خبریں

آر بی آئی نے مودی حکومت کو 1.76 لاکھ کروڑ روپے دینے کا فیصلہ کیا

آر بی آئی کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے سینٹرل  بینک کے سابق گورنر بمل جالان کی صدارت والی کمیٹی کی سفارشوں کو منظور کرنے کے بعد یہ قدم اٹھایا ہے۔ آر بی آئی نے حکومت کو جو رقم دینے کا فیصلہ کیا ہے وہ پچھلے پانچ سالوں کے مقابلے تین گنا زیادہ ہے۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: ریزرو بینک نے سوموار کو Dividend and Surplus Reserve Fund سے 1.76 لاکھ کروڑ روپے حکومت کو منتقل کرنے کا سوموار کو فیصلہ کیا۔ یہ 2019-20 کے بجٹ میں قیاسی90 ہزار کروڑ روپے سے تقریباً دو گنا ہے۔اس قدم سے حکومت کوفلاحی اسکیموں کی فنڈنگ میں مدد ملے‌گی اور وہ بڑے پیمانہ پرسرمایہ خرچ‌کے سکے‌گی۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کو حکومتی خزانےکے نقصان کے ہدف کو جی ڈی پی کے 3.3 فیصدی تک مستحکم رکھنے میں بھی مدد ملے‌گی۔ریزرو بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرکے سینٹرل  بینک کے سابق گورنر بمل جالان کی صدارت والی کمیٹی کی سفارشوں کو منظور کرنے کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔

کمیٹی کی تشکیل ریزرو بینک کے کاروبار کے لئے اقتصادی سرمایہ/ buffer capital کے مناسب سطح کی تعمیر اور ضرورت سےزیادہ پڑے سرمایہ کو حکومت کو منتقل کرنے کے بارے میں سفارش دینے کے لئے کی گئی تھی۔سینٹرل بینک نے ایک بیان میں کہا کہ آر بی آئی کےبورڈ آف ڈائریکٹر نے 176051 کروڑ روپے حکومت کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں 2018-19 کے لئے 123414 کروڑ روپے کی کثرت اور 52637 کروڑ روپےکو اضافی اہتمام کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔اضافی اہتمام کی یہ رقم آر بی آئی کے اقتصادی سرمایہ سے متعلق ترمیم شدہ اصولوں (ای سی ایف)کی بنیاد پر نکالا گیا ہے۔

واضح ہو کہ، گزشتہ سال میڈیا رپورٹس میں اس بات کے اشارہ دئے گئے تھے کہ مودی حکومت، سینٹرل بینک کے جمع شدہ خزانے سے 3.6 لاکھ کروڑ روپے چاہتی ہے۔حکومت کو دئے جانے والے سرپلس ٹرانسفر کو ڈیویڈنڈ کہا جاتا ہے اور اس سال سینٹرل  بینک کے ذریعے آر بی آئی کو دیا جا رہا ڈیویڈنڈ پچھلے 65896 کروڑ روپے کے مقابلےتقریباً دو گنا ہے۔غور طلب ہے  کہ، آر بی آئی ہرسال مرکزی حکومت کو ڈیویڈنڈ منتقل کرتی ہے۔ پچھلے چھے سالوں میں یہ منتقلی 30 ہزار سے 65 ہزار کے درمیان رہی ہے۔ گزشتہ سال آر بی آئی نے حکومت کو 50 ہزار کروڑ روپے، جبکہ مالی سال 2016-17 میں محض 30659 کروڑ روپے ڈیویڈنڈ کے طور پر دئے تھے۔

حالانکہ، اس بار کی رقم پچھلے پانچ سالوں کے اوسط 53 ہزار کروڑ روپے سے تین گنا زیادہ ہے۔ کل رقم میں سے 28 ہزار کروڑ روپے حکومت کو عبوری ڈیویڈنڈ کے طور پر پہلے ہی ٹرانسفر کیا جا چکا ہے۔یہاں مسئلہ یہ ہے کہ آر بی آئی اپنے کل اضافی سرمایہ یا ڈیویڈنڈ حکومت کو منتقل نہیں کرتی ہے۔ حالانکہ، آر بی آئی اپنے کل اضافی سرمایہ یا ڈیویڈنڈ حکومت منتقل نہیں ہے اور اس کو مشکل اقتصادی حالات جیسے وقت کے لئے بچاکر رکھتی ہے۔ریزرو بینک کے سابق گورنر بمل جالان کی صدارت میں چھے ممبروں والی کمیٹی کی تشکیل گزشتہ سال 26 دسمبر کو کی گئی تھی۔ کمیٹی کی تشکیل ریزرو بینک آف انڈیا کے لئے اکنامک کیپٹل فریم ورک (ای سی ایف) کی تجزیہ کے لئے کی تھی۔

ریزرو بینک کا ریزرو مثالی طور پر کتنا ہونا چاہیے، اس کے بارے میں بتانے کے لئے اس سے پہلے تین کمیٹیاں بن چکی ہیں۔ 1997 میں وی سبرامنیم، 2004 میں اوشا تھوراٹ اور 2013 میں وائی ایچ مالےگام کی رہنمائی والی کمیٹی بنائی گئی تھی۔قابل ذکر ہے کہ، سابق آر بی آئی گورنرارجت پٹیل کی مدت کار میں حکومت اور آر بی آئی کے درمیان کھینچ تان کے کئی مدعوں میں سے ایک بڑی تعداد میں ڈیویڈنڈ کی منتقلی تھی۔دراصل، اس وقت کے آر بی آئی گورنرارجت پٹیل کی مدت میں ہی آر بی آئی بورڈ اس بات پر متفق ہوا تھا کہ وہ نئی ہدایات بنانے کے لئے ایک کمیٹی بنائے گاجس کے تین ہفتوں بعد گزشتہ سال 10 دسمبر کو انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

حالانکہ، اس سے پہلے ہی پٹیل کا حکومت کے ساتھ رشتہ تب خراب ہو گیا تھا جب حکومت نے غیر متوقع قدم اٹھاتے ہوئے آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ  7 کا استعمال کر آر بی آئی بورڈ کو ہدایت دی تھی۔وہیں، شکتی کانت داس  کا پٹیل کی جگہ نیا گورنر بننے کے دو ہفتہ بعد 27 دسمبر، 2018 کو ہی جالان کو ای سی ایف پر بنی 6 رکنی  کمیٹی کا صدر بنا دیا گیا تھا۔اس ڈیویڈنڈپر پہنچنے کے لئے، مرکزی بورڈ نے موجودہ اکوٹی سطح کو 30 جون 2019 کے مطابق موجودہ 6.8 فیصد کے مقابلے بیلنس شیٹ کا 5.5 فیصد بنائے رکھنے کا فیصلہ لیا۔ اس کی وجہ سے آر بی آئی کو 52637 کروڑ روپے کے اضافی اہتماموں کو اپنے پاس رکھنے میں مدد ملی۔کمیٹی نے اکوٹی سطح کو 6.5-5.5 فیصدی پر رکھنے کی سفارش کی تھی۔ اگر بیلنس شیٹ کو 6.5 فیصدی پر رکھنے کا فیصلہ لیا جاتا تو اضافی خطرہ اہتمام 11.608 کروڑ روپے ہوتا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)