خبریں

وومین پریس کارپس نے بھیم آرمی کو پریس کانفرنس کے لئے دی منظوری رد کی

بھیم آرمی کے چیف چندرشیکھر آزاد کے وکیل نے کہا کہ اس پریس کانفرنس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ دہلی کے ایک پولیس تھانے کے اندر عدالت لگاکر 96 کارکنوں کو 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیجا گیا۔

دہلی میں روی داس مندر گرائے جانے کی مخالفت میں مظاہرین پر لاٹھی چارج کرتے پولیس اہلکار (فوٹو:  پی ٹی آئی)

دہلی میں روی داس مندر گرائے جانے کی مخالفت میں مظاہرین پر لاٹھی چارج کرتے پولیس اہلکار (فوٹو:  پی ٹی آئی)

نئی دہلی: انڈین وومین پریس کارپس (آئی ڈبلیو پی سی) نے اپنے کیمپس میں ہونے والی دلت تنظیم بھیم آرمی کی پریس کانفرنس کو دی گئی منظوری واپس لے لی ہے۔سینئر وکیل محمود پراچا نے دی وائر کو بتایا کہ 22 اگست کو دہلی کی ایک مقامی عدالت کے ذریعے بھیم آرمی کے چیف چندرشیکھر آزاد اور 95 دیگر کو 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیجے جانے کے فیصلے کو لےکر یہ پریس کانفرنس تھی۔

انہوں نے کہا، ‘ ہم پریس کانفرنس میں یہ اجاگر کرنا چاہتے تھے کہ ملک میں 22 اگست کو کچھ غیر متوقع ہوا تھا، جس سے اشارہ ملتا ہے کہ ہم ایک غیر رسمی پولیس راشٹر بن گئے ہیں لیکن میڈیا نے اس پر دھیان نہیں دیا۔ میں نے اس کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا لیکن دہلی کے کالکاجی پولیس اسٹیشن میں ایک عدالت لگائی گئی، جس نے جنوبی دہلی کے روی داس مندر کو گرائے جانے کی مخالفت میں مارچ میں شامل 96 لوگوں کو گرفتار کئے جانے کے معاملے میں سماعت کی۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘ قانون میں ایک اہتمام ہے جہاں جج اسکول میں عدالت لگا سکتے ہیں، لیکن اگر 5000 لوگ کسی جرم کے ملزم ہیں تو کیونکہ ایسے میں ان کو چھوٹےسے کورٹ کے کمرے میں پیش نہیں کیا جا سکتا لیکن اس معاملے میں 100 لوگ بھی نہیں تھے۔ یہی وہ بات تھی، جو ہم پریس کانفرنس میں بتانا چاہ رہے تھے لیکن اس کی ہمیں منظوری نہیں دی گئی۔ ‘

پراچا نے کہا، ‘ پریس کانفرنس 23 اگست کو شام چار بجے ہونی تھی لیکن دوپہر تقریباً 2.30 بجے ہمیں آئی ڈبلیو پی سی سے ایک میل آیا، جس میں لکھا ہوا تھا کہ اصولوں کے تحت وہ دی گئی منظوری کو واپس لے رہے ہیں۔ وہ سیاسی اور مذہبی تنظیموں کو پریس کانفرنس کرنے کی جگہ نہیں دے سکتے لیکن بھیم آرمی سیاسی یا مذہبی نہیں بلکہ سماجی تنظیم ہے۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘ زیادہ تر ادارے آج کل حکومت کی طرف سے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں لیکن ہمیں امید تھی کہ صحافتی تنظیم پولیس کی دھمکیوں کے سامنے جھکیں‌گے نہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اس میں اقتدار کی ملی بھگت ہے اس لئے آخری وقت میں ہماری پریس کانفرنس کو کینسل کیا گیا تاکہ ہم اس کے لئے کوئی اور جگہ  نہیں ڈھونڈ سکے۔ ‘

غور طلب ہے کہ جنوبی دہلی کے تغلق آباد علاقے میں روی داس مندر گرائے جانے کی مخالفت میں نکالے گئے مارچ کے بعد بھیم آرمی کے چیف چندرشیکھر آزاد اور 95 دوسرے لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ڈی ڈی اےنے 10 اگست کو مندر گرا دیا تھا۔آئی ڈبلیو پی سی کے ایک ممبر نے دی وائر کو بتایا کہ علاقے کے ایس ایچ او کے ذریعے نئی دہلی کے رفیع مارگ پر ان کے آفس میں پریس کانفرنس کے بارے میں پوچھ تاچھ کرنے پر آئی ڈبلیو پی سی کی صدر اور سینئر صحافی جیوتی ملہوترا نے کانفرنس کے لئے بھیم آرمی کو دی گئی منظوری رد کر دی۔

انہوں نے کہا، ‘ صدر نے بعد میں وہاٹس ایپ گروپ میں میسیج کرکے بتایا کہ بھیم آرمی کو پریس کانفرنس کی منظوری دی گئی تھی کیونکہ وہ کسی بھی مذہبی اور سیاسی تنظیم کے ذریعے کیمپس میں نہیں دی جانے والی اجازت کو لےکر اصولوں سے آگاہ نہیں تھیں لیکن کلب کے کچھ بانی ممبروں نے آخری وقت میں اس کے بارے میں بتایا، جس کے بعد اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا۔ ‘

واضح ہو کہ بھیم آرمی چیف آزاد نے 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں اعلان کیا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف وارانسی سے انتخاب لڑیں‌گے لیکن بعد میں انہوں نے اس سے انکار کر دیا تھا۔ بھیم آرمی نے خود کو ایک سماجی تنظیم بتایا ہے، جو دلتوں کے حقوق کے لئے لڑتی ہے۔

آئی ڈبلیو پی سی کی ایک ممبر نے بتایا، ‘ صدر نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ ہمیں دیگر رہنماؤں کی طرح آزاد کو آئی ڈبلیو پی سی میں بلاکر یہاں ممبروں سے ان کی بات چیت کو لےکر کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن ہم ان کو یہاں پریس کانفرنس کی منظوری نہیں دے سکتے۔ ‘انہوں نے بتایا کہ کچھ ممبروں نے کہا ہے کہ اس قدم سے آئی ڈبلیو پی سی کی غلط امیج بنی  ہے اور انھوں نے اصولوں کو لے کر وضاحت کی مانگ کی ہے۔