کو تاریخ اور حقائق سے کوئی لینا-دینا نہیں ہے، ان کو تو صرف تاریخ کو برباد کرنے سے مطلب ہے۔
واجپائی اور منموہن کے کاموں کو آگے بڑھانے میں ناکام رہی مودی حکومت
جموں و کشمیر میں بی جے پی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی حکومت نے کچھ اچھے کام کئے اور پھر منموہن سنگھ نے اس کو آگے اور بہتر نتیجہ دیا۔ ان کاموں کو آگے بڑھاکر ایک امن اور خوشحال ماحول بنانے کے بجائے انہوں نے (مودی حکومت) الٹا راستہ اپنایا۔انہوں نے جمہوریت کے ڈھانچوں کو برباد کرنے کا کام کیا۔ پہلے تو یہ جموں و کشمیر کو تین حصوں میں بانٹنے کی بات کر رہے تھے لیکن آر ایس ایس میں بھی دو رائے آ گئی کہ اگر لداخ کی طرح جمّوں کو بھی الگ کر دیںگے تو کشمیر وادی پوری طرح سے مسلم اکثریت ہو جائےگی اور اس سے خطرہ بڑھ جائےگا۔
اس کے بعد انہوں نے کشمیر وادی میں جموں کو بھی ملانے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس سے آبادیوں کا بھی توازن بنا رہےگا اور اسمبلیوں کی تشکیل نو میں بھی آسانی رہےگی۔
غلطیوں کے تجزیہ کے بجائے اچھے کاموں کو برباد کیا
ہندوستانی یونین میں انضمام (انسٹرومینٹس آف ایکسیشن) کا آرٹیکل 7 اور 8 یہ صاف صاف بتاتا ہے کہ جموں و کشمیر کو دیگر ریاستوں کے مقابلے الگ شناخت دینے کی بات کہی گئی ہے۔اس کے بعد دلّی سمجھوتہ میں اسی بات کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ اس طرح مرکزی حکومتوں نے جموں و کشمیر کی حکومتوں سے اب تک جتنے بھی سمجھوتے کئے ان تمام روایتوں کو مودی حکومت نے 5 اگست 2019 (آرٹیکل 370 ختم) کو ایک بار میں ہی برباد کر دیا۔
جموں و کشمیر میں جو ایک جمہوری ڈھانچہ بنا تھا، اس کو مضبوط اور بہتر کرنے اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے بجائے حکومت نے تمام اچھے کاموں کو برباد کر دیا۔ جو برے کام کئے گئے تھے اور جن کی وجہ سے دہشت گردی اور انتہاپسندی پھیلی، اس کا تجزیہ نہیں کیا گیا۔ایک بہتر جمہوریت وہ ہوتی ہے جو اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرتی ہے۔
صرف نام بھر کا رہ گیا تھا آرٹیکل 370
1987 میں کانگریس کی حکومت میں انتخاب کرائے گئے تھے، میں اس کی بھی تنقید کرتا ہوں۔ اگر فرضی طریقے سے انتخاب نہیں کرائے گئے ہوتے وہاں کے لوگوں کی آواز سنی گئی ہوتی اگر وہاں واقعی ترقی پر دھیان دیا گیا ہوتا شیخ عبداللہ کو اراضی اصلاح جیسے پروگراموں کو آگے بڑھانے دیا گیا ہوتا مارچ-اپریل 1965 میں جو تبدیلی کی گئی وہ نہ کی گئی ہوتی تو حالات بہتر ہوتے۔
صدرِ ریاست (گورنر)، وزیرِاعظم کے عہدے کو ختم کر، الیکشن کمیشن کا دائرہ بڑھاکر اور سپریم کورٹ کے حق کے دائرہ کو بڑھاکر آرٹیکل 370 کو بالترتیب ختم کر دیا گیا تھا اور وہ صرف نام کے لئے بچا تھا۔نہرو، وی پی مینن، شیخ عبداللہ اور مہاراجہ ہری سنگھ کی وجہ سے جموں و کشمیر کا ہندوستان میں انضمام ہوا لیکن پھر بھی شیخ عبداللہ کو کئی معاملوں میں جھکنا پڑا۔
جموں و کشمیر میں دہلی جیسی بنا اختیارات والی حکومت بنےگی
ایک ایسا صوبہ جس کے پاس اپنی دستور ساز اسمبلی تھی اس کے وجود کو چیلنج دےکر آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کو مکمل ریاست کا بھی درجہ نہیں دیںگے۔ تاریخ کا ایسا انصاف نہیں ہو سکتا ہے۔یہ بہت ہی کج نگاہی، متضاد، غیردانشمندانہ فیصلہ ہے جو آئینی جمہوریت کو کمزور کرتا ہے کیونکہ یونین ٹیری ٹیری ریاست بناکر ایک صوبے سے آپ اس کی اسمبلی چھین رہے ہیں۔وہاں پر آپ ایک ایسی منتخب حکومت لائیںگے جس کے پاس دہلی کےاروند کیجریوال حکومت کی طرح کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ کشمیر کی موجودہ مسائل کے حل کا یہ طریقہ تو بالکل نہیں ہو سکتا ہے۔
(وشال جیسوال سے بات چیت پر مبنی)
Categories: فکر و نظر