ترکی کے اس فوجی اپریشن سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ اردگان دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس سے قبل اس نے ناٹو کا رکن ہوتے ہوئے بھی روس سے ایس۔400 میزائل ڈیفنس سسٹم خریدکر ایک بڑے سفارتی چیلنج کا سامنا کرکے، اس کو نہایت ہی زیرک طریقے سے سلجھا دیا۔ شاید اسی وجہ سے بشارالاسد کا حلیف ہوتے ہوئے بھی روس کا رد عمل کچھ زیادہ سخت نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ عالمی امور میں امریکہ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے بدھ کی رات کو ترکی کے دارلحکومت انقرہ کی فضائیں جنگی طیاروں کی گھن گرج سے گونج رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ ترک افواج نے دریائے فرات کے مشرق میں شام کے شمالی علاقوں میں کرد عسکری ٹھکانوں پر آپریشن شروع کر دیا ہے۔ امریکی نیشنل سیکورٹی انتظامیہ کے ایک خفیہ ڈاکومینٹ کے افشا ہونے کے بعد یہ تقریباً طے تھا کہ ترکی اس علاقے کو محفوظ بنانے کےلیے کوئی سخت اور راست قدم اٹھانے والا ہے۔ عالم اسلام کے کئی مسائل میں کردوں کا المیہ بھی پچھلے سو سالوں سے کسی تصفیہ کا منتظر ہے۔ جنگ عظیم اول کے خاتمہ کے بعد جب عالمی طاقتوں نے ترکی کی خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کرکے اردن، عراق اور دیگر ممالک اس کی کھوکھ سے برآمد کردئے، تو امید تھی کہ شاید عربوں کی طرح کرد وں کو بھی کوئی علاقہ تفویض کردیا جائےگا۔
مگر استعماری طاقتوں نے علاقوں کی تقسیم ہی اس طرح کی کہ یہ خطہ ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہے اور وقتاً فوقتاً ان کو مداخلت کرنے اور اسلحہ بیچنے کا موقع ملتا رہے۔ کرد اکثریتی علاقوں کو ایران، آرمینیا، عراق، شام اور ترکی میں تقسیم کرکے نہ صرف کردوں بلکہ ان ممالک کےلیے بھی مسلسل درد سر کا سامان مہیا کروایا گیا۔ کردوں کی آبادی اب تقریباً25سے 30ملین کے قریب ہے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، مگر عیسائی، پارسی، ایزیدی، اسرانی، یسامی اور یہودی بھی کافی تعداد میں ہیں۔ چونکہ ایران، عراق،شام اور ترکی کی صورت میں ان کا راست مقابلہ مسلم حکمرانوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے، اس لیے پچھلے سو سالوں سے مغربی ممالک ان کو کسی نہ کسی ملک کے خلاف استعمال کرتی آئی ہیں۔ جب ایران مغربی ممالک کو آنکھیں دکھاتا ہے تو وہاں کرد عسکریت زور پکڑتی ہے اور جب عراق میں صدام حسین کو سبق سکھانا ہو، تو شمالی عراق میں کرد بغاوت پھوٹ پڑتی ہے۔
شام اور ترکی میں بھی ان کو وقتافوقتاً استعمال کیا گیا۔ جوں ہی ان ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ مغربی ممالک کے تعلقات استوار ہوئے، کرد عسکریوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا گیا۔واقعات کا یہ تسلسل پچھلے ایک سو سالوں سے جاری ہے۔ ان طاقتوں کے دوہرے پیمانوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عراق میں برسر پیکار، جن کرد عسکری تنظیموں کو یورپ، امریکہ اور اقوام متحدہ نے دہشت گرد قراد دے کر پابندی لگائی ہے، یہی عسکری شام ور ترکی پہنچ کر مجاہد آزادی کہلاتے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے آپریشن کا اعلان کرتے وقت مغرب کی اس دوہری پالیسی کو خوب نشانہ بنایا۔ ترکی میں اردگان کی حکومت نے ان کو مغرب کے پنجے سے نکال کر مین اسٹریم سیاست میں ان کی حصہ داری کسی حد تک یقینی بنانے کی کوشش کی۔کرد پارٹی، پی ڈی پی کے اسوقت ترک پارلیامنٹ میں 62اراکین ہیں۔
2011میں جب شام میں بشر الاسد کی حکومت کے خلاف عوامی بغاوت شروع ہوئی، تو ترکی اور مصر کی محمد مرسی حکومت نے اس کی حمایت کی۔ مرسی کو جلد ہی اقتدار سے فارغ کردیا گیا۔ بشرا لاسد نے فوج کشی کرکے عوامی بغاوت کو سختی کے ساتھ کچلا، جس کے نتیجے میں اپوزیشن نے عسکری رخ اختیار کرکے فری سیرین آرمی تشکیل دی اور جلد ہی کامیابیاں حاصل کرکے کئی علاقوں میں حکومت قائم کی۔ اس دوران عراقی شہر موصل میں اسلامک اسٹیت یا داعش کا ظہور ہوا۔ 2014میں جب اس نے بغداد کی طرف چڑھائی شروع کی، نجف اور کربلا کو بچانے کے نام پر ایران کے کمانڈو دستوں کی مدد سے شیعہ ملیشیا حشدالشعبی نے ان کی پیش قدمی روک دی۔ دوسری طرف ایران اور روس نے شام میں باضابطہ جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ فری سیرین آرمی اب ایک طرف روس، ایران اور شامی افواج، دوسری طرف داعش سے برسرپیکار ہوگئی اور جلد ہی پسپا ہوکر ادلیب اور چند دیگر علاقوں تک محدود ہوکر رہ گئی۔
اس کے کئی کمانڈر داعش کے ہاتھوں مارے گئے۔داعش کو ختم کرنے اور بشارالاسدکر ٹھکانے لگانے کے نام پر اب ا مریکہ بھی جنگ میں کود پڑا۔ حیرت تو تب ہوئی کہ بجائے اپنے ناٹو حلیف ترکی کی اعانت کرنے یا گراونڈ پر فری سیرین آرمی سے مدد لینے کے، امریکہ نے عراق، ترکی اور شام میں آباد کر د آبادی کو مسلح کرکے ان کو داعش کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کردیا۔ کردوں نے داعش کے علاوہ ایک اور فرنٹ ترکی اور فری سیرین آرمی کے خلاف بھی کھولا۔ جس کی یورپی ممالک اور امریکی انتظامیہ درپردہ حمایت کر رہے تھے۔ فری سیرین آرمی کو خاصی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی سرگرمیا ں معطل ہوکر رہ گئیں۔ ترکی کے فوجی آپریشن سے قبل 4اکتوبر کو شام کے 19اپوزیشن گروپوں نے ایک اور عسکری اتحاد سیرین نیشنل آرمی تشکیل دی، جو اس وقت ترکی کے فوجی آپریشن میں ہراول دستے کا کام کر رہا ہے۔
امریکی نیشنل سیکورٹی کے خفیہ دستاویزات کے مطابق کردوں سے وعدہ کیا گیا تھا، کہ داعش سے لڑنے کے عوض شمالی شام میں ترکی کی سرحد پر ایک مخصوص پٹی کو عربوں سے خالی کرواکر ان کو بسایا جائےگا اور اس علاقہ کو خود مختار کرد علاقہ کے بطور تسلیم کیا جائےگا۔ امریکی اداروں کا خیال تھا کہ ایک کرد علاقہ قائم کرواکے ترکی، عراق اور ایران پر ایک مستقل تلوار لٹکاکر رکھی جائے، جیسے اسرائیل کی صورت میں عرب ممالک پر پچھلے ستر سالوں سے لٹکی ہوئی ہے۔ مگر اس تحویز کو صدر ٹرمپ نے ویٹو کرکے نہ صرف امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان کیا، بلکہ بلاواسطہ طور پر ترکی کے فوجی آپریشن کی راہ ہموار کردی۔ امریکی ڈاکومینٹ کے مطابق،جس کے خالق سابق وزیر دفاع جم میٹس تھے، امریکہ اور مغربی ممالک کے لیے لازم ہے کہ کردوں کی قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، ان کو ایک علیحدہ ملک قیام کرنے میں مدد کریں۔ میٹس امریکی فوج کے انخلا کے سب سے بڑے ناقد تھے۔
مغربی ممالک کے اس منصوبہ کا توڑ کرنے کے لیے صدر ادگان نے تجویز دی کہ سری کانی اور تل ابیض قصبوں کے درمیان 18کلومیٹر لمبی اور 8کلومیٹر چوڑی پٹی کو امن کوریڈور بناکر وہاں ترکی میں موجود 30لاکھ شامی پناہ گزینوں کو بسایا جائے، اور وہاں انفراسٹرکچر اور دیگر ضروریات زندگی کے لیے سامان مہیا کروائے جائیں۔ اردگان نے پیش کش کی کہ ترکی کے ادارے اس کے لیے بیشتر وسائل فراہم کردیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغرب ان کے دروازے پر ایک ٹیرر کوریڈور Terror Corridor بنا کر رکھنا چاہتا ہے، جبکہ وہ ایک Peace Corridor قائم کروانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس علاقہ میں عرب آبادی کا انخلا اور اس کو کرد جنگجو کے حوالے کرنا، خطہ میں کشیدگی اور عدم استحکام کا موجب بنے گا۔
