خصوصی رپورٹ : دی وائر کے ذریعے آر ٹی آئی کے تحت حاصل دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ 1993 سے سال 2019 تک مہاراشٹر میں سیور صفائی کے دوران ہوئی 25 لوگوں کی موت کے معاملے میں کسی بھی متاثرہ فیملی کو 10 لاکھ روپے کا معاوضہ نہیں دیا گیا۔ وہیں، گجرات میں سیور میں 156 لوگوں کی موت کے معاملے میں صرف 53 اور اتر پردیش میں 78 موت کے معاملوں میں صرف 23 میں ہی 10 لاکھ کا معاوضہ دیا گیا۔
نئی دہلی: سال 1993 سے لےکر 2019 تک میں ملک بھر میں سیور صفائی کے دوران جتنی موتیں ہوئی ہیں، اس میں سے تقریباً 50 فیصد متاثرین کو پورے دس لاکھ روپے کا معاوضہ دیا گیا ہے۔ کئی معاملوں میں معاوضہ کےطور پر 10 لاکھ روپے سے کم کی رقم دی جا رہی ہے۔ دی وائر کے ذریعے دائر آر ٹی آئی کی درخواست کے ذریعے یہ جانکاری سامنے آئی ہے۔ سپریم کورٹ نے سال 2014 کے اپنے تاریخی فیصلے میں کہا تھا کہ اگر کسی فرد کی سیور صفائی کے دوران موت ہوتی ہے تو متاثرہ فیملی کو 10 لاکھ کا معاوضہ دینا ہوگا۔
حالانکہ مرکز کے قومی صفائی کرمچاری کمیشن (این سی ایس کے)نے آر ٹی آئی کے تحت بتایا کہ ریاستوں کے ذریعے دی گئی جانکاری کے مطابق ملک کے 20 ریاستوں نے 1993 سے لےکر اب تک کے سیور صفائی کے دوران کل 814 لوگوں کی موت ہونے کی جانکاری دی ہے اور اس میں سے صرف 455 معاملوں میں ہی پورے 10 لاکھ کا معاوضہ دیا گیا ہے۔حالانکہ سیور اموات کا یہ اعداد و شمار ابھی کافی ادھورا ہے اور کمیشن باقی جانکاری جمع کرنےکے لئے ریاستوں کو لگاتار خط لکھ رہا ہے۔ قومی صفائی کرمچاری کمیشن وزارت سماجی انصاف و تفویض اختیارات، حکومت ہند کے تحت کام کرتا ہے۔ کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک بھر میں سیور صفائی کے دوران ہونے والی اموات کے معاملات کی مانیٹرنگ کریں اور اس سے متعلق اعداد و شمار اکٹھا کریں۔
واضح ہو کہ 27 مارچ 2014 کو سپریم کورٹ نے صفائی کرمچاری آندولن بنام حکومت ہند کے معاملے میں حکم دیا تھا کہ سال 1993 سے مین ہول، سیپٹک ٹینک میں مرنے والے تمام افراد کے اہل خانہ کی شناخت کریں اور ان کی بنیاد پر فیملی کے ممبروں کو 10-10 لاکھ روپے کامعاوضہ فراہم کیا جائے۔لیکن دی وائر کے ذریعے حاصل کئے گئے دستاویز دکھاتے ہیں کہ کئی سارےمعاملوں میں متاثرین کو دس لاکھ روپے کے بجائے اس سے کم جیسے کہ چار لاکھ روپے، پانچ لاکھ روپے، یہاں تک کہ دو لاکھ روپے تک کا معاوضہ دیا جا رہا ہے۔معاوضہ دینے کی ذمہ داری سے متعلق فرد جیسے کہ کانٹریکٹر، میونسپل کارپوریشن، ضلع انتظامیہ، ریاستی حکومت پر ہوتی ہے۔ کمیشن کے ذریعے دئے گئے اعداد و شمار کے مطابق سیور میں دم گھٹنے سے سب سےزیادہ 206 موتیں تمل ناڈو میں ہوئی ہیں لیکن اس میں سے صرف 162 معاملوں میں ہی متاثرہ فیملی کو پورے 10 لاکھ کا معاوضہ دیا گیا ہے۔
اس معاملے میں گجرات کی حالت کافی خراب ہے۔ یہاں پر اب تک کل 156 لوگوں کی موت سیور صفائی کے دوران ہونے کی شناخت کی گئی ہے، لیکن صرف 53 معاملوں میں یعنی کہ تقریباً 34 فیصد متاثرہ فیملی کو ہی پورے 10 لاکھ کا معاوضہ دیا گیا ہے۔اتر پردیش کی بھی حالت کچھ ایسی ہی ہے۔ یہاں پر کل 78 لوگوں کی موت سیور صفائی کے دوران ہونے کی شناخت کی گئی ہے اور صرف 23 معاملوں یعنی کہ تقریباً 30 فیصد متاثرہ فیملی کو ہی 10 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا گیا ہے۔ صفائی کرمچاری کمیشن کے ایک افسر نے بتایا کہ وہ لگاتار ریاستوں کو خط لکھ رہے ہیں کہ جن معاملوں میں 10 لاکھ سے کم کامعاوضہ دیا گیا ہے، ان کو سپریم کورٹ کے حکم کے تحت پورے 10 لاکھ کا معاوضہ دیا جائے۔ دی وائر نے اس سے متعلق کمیشن کےچیئرمین منہر وال جی بھائی جالا سے پیغام اور کال کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ملک کی راجدھانی میں پانچ جولائی 2019 تک سیور اموات کے کل 49 معاملے سامنےآئے تھے جس میں سے صرف 28 معاملوں میں ہی10 لاکھ کا معاوضہ دیا گیا۔ حالانکہ گزشتہ ستمبر کے مہینے میں جالا نے کہا تھا کہ اب تک دہلی میں سیور صفائی کے دوران کل64 لوگوں کی موت ہوئی ہے، جس میں سے 46 کی فیملی کو 10-10 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جا چکا ہے۔ سیور صفائی کے دوران ہونے والی اموات کا معاملہ کتنا سنگین ہے اس کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی میں گزشتہ دو سالوں میں ہی 38 صفائی ملازمین کی سیور صفائی کے دوران موت ہو چکی ہے۔
دیگر ریاستوں کو اگر دیکھیں تو ہریانہ میں اب تک کل سیور صفائی کے دوران 70 لوگوں کی موت ہوئی ہے، جس میں سے 51 متاثرہ فیملی کو ہی 10 لاکھ کا معاوضہ دیا گیا ہے۔ وہیں کرناٹک میں اب تک کل سیور صفائی کے دوران 73 لوگوں کی موت ہوئی ہے، جس میں سے 64 معاملوں میں ہی پورے 10 لاکھ کا معاوضہ دیا گیا۔ مہاراشٹر ریاست کا معاملہ کافی چونکانے والا ہے۔ یہاں پر اب تک کل 25 لوگوں کی موت سیور صفائی کے دوران ہوئی، لیکن ایک بھی متاثرہ فیملی کو 10 لاکھ کا معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔مدھیہ پردیش میں اس طرح کے کل سات معاملے آئے ہیں اور ساتوں معاملے میں 10 لاکھ روپے دئے گئے ہیں۔ پنجاب میں کل 35 لوگوں کی موت سیور صفائی کے دوران ہوئی اور صرف 25 معاملوں میں ہی 10 لاکھ کا معاوضہ دیا گیا ہے۔ وہیں راجستھان میں کل 38 لوگوں کی موت کے معاملے سیور صفائی کے دوران آئے ہیں لیکن صرف 8 متاثرہ فیملی کو ہی پورے 10 لاکھ کا معاوضہ دیا گیا ہے۔
اسی طرح تلنگانہ میں چار، تریپورہ میں دو، اتراکھنڈ میں 6 اور مغربی بنگال میں 18 لوگوں کی موت سیور صفائی کے دوران سامنے آئی ہے، لیکن ان ریاستوں میں بالترتیب : دو، زیرو، ایک اور 13 معاملوں میں ہی پورے 10 لاکھ کا معاوضہ دیا گیا۔ سماجی کارکنان اور متاثرین کی یہ شکایت رہتی ہے کہ سیور صفائی کے دوران موت کے معاملوں میں ذمہ دار لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے اور تھوڑامعاوضہ دےکر معاملہ رفع-دفع کر دیا جاتا ہے۔ الزام ہے کہ پولیس بھی ان معاملوںمیں صحیح سے تفتیش نہیں کرتی ہے۔غلاظت ڈھونے کی روایت کو ختم کرنے کی سمت میں کام کر رہی غیر سرکاری تنظیم صفائی کرمچاری آندولن کے بانی بیجواڑا ولسن نے کہا، ‘یہ موضوع حکومت کی ترجیح میں ہی نہیں ہے۔ معاوضہ دیا توبھی ٹھیک ہے، نہیں دیا توبھی ٹھیک ہے۔ حکومت کی ترجیحات بیت الخلا بنانے کی ہے، صفائی ملازمین کی حالت ٹھیک کرنے کی نہیں۔ ‘
ولسن کورٹ کے طریقہ کار پر بھی مایوسی کا اظہار کرتے ہیں،انہوں نے کہا، ‘ کورٹ کواس بات کا نوٹس لینا چاہیے تھا کہ آخر کیوں ان کے حکم پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ کیاان کو اس کی جانکاری نہیں ہے؟ عدالتیں صرف یہ کہتی ہیں کہ یہ صحیح نہیں ہو رہا ہے،اتنا کہنے سے کسی حکم پر عمل نہیں ہوتا، ان کو اس کے لئے وقت طے کرنا چاہیے۔صفائی ملازمین کی موت کے لئے ذمہ دار ایک بھی فرد پر آج تک کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ ‘مرکز نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ ان معاملوں میں کسی فرد پر کوئی کارروائی ہوئی ہے یا نہیں، اس کی ان کو جانکاری نہیں ہے۔ حکومت نے لوک سبھا میں بتایا کہ غلاظت ڈھونے والوں کو کام پر رکھنے کے لئے کسی بھی فرد کو قصوروار ٹھہرانے یا سزادینے کے متعلق کوئی جانکاری نہیں ہے۔
واضح ہو کہ حال ہی میں سیور صفائی کے دوران ہونے والی اموات کو لےکرسپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو کڑی پھٹکار لگاتے ہوئے کہا، دنیا کے کسی ملک میں لوگوں کو مرنے کے لئے گیس چیمبرس میں نہیں بھیجا جاتا ہے۔ ہر مہینے میلا ڈھونے کےکام میں لگے چار سے پانچ لوگوں کی موت ہو رہی ہے۔’ سیور سے متعلق اموات سے جڑے اعداد و شمار اکٹھا کرنے کو لےکر بھی سوال اٹھتے رہے ہیں۔ کمیشن یہ جانکاری ریاستوں، اخبار یا کسی کے ذریعے دی گئی جانکاری کی بنیاد پر اکٹھا کرتے ہیں۔
ایک افسر نے بتایا کہ کمیشن میں کل چار اخبار آتے ہیں اسی کی بنیاد پر یہ جانکاری لی جاتی ہے اور متعلقہ محکمہ کو لکھا جاتا ہے۔سیور سے متعلق اموات کی جوجانکاری اس میں نہیں ہوتی ہے ہمیں اس کے بارے میں پتہ نہیں چل پاتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1993 سے لےکر اب تک میں کل 814 صفائی ملازمین کی سیور صفائی کے دوران موت ہوئی ہے۔ حالانکہ صفائی کرمچاری آندولن کا دعویٰ ہے کہ تقریباً 1870 موتیں ہونے کےمعاملے سیور صفائی کے دوران آئے ہیں۔ ولسن نے کہا کہ ان کے پاس سیور صفائی کے دوران1096 اموات کے ثبوت ہیں اور انہوں نے اس سے متعلق ساری جانکاری وزارت کو دے دی ہے۔
کمیشن کے اختیارات کافی محدود ہیں
اصول کے مطابق دیکھیں تو قومی صفائی کرمچاری کمیشن کا کام نگرانی اور ہدایات دینا ہے۔ اس کے پاس ان ہدایتوں کو نافذ کرانے کی طاقت نہیں ہے۔ضلع سطح پر افسر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ حقدار لوگوں کو معاوضہ دیا جائے۔ 12 اگست 1994 کو صفائی کرمچاری کمیشن کی تشکیل ایک آئینی ادارہ کے طور پر تین سال کے لئے کیا گیا تھا۔حالانکہ وقفہ وقفہ سے ترمیم کرکے اس کی معینہ مدت کو بڑھایا جاتا رہا ہے۔ موجودہ وقت میں یہ غیر-آئینی ادارہ کے طور پر کام کر رہا ہے۔
بتا دیں کہ مینول اسکیوینجنگ ایکٹ 2013 کے تحت کسی بھی فرد کو سیور میں بھیجنا پوری طرح سے ممنوع ہے۔ اگر کسی عجیب صورتحال میں صفائی ملازم کو سیور کے اندر بھیجا جاتا ہے تو اس کے لئے 27 طرح کے اصولوں پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ سیور میں اندر گھسنے کے لئے انجینئر کی اجازت ہونی چاہیے اور پاس میں ہی ایمبولینس ہونی چاہیے تاکہ حادثہ کی حالت میں جلد ہاسپٹل پہنچایا جا سکے۔
سیور ٹینک کی صفائی کے دوران خصوصی سوٹ، آکسیجن سلینڈر، ماسک، گم شوز،سیفٹی بیلٹ اور ایمرجنسی کی حالت کے لئے ایمبولینس کو پہلے مطلع کرنے جیسے اصولوں پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ حالانکہ ایسے کئی سارے معاملے ہیں، جس میں یہ پایا گیا ہے کہ ان اصولوں پر عمل نہ تو سرکاری ایجنسی کر رہی ہیں اور نہ ہی نجی ایجنسیاں۔
Categories: خبریں