سپریم کورٹ فیس بک کی اس عرضی پر سماعت کے لئے راضی ہو گیا ہے جس میں صارفین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو آدھار نمبر سے جوڑنے کی مانگ کرنے والے معاملوں کو مدراس، ممبئی اور مدھیہ پردیش کے ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ منتقل کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ فیس بک انک کی اس عرضی پر سماعت کے لئے راضی ہو گیا ہے جس میں صارفین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو آدھار نمبر سے جوڑنے کی مانگ کرنے والے معاملوں کو مدراس، ممبئی اور مدھیہ پردیش کی ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ منتقل کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔سپریم کورٹ نے مرکز، گوگل، ٹوئٹر، یوٹیوب اور دیگر کو نوٹس بھیجکر 13 ستمبر تک جواب دینے کو کہا۔جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس انیرودھ بوس کی بنچ نے کہا کہ جن کو نوٹس جاری نہیں کئے گئے ہیں ان کو ای میل سے نوٹس بھیجے جائیں۔بنچ نے کہا کہ صارفین کے سوشل میڈیا پروفائل کو آدھار سے جوڑنے کے جو معاملے مدراس ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں ان پر سماعت جاری رہےگی لیکن کوئی آخری فیصلہ نہیں دیا جائےگا۔ اس معاملے پر اگلی سماعت بدھ کو ہونی ہے۔
غور طلب ہے کہ تمل ناڈو حکومت نے سپریم کورٹ سے سوموار کو کہا تھا کہ فرضی خبروں کی تشہیر، ہتک عزت، فحش، ملک مخالف اور دہشت گردی سے متعلق مواد کی روانی کو روکنے کے لئے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو صارفین کے آدھار نمبر سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔فیس بک انک تمل ناڈو حکومت کے اس مشورہ کہ اس بنیاد پر مخالفت کر رہا ہے کہ 12-نمبروں کے آدھار کو شیئر کرنے سے صارفین کی پرائیویسی کی پالیسی کی خلاف ورزی ہوگی۔فیس بک انک نے کہا کہ وہ تیسرے فریق کے ساتھ آدھار کو شیئر نہیں کر سکتا ہے کیونکہ فوری میسیجنگ ایپ وہاٹس ایپ کے پیغام کو کوئی اور نہیں دیکھ سکتا ہے اور یہاں تک کہ ان کی بھی پہنچ نہیں ہے۔
لائیو لا کے مطابق، مدراس ہائی کورٹ میں دائر معاملے کے ٹرانسفر کی مخالفت کرتے ہوئے تمل ناڈو حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش ہوتے ہوئے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے کہا، آدھار کے ساتھ سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو جوڑنے سے فیک نیوز، پارنوگرافی، ملک مخالف مواداور سائبر کے غلط استعمال کو پھیلنے سے روکنے میں مدد ملےگی۔انہوں نے آگے کہا، مدراس ہائی کورٹ میں کئی سماعتیں ہوئی ہیں۔ معاملے کی سماعت جلدہی پوری ہو جائےگی اور ایک مہینے میں فیصلہ آ سکتا ہے۔ ان کو (فیس بک) اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔اس دوران انہوں نے بلیو وہیل گیم کی وجہ سے پھیلے ڈر کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا، بلیو وہیل گیم کے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے کئی ہندوستانیوں نے اپنی جان دے دی۔ ایسا کوئی نظام نہیں ہے جس سے اس کو شروع کرنے والے کا پتہ لگایا جا سکے۔ آج بھی حکومت ہند اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کی بڑی کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ دو لوگوں کے درمیان ہونے والے وہاٹس ایپ پیغامات کے لین دین کو کوئی تیسرا نہیں پڑھ سکتا ہے اور نہ ہی دیکھ سکتا ہے، لیکن انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ پیغام لکھنے والے کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔وینو گوپال نے کہا، اگر کسی میسج کے بنیادی ذرائع کا پتہ چل سکے، خاص طور پر مجرمانہ معاملوں میں تو یہ ہمارے لئے بہت اچھا ہوگا۔فیس بک انک کے وکیل سینئر وکیل مکل روہتگی نے کہا کہ اس طرح کے مدعوں کو صرف سپریم کورٹ کے ذریعے سنا جانا چاہیے نہ کہ کسی ہائی کورٹ کے ذریعے۔ جب مرکزی حکومت معاملے کی جانچکر رہی ہے تب ریاستی حکومت ایسا فیصلہ نہیں لے سکتی ہے کہ وہ فیس بک کو صارفین کا ڈیٹا شیئر کرنے کی ہدایت دے۔
روہتگی نے یہ بھی کہا کہ فیس بک-وہاٹس ایپ پرائیویسی پالیسی سے جڑا ہوا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ اس پر روہتگی نے پوچھا کہ پھر آخر کیوں تمل ناڈو حکومت اس معاملے کو مدراس ہائی کورٹ میں نپٹانا چاہتی ہے۔وہیں، وہاٹس ایپ کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا، وہاٹس ایپ میں دو لوگوں کے درمیان ہونے والے وہاٹس ایپ پیغامات کے لین دین کو کسی تیسرے کے ذریعے نہیں پڑھ سکنے اور نہ ہی دیکھ سکنے کے مدعا کو لےکر مرکز فکرمند ہے اور اس معاملے کو دیکھ رہا ہے۔ یہ حکومت ہند کا پالیسی مدعا ہے۔
سماعت کے دوران بنچ نے کہا، ہمیں آن لائن پرائیویسی کے حقوق اور ڈر پھیلانے اور آن لائن جرم کرنے والے کی پہچان کرنے کے فرض کے درمیان ایک ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ٹرانسفر عرضی میں کہا گیا ہے کہ عرضی میں آئی ٹی ایکٹ، 2000 اور آدھار قانون، 2016 جیسے مرکزی قوانین کی وضاحت جیسے معاملے شامل ہیں اس لئے آئیڈیل صورت یہ ہوگی کہ معاملے کی سماعت سپریم کورٹ کرے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں