ہندوستان میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کی دوڑ اور بہتر تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بوجھ تلے دب کر طلبا کی خودکشی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
نئی دہلی: طلبا کی خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات سن 2016 میں پیش آئے۔ اس ایک برس کے دوران 9474 طلبا، یعنی تقریباً ہر ایک گھنٹے میں ایک طالب علم، نے اپنی زندگی کا خود اپنے ہاتھوں خاتمہ کر لیا۔نریندر مودی حکومت نے چند ماہ قبل پارلیامنٹ میں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھاکہ 2014 سے 2016 کے درمیان ساڑھے چھبیس ہزار سے زائد طلبا نے خودکشی کر لی۔ 2016 میں 9474 سن 2015میں 8934 اور 2014میں 8068 طلبا نے پڑھائی اور بہتر کارکردگی کے بوجھ تلے دب کر خودکشی کی۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہے کہ طلبا میں خودکشی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر ایک درخواست کے مطابق 2014 سے 2016 کے درمیان صرف ہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی میں ہی 443 ایسے بچوں نے خودکشی کی جن کی عمریں 18 برس سے بھی کم تھیں۔ یہ درخواست حق اطلاعات قانون (آرٹی آئی)کے تحت دہلی پولیس سے حاصل کردہ معلومات کے بعد سپریم کورٹ کے وکیل گورو کمار بنسل نے دائر کی تھی۔گورو کمار بنسل نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا، یہ عرضی دائر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ حکومت کی توجہ اس سنگین مسئلے کی طرف مبذول ہوسکے۔ حکومت طلبا کی خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر توجہ دے اور اس مسئلہ سے بچنے کے لیے نوجوانوں میں بیداری مہم چلائے۔
بنسل کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے حکومت سے پورے ملک میں طلبا کے لیے ذہنی صحت کی دیکھ بھال اور علاج کی سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، میں نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ تمام صوبائی حکومتوں کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے رہنما خطوط تیار کرنے کی ہدایت دے اور نوجوانوں کو بہتر صحت کی خدمات فراہم کرائے۔ میں نے یہ درخواست بھی کی ہے کہ ایسے کال سینٹر اور مشاورتی مراکز بنائے جائیں جہاں خودکشی کے رجحان سے متاثر افراد کا مناسب علاج کیا جاسکے۔
ہندوستان میں یوں تو تعلیم کے شعبے میں کافی ترقی ہوئی ہے تاہم معیاری اور عالمی شہرت یافتہ تعلیمی اداروں کی تعداد برائے نام ہے۔ انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے معروف انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کی تعداد ملک بھر میں صرف 23 ہے، جن میں مجموعی طور پرتقریباً گیارہ ہزار سیٹیں ہیں جب کہ ان میں داخلے کے لیے رواں برس کے دوران امتحان دینے والے طلبا کی تعداد نو لاکھ سے زیادہ تھی۔ تقریباً یہی حال میڈیکل کالجوں کا بھی ہے۔ ایسے میں مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے۔راجستھان کے کوٹہ ضلع کو ’کوچنگ اداروں‘ کا مرکز کہاجاتا ہے، جہاں ایک سو سے زائد کوچنگ سینٹرز میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بچے اپنے گھر سے دور رہ کر اچھے اداروں میں داخلے کے لیے تیاری کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں یہاں متعدد طلبا پڑھائی کے دباؤ میں آ کر خودکشی کر چکے ہیں جس کی وجہ سے یہ شہر اب ‘قاتل شہر‘ کے نام سے مشہور ہوگیا ہے۔
لاکھوں روپے فیس دے کر یہاں بچے بالکل الگ تھلگ رہ کر روزانہ پندرہ سولہ گھنٹے پڑھائی میں لگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی دیگر سرگرمیاں تقریباً ختم ہوجاتی ہے۔ جب ہر پندرہ دن بعد لیے جانے والے ٹیسٹ میں ان کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہوتی ہے تو وہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ بچوں کو شدید ذہنی دباؤ سے بچانے کے لیے اب بعض والدین بھی اپنا وطن چھوڑ کر دو سال تک اپنے بچوں کے ساتھ رہنے کے لیے مجبور ہو گئے ہیں۔
ماہر نفسیات اور طلبا کو مشاورت فراہم کرنے والی ندھی پرساد نے طلبا میں خودکشی کے بڑھتے رجحان کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ آج ایک ایسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں طلبا میں ڈپریشن کے واقعات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ بدقسمتی سے والدین اپنی امنگوں اور خواہشات کا بوجھ انجانے طورپر اپنے بچوں پر ڈال دیتے ہیں اور ایسا کرتے وقت یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کا بچہ اس کا اہل ہے یا بھی نہیں۔
ندھی پرساد نے والدین کو مشورہ دیتے ہوئے کہا،اپنے بچوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کریں، ان پر اعتماد کریں اور انہیں اپنا راستہ خود تلاش کرنے دیں۔ ان میں ہر وقت غلطیاں نکالنے سے ان کا حوصلہ پست ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ ہلاکت خیز ثابت ہوسکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ایک اسمارٹ سرپرست بنیں۔ آج کا دور انفارمیشن کا دور ہے، بچے آپ سے کہیں زیادہ جانتے ہیں اس لیے انہیں اپنے لیے بہترین راستے کا انتخاب کرنے دیں۔
(ڈی ڈبلیو اردو سے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں