خبریں

تمل ناڈو:  کئی اسکولوں میں بچوں کو ان کی ذات کے لحاظ سے رسٹ بینڈ پہنانے کا الزام

ایک رپورٹ کے مطابق تمل ناڈو کے کئی اسکولوں میں بچوں کی ذات بتانے کے لئے ان کے ہاتھ میں الگ الگ رنگوں کے بینڈ پہنائے جا رہے ہیں۔ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن نے ایسے اسکولوں کی پہچان  کر کے ان کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے۔

علامتی تصویر، رائٹرس

علامتی تصویر، رائٹرس

نئی دہلی: تمل ناڈو کے کئی اسکولوں میں ذات کی بنیاد پر بچوں کو رسٹ بینڈ (ہاتھ میں پہننے والا بینڈ)پہنانے کے معاملے میں ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن نے سینئر افسروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس طرح کے اسکولوں کی پہچان کر کے ان کے خلاف کارروائی کریں۔دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، 2018 بیچ کے کچھ زیرتربیت آئی اے ایس افسروں کی شکایت پر جاری سرکلر میں ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن نے کہا،’تمام اہم تعلیمی افسروں سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ ضلع میں اس طرح کے اسکولوں کی پہچان کر کے مناسب قدم اٹھائیں، جہاں بچوں کی ذات کو لےکر اس طرح کا امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسکول کے ہیڈ ماسٹر کو مناسب ہدایت دی جائیں اور فوراً اس طرح کی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے قدم اٹھائے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی اس سلوک کے لئے ذمہ دار لوگوں کے خلاف ضروری کارروائی کی جائے۔ ‘

اس کے ساتھ ہی اس معاملے میں کیے گئے اقدام پر ایک رپورٹ بھی بھیجنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ 2018 بیچ کے آئی اے ایس افسروں کا کہنا تھا کہ تمل ناڈو کے کچھ اسکولوں میں بچوں کو ان کی ذات کی بنیاد پر الگ الگ رنگوں کے رسٹ بینڈ باندھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔بچوں کی ذات دکھانے کے لئے لال، پیلے، ہرے اور کیسریا کئی رنگوں میں رسٹ بینڈ ہیں، جس سے پتہ لگایا جاتا ہے کہ یہ بچے مبینہ طور پرنچلی ذات کے ہیں یا اعلیٰ ذات کے ۔ اس کے علاوہ ذات دکھانے کے لئے بچوں کو انگوٹھی پہنائی جا رہی ہیں اور پیشانی پر تلک لگوایا جا رہا ہے۔2018 بیچ کے تمل ناڈو کیڈر کے ایک آئی اے ایس افسر نے بتایا کہ اس سال کے آغاز میں مسوری میں لال بہادر شاستری نیشنل اکیڈمی آف ایڈمنسٹریشن میں چرچہ کے دوران یہ مدعا سامنے آیا اور ان کے بیچ کے 180 افسروں نے اس مدعے کو اٹھایا۔

افسر نے کہا،’اس سال جون میں اس معاملے کوانتظامیہ کی جانکاری میں لایا گیا۔ ‘مدورے میں ‘ایونڈینس’ادارہ کے سماجی کارکن کاتھر نے کہا کہ ریاست کے کئی حصوں میں اس طرح کی سرگرمیاں جاری ہیں۔انہوں نے کہا، ‘ان اسکولوں میں اس طرح کا امتیازی سلوک آنگن باڑی سے شروع ہوا۔ کچھ اسکولوں کی آنگن باڑی میں غیر دلت بچوں کو گھر سے الگ برتن لانے کی اجازت ہے۔ امتیازی سلوک  ان کے سالوں کی تعلیم سے الگ ہے۔ ‘

کاتھر نے کہا کہ کچھ معاملوں میں بچے اپنی یونیفارم کے نیچے اپنی ذات کے رہنماؤں کی تصویروں کے ساتھ یہ لاکیٹ پہنتے ہیں۔ پولاچی کے پاس کویمبٹور میں اساتذہ دلت طالبعلموں کو مائنس اور غیر دلت طالب علموں کو پلس بلاتے ہیں۔علاوہ ازیں دراوڑ کمیونٹی کے بچوں کے لئے اسکولوں کی تعداد میں اضافے کی وکالت کرتے ہوئے کاتھر نے کہا کہ اقوام متحدہ کے مسلسل ترقی کے اہداف کا چوتھا مقصد 2030 سے پہلے معیاری تعلیم کو یقینی بنانا ہے۔ اس طرح کے امتیازی سلوک  اسپورٹس ٹیم کے انتخاب، کلاس میں ری اسیمبلنگ اور لنچ کے دوران ہوتا ہے۔