نوٹ بندی کے وقت کہا گیا تھا کہ اس کےدور رس نتائج ہوںگے۔ تین سال ہو گئے، آئندہ کتنے سال میں آئےگا دوررس؟
8 نومبر2016 کو ہندوستان نے اقتصادی طور پر ایک احمقانہ تاریخی قدم اٹھایا تھا۔ جس کو آپ نوٹ بندی کے نام سے جانتے ہیں۔ امریکہ ہوتا تو وہاں کی پارلیامنٹ میں اس فیصلے کو لےکر مواخذہ (Impeachment)چل رہا ہوتا مگرہندوستان میں اقتصادی حماقت کے اس فیصلے نے نریندر مودی کو ایک کے بعد ایک بڑی سیاسی کامیابی دی۔نوٹ بندی کے وقت کہا گیا تھا کہ اس کےدوررس نتائج ہوںگے۔ کیا ہم نوٹ بندی کے تین سال بعد نوٹ بندی کے دوررس نتائج پر تبادلہ خیال کر سکتے ہیں؟
سینٹر فار مانیٹرنگ کے اعداد و شمارمسلسل بتا رہے ہیں کہ نوٹ بندی کے بعد کروڑوں کی تعداد میں نوکریاں گئی ہیں۔تازہ اعداد و شمار خوفناک ہیں۔ مئی سے لےکر اگست 2019 کے درمیان 59 لاکھ لوگوں کو فیکٹری اور خدمات کےشعبوں سے نکال دیا گیا۔
میں اپنے گاؤں گیا تھا۔ وہاں ملنے آئےکئی نوجوانوں نے بتایا کہ نوئیڈا کی آئی ٹی کمپنیوں میں تنخواہ وقت سے نہیں مل رہی ہے۔ دو-دو مہینے کی تاخیر ہو رہی ہے۔ دو سال سے تنخواہ نہیں بڑھی ہے۔ وہ نوجوان گاؤں اس لئے آ گیا کیونکہ کوئی اور جگہ ہے نہیں۔ کم سے کم سستے میں رہ تو سکتا ہے۔ 7 نومبر کو ایک شخص کا پیغام آیا کہ موبائل فون بنانے والی کمپنیوں سے بھی لوگوں کو دھڑادھڑ نکالا جا رہا ہے۔ ایک اعداد و شمار یہ بھی کہتا ہے کہ دیہی علاقوں میں کام ملا ہے لیکن وہاں مزدوری گھٹ گئی ہے۔ کم پیسے پر زیادہ کام کرنے والے ہیں۔
باقی نکسل اور دہشت گردی کو ختم کرنے کی بات فراڈ تھی اور کیش ختم کرنے کی بھی۔ نکسل کامسئلہ ختم ہو گیا ہوتاتو الیکشن کمیشن کو جھارکھنڈ جیسی چھوٹی ریاست میں پانچ مرحلوں میں انتخاب کرانےکی دلیل نہیں دینی پڑتی۔ وہ بھی تب جب وزیراعلیٰ کہہ رہے ہوں کہ جھارکھنڈ میں نکسل کا مسئلہ ختم ہو گیا ہے۔دہشت گردی کا یہ حال ہے کہ حکومت کو نوٹ بندی کے تین سال بعد کشمیر میں 90 سے زیادہ دنوں کے لئے انٹرنیٹ بند کرناپڑا ہے۔
نوٹ بندی نے ایک بات ثابت کی ہے۔ہندوستان کی عوام کو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ اپنا سب کچھ گنواکر لائن میں لگی عوام وزیر اعظم مودی کے اس فیصلے کی واہ واہی کر رہے تھے۔ بینکروں کی آنکھوں پر بھی چشمہ لگا تھا۔وہ اپنی جیب سے نوٹوں کی گنتی میں ہوئی چوک کی بھرپائی کر رہے تھے۔ ان کو لگ رہاتھا کہ کسی انقلابی کام میں حصہ لے رہے ہیں۔ نوٹ بندی کے بعد سب سے پہلے بینک ہی برباد ہوئے۔ بینکروں کی تنخواہ تک نہیں بڑھی۔
8 نومبرکو ایک اور خبر آئی ہے۔ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ہندوستان کے قرض چکانے کی صلاحیت کونیگیٹو کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پانچ سہ ماہی سے آ رہی معیشت میں ڈھلان سے قرض بڑھتا ہی جائےگا۔ 2020 میں بجٹ گھاٹہ جی ڈی پی کا 3.7فیصد ہو جائےگا جو 3.3فیصد رکھنے کے حکومت کے ہدف سے بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کی جی ڈی پی 6سال میں سب سے کم 5فیصد ہو گئی ہے۔ اس کے 8فیصد تک پہنچنے کےچانس بہت کم ہیں۔ فتچ اور ایس اینڈ پی دو الگ ریٹنگ ایجنسیاں ہیں۔ ان کے مطابق ہندوستان کی معیشت میں استحکام نہیں ہے۔
ظاہر ہے اگر غیر ملکی سرمایہ کاروں کویہ بتایا جائے کہ آپ ہندوستان میں پیسے لگائیںگے تو رٹرن کا بھروسہ نہیں تو اس ریٹنگ سے حکومت بھی فکرمند ہوگی۔ اس لئے صبح ہی وزارت خزانہ کا بیان آ گیا، جس میں کہا گیا کہ موڈی نے ضرور نیگیٹو کیا ہے لیکن غیر ملکی کرنسی کے زخیرے اور مقامی کرنسی کے زمرے کی ریٹنگ میں تبدیلی نہیں کی ہے۔ اس کی ریٹنگ عدم استحکام بتا رہی ہے۔ اس کے بعد وزارت خزانہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان ابھی بھی دنیا کی سب سے تیز رفتار سے بڑھتی ہوئی معیشت ہے۔ہماری جی ڈی پی 5 فیصد پر آ گئی ہے اور حکومت دنیا کی تیزرفتار سے بڑھتی معیشت بتا رہی ہے۔
وزارت خزانہ یہ بھی بتا دیتی کہ وہ سیکٹر-سیکٹر پیکج پیکج کیوں بانٹ رہی ہے۔ کیا یہی تیز رفتاری سے بڑھتی معیشت کی نشانی ہے کہ حکومت ریئلٹی سے لےکر بینک سیکٹر کو پیکج دیتی رہے؟دنیا کے 100امیر لوگوں میں سے ایک اورگلوبل سرمایہ کار رے ڈالیو(Ray Daloi) نے وزیر اعظم مودی کی تعریف میں ٹوئٹ کیا ہے۔ مگر آپ اس شخص کی تفصیل دیکھیے۔ ٹوئٹ ہندوستان کو لےکر کرتا ہے اور اپنی زیادہ تر سرمایہ کاری چین میں کرتا ہے۔ اسی سال اگست میں اس کا بیان ہے کہ سرمایہ کاروں کو چین کی طرف جانا چاہیے ورنہ وہ سلطنت گنوا دیںگے۔
ایسے لوگوں کے کھیل کو سمجھنا چاہیے۔ریٹنگ ایجنسی بھی خدا نہیں ہے۔ 2008 کی مندی کی بھنک تک نہیں تھی ان کو،لیکن ہندوستان کے زمینی حالات بتا رہے ہیں کہ ہماری معیشت وزیر اعظم مودی کےفیصلوں کی وجہ سے پست ہوئی ہے۔ نوٹ بندی ان میں سے ایک ہے۔ ویسے کہا تو انہوں نے یہی تھا کہ پائی-پائی کا حساب دیںگے لیکن ایک پائی کا حساب نہیں دیا۔ قارئین ہی بتا سکتے ہیں کہ جن سیکٹرمیں آپ کام کر رہے ہیں، وہاں کیسی خبریں ہیں، تنخواہ وقت سے مل رہی ہے یا نہیں،تنخواہ بڑھنی بند ہو گئی اور کام کے گھنٹے بڑھ گئے ہیں، کام کرنے کے حالات میں تناؤ کا عنصر زیادہ ہو گیا ہے۔
کس کی نوکری چلی گئی تو وہ اپنا وقت کیسے گزار رہا ہے۔ ہم 59 لاکھ لوگوں سے تو مل نہیں سکتے جن کےمئی سے اگست کے درمیان نوکری چلی گئی ہے۔ ساڑھے پانچ سال بیت گئے ہیں۔ کب تک جھوٹ کو گودی میڈیا کے سہارے چھپایا جائےگا۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر