خبریں

فرقہ وارانہ فسادات میں بہار اول کیوں ہے؟

 ایک سال کی تاخیرسے جاری کئے گئے این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق،سال 2017 میں ملک میں فسادات کے کل 58729 معاملے درج کیے گئے۔ ان میں سے 11698 فسادات بہار میں ہوئے۔2017 میں ہی ملک میں کل 723 فرقہ وارانہ / مذہبی فسادات ہوئے۔ ان میں سے اکیلے بہار میں 163 معاملے ہوئے، جو کسی بھی صوبے سے زیادہ ہے۔

 نتیش کمار(فوٹو : پی ٹی آئی)

نتیش کمار(فوٹو : پی ٹی آئی)

اسی سال ایک ٹی وی پروگرام میں بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے کہا تھا کہ ان کی مدت کار میں صوبے میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے، لیکن نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(این سی آر بی)کے تازہ اعداد و شمار نہ صرف ان کے دعویٰ کو خارج کررہے ہیں، بلکہ اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس معاملے میں بہار اول ہے۔تقریباً ایک سال کی تاخیرسے جاری کئے گئے این سی آر بی کے اعداد و شمار کےمطابق، سال 2017 میں ملک بھر میں فسادات کے کل 58729 معاملے درج کیے گئے۔ ان میں سے 11698 فسادات بہار میں ہوئے۔

اس بار این سی آر بی کی رپورٹ میں فرقہ وارانہ/مذہبی فسادات کے لئے الگ کالم بنایا گیا ہے اور ان کو عام فسادات سے الگ رکھا گیا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2017 میں ملک میں کل 723 فرقہ وارانہ / مذہبی فسادات ہوئے۔ ان میں سے صرف بہار میں فرقہ وارانہ/مذہبی فسادات کے163 معاملے ہوئے، جو ملک کے کسی بھی صوبے سے زیادہ ہے۔ان فسادات سے 214 لوگ متاثرہوئے۔

فرقہ وارانہ/مذہبی فسادات کے معاملے میں دوسرے مقام پر کرناٹک، تیسرےپر اڑیسہ، چوتھے پر مہاراشٹر اور پانچویں مقام پر جھارکھنڈ ہے۔ کرناٹک میں فرقہ وارانہ /مذہبی تشدد کے 92 واقعات، اڑیسہ میں 91، مہاراشٹر میں71 درج کئے گئے۔ اتر پردیش میں فرقہ وارانہ /مذہبی فسادات کے 34 واقعات ہوئے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 2016 کے مقابلے دیگرریاستوں میں اس طرح کی واردات کم ہوئی ہیں۔

این سی آر بی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2016 میں فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے ہریانہ اول تھا۔ وہاں فرقہ وارانہ تشددکے 250 واقعات ہوئے تھے لیکن، اس میں کافی کمی آئی ہے۔ سال 2017 میں ہریانہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے محض 25 واقعات ہوئے۔اسی طرح جھارکھنڈ میں 2016 میں فرقہ وارانہ تشدد کی 176 واردات درج کی گئی تھیں، جو سال 2017 میں گھٹ‌کر 66 پر آ گئیں۔ لیکن، اس کے برعکس بہار میں اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ سال 2016 میں بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کے 139 واقعات ہوئے تھے، جو سال 2017 کے مقابلے 24 کم تھے۔

2016 سے پہلے کے سالوں میں بھی بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کم ہوئے تھے۔27 نومبر 2012 کو لوک سبھا میں اس کو لےکر پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں وزارت داخلہ کی طرف سے دئے گئے اعداد و شمار کے مطابق، سال 2009 اور 2010 میں بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کے 40-40 واقعات درج ہوئے تھے۔ وہیں، سال 2011 میں فرقہ وارانہ تشدد کے 26 واقعات ہوئے تھے۔

 سال 2012 میں بھی فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں گراوٹ آئی تھی۔ اعداد و شمار کے مطابق، سال 2012 میں بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کی 21 واردات ہوئی تھیں، جن میں تین لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ حالانکہ سال 2013 میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہوا تھا۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس سال فرقہ وارانہ تشدد کے 63 واقعات ہوئےتھے۔

جانکاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ، بہار میں مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ مذہبی تقریبات میں کھلےعام اشتعال انگیز گانے بجائے جاتے ہیں اورقابل اعتراض نعرے لگتے ہیں۔ جن کا حشر دو کمیونٹی کے درمیان کشیدگی اور تشدد کےطور پر سامنے آ رہا ہے۔ این سی آر بی کے اعداد و شمار اسی ٹرینڈ کی تصدیق کرتےہیں۔قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال ہی رام نومی کے وقت بہار کے آدھا درجن اضلاع میں فرقہ وارانہ فسادات ہو گئے تھے اور فسادات کا ٹرینڈ کم وبیش ایک سا تھا۔ ایک جلوس نکلتا ہے…اشتعال انگیز گانے بجتے ہیں…ایک افواہ اڑتی ہے اور پھر بھیڑ بےقابوہوکر توڑپھوڑ-پتھربازی شروع کر دیتی ہے۔

گزشتہ سال درگا پوجا میں مورتی وسرجن کے جلوس کے دوران سیتامڑھی شہر میں فساد ہو گیا تھا، جس میں ایک مسلم بزرگ کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس فساد کو لےکرموقع پر تعینات پولیس اہلکاروں نے اپنے تحریری بیان میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ جلوس میں شامل لوگ بےحد قابل اعتراض نعرے لگا رہے تھے۔ سیتامڑھی میں ہوئی واردات کے متعلق ضلع کے ڈمرا بلاک کے بلاک ڈیولپمنٹ افسرمکیش کمار نے اپنے بیان میں لکھا تھا، ‘ میرے اور تھانہ انچارج(سیتامڑھی)کے ذریعے ہنومان جی کی مورتی کا جائزہ لیا گیا۔پاروتی ہنومان جی کی مورتی کے دونوں داہنے ہاتھوں پر گرد(دھول)جیسا نشان بنا ہوا تھا، جبکہ دونوں بائیں ہاتھ محفوظ تھے۔ ‘

انہوں نے اپنے بیان میں لکھا تھا کہ مورتی توڑنے کی افواہ کے بعد بھیڑ سےایک آدمی مائیک لےکر چلانے لگا، ‘اے! ہندو کے بچوں، تم موگا ہو گئے ہو۔ پرتیماکا ہاتھ ٹوٹ گیا ہے اور تم لوگ چپ چاپ ہو، اس کا بدلہ لو۔ ایک ایک میاں کو کاٹ دو،مسجد کو توڑ دو۔ ‘گزشتہ 10 اکتوبر کو پٹنہ سے سٹے جہان آباد شہرمیں درگا مورتی کے وسرجن کے وقت زبردست تشدد ہوا تھا۔ ایک سے دو شخص کی موت ہوئی۔کئی مذہبی مقامات میں توڑپھوڑ کی گئی تھی اور تین درجن دکانیں لوٹ لی گئی تھیں۔حالات اتنے نازک ہو گئے تھے کہ پورے شہر میں کئی دنوں تک کرفیو لگا رہا اور کچھ دن کے لئے انٹرنیٹ خدمات بھی بند کرنی پڑی تھی۔

 ڈیڑھ ہفتے تک جہان آباد شہر میں دفعہ 144 نافذ رہی۔ اب حالات پٹری پرلوٹنے ضرور لگے ہیں، لیکن لوگوں کے دل میں خوف اب بھی طاری ہے۔جہان آباد کا تشدد بھی مورتی پر پتھراؤ کرکے اس کو برباد کرنے کی افواہ سےشروع ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر جلنے لگا۔ موقع واردات سے آدھاکیلومیٹر دور واقع علاقوں میں بھی فسادی بھیڑ نے توڑپھوڑ مچائی تھی۔بتایا جاتا ہے کہ 10 اکتوبر کی صبح درگا پرتیما وسرجن کے لیے جارہی تھی ۔شہر کی کچی مسجد کے پاس مورتی روک دی گئی تھی ۔اسی وقت یہ افواہ اڑی کہ مورتی پر پتھربازی ہوئی ہے، جس سے مورتی ضائع ہو گئی ہے۔

اس کے بعد کچھ لوگوں کی بھیڑ چیختی ہوئی مسجد اور دکانوں کو نشانہ بنانےلگی۔ یہ واردات صبح 6 بجے کے آس پاس ہوئی تھی، لیکن اس وقت تھمی نہیں بلکہ 9 سے 11 بجے کے درمیان الگ الگ علاقوں میں دکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جہان آباد ٹاؤن تھانہ انچارج ستیندر کمار ساہی نے پتھربازی اور مورتی ٹوٹنے کے واقعہ سے پوری طرح انکار کیا اور کہا، ‘نہ مورتی پر پتھر پھینکا گیا تھااور نہ ہی مورتی ٹوٹی تھی۔ ‘اس تشدد میں جن دکانداروں کی دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے، وہ تمام غریب طبقے سے ہیں۔ واقعہ کے بعد ان کے گھروں کا چولہا مشکل سے جل پا رہا ہے۔

 کچی مسجد سے تھوڑی دور پچ محلا میں شمیم احمد کی ٹیلرنگ کی دکان تھی۔فسادیوں نے دکان توڑ‌کر سامان لوٹ لیا اور دکان کو آگ کے حوالے کر دیا۔ شمیم ابھی تک دکان شروع نہیں کر پائے ہیں۔وہ کہتے ہیں،’12 دن سے دکان بندہے۔ دکان میں کچھ بھی نہیں چھوڑا گیا ہے کہ اس کو کھولا جائے۔ دکان دوبارہ چالوکرنے کے لئے سب کچھ خریدنا ہوگا۔ اتنی پونجی نہیں ہے کہ ڈیڑھ-دو لاکھ لگا دوں۔ 12 دن سے گھر میں بیٹھا ہوا ہوں۔ قرض لےکر چولہا جل رہا ہے۔ ‘

جانکار بہار میں فساد کے واقعات میں اضافے کے پیچھے آر ایس ایس  اور دیگر تنظیموں  کےعروج کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ پٹنہ کے ڈی ایم دواکر کہتے ہیں،’حال کے سالوں میں جس طرح سے مذہبی پروگراموں میں شدت  پسندی  بڑھی ہے۔ پچھلی رام نومی میں پٹنہ میں ننگی تلواریں لےکر رام نومی کا جلوس نکالا تھا۔ اس سے صاف ہے کہ بی جے پی اب پہلے جیسی نہیں ہے۔ وہ بہارمیں خود کو مضبوط کر رہی ہے اور فسادات، دو کمیونٹی میں کشیدگی سے اس کو مضبوطی ملتی ہے۔ ‘

غور طلب ہے کہ اس سال 18 مئی کو ریاستی پولیس کے اسپیشل برانچ کے ایس پی نے بہار کے تمام اضلاع کے ڈی ایس پی کو آر ایس ایس سمیت 18 ہندتووادی تنظیموں  کے بارے میں جانکاری اکٹھا کرنے کو کہا تھا۔اس خط میں آر ایس ایس کے ساتھ ہی اس سے جڑےبجرنگ دل، وشو ہندو پریشد، ہندوجاگرن سمیتی، دھرم جاگرن سمنیو سمیتی، ہندو راشٹر سینا، راشٹریہ سیویکا سمیتی،شکشا بھارتی ، مسلم راشٹریہ منچ، درگا واہنی، سودیشی جاگرن منچ، بھارتیہ کسان سنگھ، بھارتیہ مزدور سنگھ، بھارتیہ ریل سنگھ، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد، اکھل بھارتیہ شکشک مہاسنگھ، ہندو مہاسبھا، ہندو یووا واہنی اور ہندو پتر سنگھ کا ذکرکیا گیا تھا۔

ایس پی نے اس حکم کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے فوری کارروائی کرنے کو کہا تھا۔ان تنظیموں  کے بارے پولیس اس لئے بھی جانکاری جٹا رہی تھی، کیونکہ کئی فسادات میں ان تنظیموں  کے ملوث ہونے کی بات سامنے آئی تھی۔ بہار میں فرقہ وارانہ فسادات کو لےکر آرجے ڈی رہنما تیجسوی یادو نے ٹوئٹر پرلکھا ہے، ‘بہار کے قصہ گو سی ایم کو دلی مبارکباد۔ ان کے اتھک پلٹی مار کوششوں سے ملک بھر میں بہار کو دنگوں میں اول  مقام  ملا ہے۔ مرڈر میں دوئم ،متشدد جرائم  میں دوئم  اور دلتوں کے خلاف جرائم  میں بھی بہار نمایاں طور پردوسرے مقام پر ہے۔ 15 سال  سے وزارت داخلہ  انہیں کے ذمے ہے۔ ‘

لیکن، حیران کرنے والے اعداد و شمار کے باوجود بہار حکومت اس کو لےکرفکرمند نہیں ہے۔ بی جے پی کے سینئر رہنما ڈاکٹر پریم کمار سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، ‘بہار میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ ‘

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)