جب سے شام میں افراتفری کا دور شروع ہو گیا تھا، اسرائیل عملاً اس سے لاتعلق ہی رہا، مگر اب پہلی بار کردوں کی حمایت کرکے شام کی اس پٹی کو ان کے حوالے کرنے کی حمایت کر کے اس نے معاملات کو اور بھی پیچیدہ کرکے یہ بھی صاف کردیا کہ پردہ کے پیچھے کچھ کردوں کے نام پر ترکی اور خطے کے دیگر مسلم ممالک پر وار کرنے کی تیاریا ں ہو رہی تھیں۔ اسرائیلی وزیر گلارڈ اردن نے اردگان کونسل پرست اور یہودی مخالف قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کردوں کے معاملے سے الگ نہیں رہ سکتا۔ ایک اور وزیر آئی لات شاکڈ نے کرد اور یہودیوں کے تاریخی رشتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ان کی قدر کرتا ہے۔ وزیر اعظم نیتن ہاہو کے فرزند نے تو سوشل میڈیا ٹوئٹر پر فری کردستان کا ہیش ٹیگ چلا کر کردجنگجووں کی کھلے عام حمایت کا اعلان کردیا۔ اسرائیل کی بلیو اینڈ وہائٹ پارٹی کے لیڈر ایم کے زوی چوثر نے حکومت سے مطالبہ کہا کہ وہ کرد علاقہ کو فی الفور تسلیم کر کے اعلانیہ امداد بھی بہم کروائے۔
مڈل ایسٹ امور کے ماہر عدنان ابو عامر کے مطابق اسرائیل توانائی کی اپنی ضروریات کے لیے75فیصد تیل عراق کے کرد علاقوں سے حاصل کرتا ہے اور اس کے بدلے کرد علاقوں کے مواصلات اور سکیورٹی کے امور اس نے اپنے ہاتھوں میں لئے ہیں۔ اس سے قبل 2016میں اور پھر 2018میں ترکی نے شام کے اندر جرابلس اور آفریں میں بھی اسی طرح کا آپریشن کرکے 365000ریفوجیوں کو واپس بھیجنے کے انتظامات کئے۔مگر آخر صرف موجودہ آپریشن نے ہی کیوں مغربی دنیا اور اسرائیل کو جھنجوڑ دیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پردہ کے پیچھے کوئی کھچڑی پک رہی تھی، جس کا ذائقہ اس آپریشن نے خراب کر کے رکھ دیا۔ اسرائیل کردوں کی حق خود ارادیت کا بڑا حامی رہا ہے۔ 1960اور پھر 1973میں کرد رہنما مسعود البرزانی نے اسرائیل کا دورہ بھی کیا تھا، جب عرب ممالک اس کے ساتھ برسرپیکار تھے۔
ستم ظریفی یہ ہے فلسطینی عوام کو کچلنے اور ان کے حق خود ارادیت کو دبانے والا ملک آخر کیسے کردوں کی حق خود ارادیت کا سب سے بڑا حامی بن گیا ہے۔ اسرائیل شاید ابھی بھی اپنے پہلے وزیر اعظم بن گوریان کے اس فارمولہ پر عمل کر رہا ہے، کہ عربوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے خطہ میں نان عرب گروپوں کے ساتھ اتحاد بنا کر فلسطینیوں کو مزید تختہ مشق بنائے۔ اسرائیلی لیڈروں کا کہنا ہے کہ کرد اور یہود مڈل ایسٹ کی دو اقلیتیں ہیں، جن میں سے ایک اقلیت یعنی یہودیوں کو وطن مل گیا ہے اور اب دوسری اقلیت یعنی کردوں کے وطن کے لیے جدو جہد کو حمایت دینا لازمی ہے۔ انٹلی جنس ذرائع کے مطابق کرد علاقوں کو ہی بیس بناکر اسرائیل نے حال ہی میں ایران کی تنصیبات پر حملے کئے، جس نے ترکی کی بھی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔اس کو خدشہ تھا اس کی سرحد پر کر د علاقہ کا قیام، جس کی باگ دوڑ اسرائیل اور مغربی ممالک کے ہاتھوں میں ہوگی، ریشہ دوانیوں اور خطہ میں عدم استحکام کا باعث ہوگی۔
اس کے علاوہ ان علاقوں سے عرب آبادی کا انخلا ایک اور انسانی المیہ کو جنم دے گا۔ جن کو اب شاید ہی کوئی ملک پناہ دے پائے گا۔اس سال جون میں استنبول کے مئیر کے انتخابات میں اپوزیشن سی ایچ پی نے اردگان کی پارٹی کے خلاف ریفیوجی ایشو کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شامی ریفیوجی،ترکوں کے وسائل پر قبضہ کر رہے ہیں۔ایک صدی قبل اتا ترک نے جس طرح عربوں کے خلاف نفرت کو ترک نیشنل ازم میں تبدیل کر دیا، اپوزیشن بالکل اسی طرح ترک نیشنل ازم کو ابھار کر اقتصادی مندی کو بھی ریفیوجیوں کے سر منڈھا رہی تھی۔ان انتخابا ت میں حکمران اے کے پی کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ترکی میں اب چار سال بعد صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ استنبول کے انتخابات نے اردگان کو پیغام دیا کہ عالم اسلام یا دینا میں اسکی امیج مسلمہ، مگر گھریلو فرنٹ پر اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے اور ریفیوجی ایشو کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
شام کی صورت حال میں جتنی پیچیدگیاں دن بدن پیدا ہو رہی ہیں، اس میں ان ریفیوجیوں کے واپس اپنے گھرجانے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے تھے، اور لگتا تھا کہ ان کو مستقل ترکی میں ہی قیام کرنا پڑے گا۔ اس علاقہ میں ترکی اگر اب واقعی امن بحال کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، تو ان کی واپسی کی راہیں کھل جائیں گی۔ بجائے فوجی آپریشن کو طوالت دینے کے اردگان کو بس اسی ایک نکتہ پر توجہ مرکوز کرکے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ 2003میں اقتدار میں آنے کے بعد اردگان نے جس طرح مفاہمت کی پالیسی کو اپنا کر، کرد سمیت مختلف گروپوں کو پارلیامنٹ اور دیگر اداروں میں نہ صرف نمائندگی دلوائی، بلکہ ان کو حکومت میں بھی شامل کروایا، کرد علاقوں میں ترقی و تعمیر کا ایک باب رقم کیا، اس کو ازسر نو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ فاتح القدس یا یروشلم،سلطان صلاح الدین ایوبی کی قوم کردوں کو مغرب اور اسرائیل کے سحر کے نکال کر ان کو اپنی ہی زریں تاریخ سے روشناس کروانے کی ضرورت ہے۔
فی الحال ترکی کے اس فوجی اپریشن سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ اردگان دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس سے قبل اس نے ناٹو کا رکن ہوتے ہوئے بھی روس سے ایس۔400 میزائل ڈیفنس سسٹم خریدکر ایک بڑے سفارتی چیلنج کا سامنا کرکے، اس کو نہایت ہی زیرک طریقے سے سلجھا دیا۔ شاید اسی وجہ سے بشارالاسد کا حلیف ہوتے ہوئے بھی روس کا رد عمل کچھ زیادہ سخت نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ عالمی امور میں امریکہ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کردوں سے پہلے صدر ٹرمپ نے ایران کے ایشو پر بھی متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو توقع کے برعکس معاونت،بس زبانی جمع و خرچ تک ہی محدود رکھی۔ تجزیہ کارو ں کے مطابق اسرائیلی اداروں میں اب یہ بحث چھڑی ہوئے ہے کہ کہیں ٹرمپ تل ابیب کو بھی کہیں اسی طرح بے یار و مدد گار نہ چھوڑدے، جس طرح اس نے سعودی عرب اور کردوں کی حمایت سے ہاتھ کھنچ لئے ہیں۔
1991میں امریکی صدر جارج بش سینئر نے باضابطہ ٹی وی پر عراق میں شیعوں اور کردوں سے اپیل کی تھی کہ وہ صدام حسین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ دونوں نے اس اپیل پر لبیک کہہ کر پرچم بغاوت بلند کیا۔ مگر جب صدام حسین نے ان پرنہ صرف بم بلکہ کیمیاوی ہتھیاروں کی بارش کی، تو امریکہ دور کھڑا تماشہ دیکھ کر بس مذمتی قرارداد پاس کروا رہا تھا۔ پاکستانی صدر جنرل ضیاء الحق کی موت کا تذکرہ کرتے ہوئے سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ ”میرے ذہن میں آیا کہ امریکہ کا حلیف ہونا کس قدر پر خطر ہے۔ امریکہ سے دوری رکھنا یا غیر جانب دار رہنا قدرے اچھا ہے، مگر امریکی کے ساتھ دشمنی رکھنا اسے سے بھی بہتر اور حفاظت کی علامت ہے۔“
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر