بھوپال گیس متاثرین کے مفادات کے لئے کام کرنے والی چار تنظیموں نے کہا کہ زہریلے کچرے کو غیر محفوظ طریقے سے دبانے کی وجہ سے ہی آج کارخانے سے چار سے پانچ کیلومیٹر کی دوری تک گراؤنڈ واٹرآلودہ ہو گیا ہے۔
نئی دہلی: دنیا کی خوفناک صنعتی ٹریجڈی میں سے ایک ‘ بھوپال گیس حادثہ ‘ کی35ویں برسی پر یونین کاربائیڈ کے زہریلے کچرے سے آلودہ گراؤنڈ واٹر کےمتاثرین نے مدھیہ پردیش کے بھوپال میں کارخانے کے پاس ہیومن چین بناکر مظاہرہ کیا۔مظاہرین نے مرکز اور مدھیہ پردیش حکومت سے مانگ کی کہ آلودہ گراؤنڈ واٹرمتاثرین کو مفت علاج، آلودہ علاقے کے زہر کی صفائی اور یونین کاربائیڈ کے موجودہم الک ڈاو کیمیکل کمپنی سے فوراً ان کو اور معاوضہ دلایا جائے۔
گزشتہ اتوار کو ہوا یہ مظاہرہ اس گیس حادثہ کے متاثرین کے مفادات کے لئےکام کرنے والی چار تنظیموں کی رہنمائی میں کیا گیا۔ تنظیموں کے رہنماؤں نے کہا، ‘بھوپال میں یونین کاربائیڈ حادثے کی 35ویں برسی کے پہلے اس مظاہرہ کے ذریعے آلودہگراؤنڈ واٹرمتاثرین نے مفت علاج،آلودہ علاقے کے زہر کی صفائی اور یونین کاربائیڈ کے موجودہ مالک ڈاؤ کیمیکل کمپنی سے معاوضہ کی مانگ کی۔’
اس کے ساتھ ساتھ تنظیموں نے مدھیہ پردیش حکومت پر الزام لگایا کہ وہ کارخانے کے آلودہ احاطے پر حادثے کی یادگار بناکر اب تک جاری اس ماحولیاتی جرم کودبا دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ بھوپال گیس متاثر مہیلااسٹیشنری کرمچاری سنگھ کی صدر رشیدہ بی نے کہا،’1984 تک جراثیم کش کارخانے کے بےشمار زہریلے کچرے کو احاطے کے اندر اور 1996 میں کارخانے کے باہر غیرمحفوظ طریقے سے دبانے کی وجہ سے ہی آج کارخانے سے چار کیلومیٹر دوری تک گراؤنڈ واٹرکیمیاوی زہر سے آلودہ پایا گیا ہے۔ ‘
انہوں نے کہا کہ 1990 سے لےکر حال تک سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ذریعے کئے گئے 16 مطالعوں میں یہ پایا گیا ہے کہ 30 میٹر سے زیادہ گہرائی اور کارخانے سے کئی کیلومیٹر دور تک گراؤنڈ واٹر کےنمونوں میں جراثیم کش، بھاری دھات اور ایسی زہریلی کیمیا ہیں جو انسانی جسم میں اکٹھا ہوتے جاتے ہیں اور جن کا زہریلاپن لمبے وقت تک بنا رہتا ہے۔بھوپال گیس متاثر مہیلا پروش سنگھرش مورچہ کے نواب خان نے دعویٰ کیا،’ مرکزی حکومت کا ادارہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹاکسی کالوجی ریسرچ نے بھوپال شہر کی کل ایک لاکھ کی آبادی والے 42 محلوں کے گراؤنڈواٹرکو آلودہ پایا ہے اور اس کاپھیلنا لگاتار جاری ہے۔ آج سب سے پہلے جو کام ہونا چاہیے، وہ ہے کارخانے سے پانچ کیلومیٹر تک کی دوری تک پھیلے علاقے کی سائنسی جانچ ہو۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ماحولیاتی پروگرام کے افسروں نے اس طرح کی سائنسی تفتیش کرنے کی تجویز بھیجی تھی، لیکن جب ہم اس وقت کے ماحولیاتی وزیر پرکاش جاویڈکر کے پاس اس تجویز کو لےکر گئے تو انہوں نے یہ کہہکر اس تجویز کو ٹھکرا دیاکہ غیر ملکی کو اس کام میں شامل کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ نواب خان نے کہا کہ مرکزی حکومت کے دو اداروں-مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈاور نیشنل انوائرمینٹل انجینئرنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے گراؤنڈ واٹرمیں بےحدزہریلے کیمیا کی موجودگی بتانے کے باوجود مرکزی حکومت اس ماحولیاتی حادثے کے بارےمیں خاموشی اختیار کیے ہوئی ہے۔
اس بیچ بھوپال گروپ فار انفارمیشن اینڈ ایکشن کے ممبر رچنا ڈھینگرا نےبتایا،’مدھیہ پردیش حکومت کے ذریعے 2005 میں کئے گئے ایک مطالعے میں یہ پایا گیا ہے کہ آلودہ گراؤنڈ واٹر پینے والے باشندوں میں آنکھ، جلد اور سانس اورہاضمہ کی بیماریاں ہو رہی ہیں۔ اس کے باوجود اور 2012 کے عدالت عظمیٰ کی واضح ہدایتوں کے باوجود 20 سال تک زہریلا پانی پینے والی10000 فیملی کو مرکز اور ریاستی حکومت کے ذریعے مفت علاج کی سہولت سےمحروم کیا جا رہا ہے۔’
چلڈرن اگینسٹ ڈاو کیمیکل نامی تنظیم کی ممبر نوشین خان نے کہا، ‘امریکہ اور ہندوستان میں قائم ‘ جو آلودگی کرے وہی حرجانہ بھرے ‘ کے عدالتی اصول کی بنیادپر آلودہ مٹی اور گراؤنڈ واٹر کو صاف کرنا اور آلودگی کی وجہ سے صحت کو پہنچے نقصان کے لئے معاوضہ دینا یونین کاربائیڈ کی قانونی ذمہ داری ہے۔ 2001 میں ڈاو کیمیکل نے یونین کاربائیڈ کمپنی کو خرید لیا پر اس نے غیر قانونی رویہ اپناتے ہوئے مٹی اور گراؤنڈ واٹر کی آلودگی کی ذمہ داری لینے سے منع کر دیا۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘یہ مرکز اور ریاست کی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ڈاوکیمیکل سے زہر کی صفائی اور متاثرین کے لئے معاوضہ وصول کرے۔ ایسا کرنے کے بدلےحکومت نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ آلودہ کارخانہ کے احاطے میں حادثے کی یادگار بناکرآلودگی پر پردہ ڈال دیا جائے۔ ‘واضح ہو کہ گیس متاثرین کے لئے کام کر رہی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ 2-3 دسمبر 1984 کی درمیانی رات کو یونین کاربائیڈ کے بھوپال واقع کارخانے سے رسی زہریلی گیس سے اب تک 20000 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں اور تقریباً 5.74 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
کچھ دن پہلے ہی گیس متاثرین کے لئے کام کرنے والی ان تنظیموں نے الزام لگایا تھا کہ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ نے ایک ایسے مطالعے کے نتائج کو دبایا،جس کی مدد سے ملزم کمپنیوں سے متاثرین کو اضافی معاوضہ دینے کے لئے دائر عرضی کو مضبوطی مل سکتی تھی۔اس کے علاوہ ان تنظیموں نے الزام لگایا تھا کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں ملزمین کے ساتھ ملکر کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے الزام ہے کہ مرکز اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں نے یونین کاربائیڈ اور اس کے موجودہ مالک ڈاو کیمیکل کے ساتھ سانٹھ گانٹھ جاری رکھی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کےان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں