معاملہ ملاپورم ضلع کا ہے، جہاں اسکول میں کاؤنسلنگ کے دوران ساتویں کلاس کی طالبہ نے اس بارے میں بتایا۔ بچی کے والد بےروزگار ہیں اور ایسا بتایا جا رہا ہے کہ پہلے اس نے بچی کی ماں کو جسم فروشی کے لئے مجبور کیا تھا۔
نئی دہلی: کیرل کے ملاپورم ضلع میں گزشتہ دو سے زیادہ سالوں میں 12 سال کی ایک بچی سے 30 سے زیادہ لوگوں نے ریپ کیا۔ ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ساتویں کلاس میں پڑھنے والی اس بچی کے اسکول میں کاؤنسلنگ سیشن کے دوران اس معاملے کا پتہ چلا۔ اس بچی کی کاؤنسلر نے بتایا کہ وہ حیران ہیں کہ بچی نے اتنا کچھ برداشت کیا ہے۔ کاؤنسلر نے بتایا کہ اس سے (بچی) یہ پوچھنے پر کہ گھر پر کیا چل رہا ہے، سب ٹھیک ہے، وہ رونے لگی۔
بچی نے بتایا کہ اس کی فیملی کو پیسوں کی سخت ضرورت ہے، گھر پر ایک بیمار دادی ہیں، جس کے علاج کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ وہ اپنے گھر کا کرایہ بھی نہیں چکا پا رہے ہیں۔ کاؤنسلر نے بتایا کہ وہ پریشان تھی کہ اگر اس کے والد کو گرفتار کر لیا جائےگا تو اس کی فیملی کی مالی حالت اور خراب ہو جائےگی۔
کاؤنسلر نے بتایا کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی بچی کو اس بات کا دکھ تھا کہ وہ اپنے گھر کی مالی حالت کو ٹھیک کرنے کے لئے کچھ نہیں کر پائی۔ متاثرہ کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ اس کے ساتھ ریپ ہوا ہے۔ بچی نے کاؤنسلر کو بتایا کہ پہلے اس کی فیملی کی مالی مدد کرنے والے اس کے والد کے ایک دوست نے اس کا ریپ کیا اور اس کے بعد اور بھی لوگ آنے لگے۔
بچی نے بتایا کہ ایک تیسرا شخص، جس سے وہ کبھی نہیں ملی، وہ اس کا ریپ کرنے والے آدمیوں سے پیسے لیتا تھا۔ بچی کا والد بےروزگار ہے اور ایسا بتایا جا رہا ہے کہ پہلے اس نے بچی کی ماں کو جسم فروشی کے لئے مجبور کیا تھا۔ خبر کے مطابق، اس واقعہ کی جانکاری ملنے کے بعد بچی کو شیلٹر ہوم لے جایا گیا ہے، جہاں جاتے وقت وہ اپنے گھر کے دروازے پر معافی مانگتے ہوئے ‘ ساری اماں ‘ لکھکر گئی ہے۔
ترورانگڈی پولیس اسٹیشن کے سب انسپکٹر نوشاد ابراہیم نے بتایا کہ اتوار کو مجسٹریٹ کے سامنے بچی کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور میڈیکل جانچ ہوئی، جہاں ریپ کی تصدیق ہوئی ہے۔ اتوار رات کو بچی کے والد سمیت تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا، جبکہ دو لوگوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 354، 376 اور پاکسو ایکٹ کی کئی دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔
بچی کے والد کےخلاف جووینائل جسٹس ایکٹ کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔ ملاپورم پولیس کےسب انسپکٹر پی پی شمسو نے بتایا کہ باقی ملزمین کی تلاش کی جا رہی ہے۔ گھنی آبادی والے علاقے میں بچی کی فیملی پانچ سال سے رہ رہی ہے۔ پڑوسیوں کو شک تھا کہ ان کے یہاں کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے، لیکن انہوں نے اس بارے میں کچھ نہیں کیا۔
بچی کے پڑوس میں رہنے والی 47 سالہ خاتون نے بتایا، ‘ اکثر رات میں بچی کے رونے اور اس کے چیخنے کی آوازیں آتی تھیں۔ ہم گھر میں لوگوں کو آتے بھی دیکھتے تھے لیکن ہم ان کی فیملی کے معاملوں میں دخل نہیں دینا چاہتے تھے۔ ہمیں اپنی بیٹیوں کو بھی دیکھنا ہے۔ ‘ اسکول میں متاثرہ بچی کے ہم جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ اکیلے رہتی تھی اور اس کی ماں اس کو اسکول لینے اور چھوڑنے آتی تھیں۔ اس کی ماں اس کو انٹرول کے دوران بھی گھر لے جاتی تھیں۔ بچی کے ساتھ لگاتار ہو رہے ظلم وستم کی وجہ سے وہ بیمار رہنے لگیں اور اکثر اسکول نہیں آتی تھی۔
اس کے بعد متاثرہ کے ایک پڑوسی نے اسکول میں شکایت کی کہ اس کے گھر پر کچھ غلط ہو رہا ہے، جس کے بعد بچی کی کاؤنسلنگ کی گئی، جس میں اس واقعہ کا پتہ چلا۔ وہیں متاثرہ بچی کی ماں نے فیملی پر لگے الزامات سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ یہ سازش ہے۔ مجھے میری بیٹی چاہیے۔ ‘ ملاپورم پولیس غریب فیملیوں کے اس طرح کے بچوں کی پہچان کرنے کے لئے ایک مہم شروع کر رہی ہے۔ ملاپورم میں اس سال 31 جولائی تک بچوں سے ریپ کے 289 معاملے درج ہوئے ہیں، جو کیرل میں سب سے زیادہ ہیں۔
Categories: خبریں