خبریں

حیدرآباد انکاؤنٹر کے ایک دن بعد سی جے آئی بو لے-انصاف کو کبھی انتقام  کی جگہ نہیں لینا چاہیے

تلنگانہ میں خاتو ن ڈاکٹر سے ریپ  اور اس کے قتل کے ملزمین  کےپولیس انکاؤنٹر میں مارے جانے کے ایک دن بعد سی جے آئی شرد اروند بوبڈے نے کہا کہ میں یہ نہیں مانتا ہوں کہ انصاف کبھی بھی فوراً ہو سکتا ہے اور فوراً ہونا چاہیے۔ میرا ماننا ہے کہ انتقام  کی جگہ  لینے پرانصاف  اپنابنیادی تصور کھو دے گا۔

 جسٹس شرد ارویند بوبڈے۔ (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

جسٹس شرد ارویند بوبڈے۔ (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی  دہلی: تلنگانہ میں خاتون ڈاکٹرسے ریپ  اور اس کے قتل کے ملزمین  کے پولیس انکاؤنٹر میں مارے جانے کے ایک دن بعد ہندوستان کے چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے نے کہا کہ انصاف کو کبھی بھی انتقام  کی جگہ  نہیں لینا چاہیے۔

خبررساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق، راجستھان کے جئے پور میں ایک پروگرام  کو مخاطب  کرتے ہوئے سی جے آئی بوبڈے نے کہا، ‘ملک  میں ہوئے حالیہ وارداتوں نے پرانی بحث کو نئی طاقت دے دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مجرمانہ عدلیہ نظام کو خود میں بدلاؤ لانے کے لیے دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ لیکن میں یہ نہیں مانتا ہوں کہ انصاف کبھی بھی فوراً ہو سکتا ہے اورفوراً ہونا چاہیئے۔ انصاف  کو کبھی بھی بدلے کی جگہ نہیں لینا چاہیے۔ میرا ماننا ہے کہ بدلے کی جگہ لینے پر انصاف اپنا بنیادی تصور کھو دےگا۔’

انہوں نے کہا، ‘عدلیہ  کو خودکار اصلاحی تدابیر کونافذ کرنےکی ضرورت ہے۔ حالانکہ، یہ بحث کا موضوع  ہو سکتا ہے کہ ان تدابیر کو مشتہر کیا جانا چاہیے یا نہیں۔ لیکن، ادارے کو خود کوصحیح کرنا چاہیے جیسا کہ اس نے اس پریس کانفرنس کے دوران کیا تھا جس کی کافی تنقیدہوئی تھی۔ وہ خود میں اصلاح  لانے کی  ایک تدبیر تھی۔’

بتا دیں کہ گزشتہ 27 نومبر کی رات میں حیدرآباد شہر کے باہری علاقے میں سرکاری اسپتال میں کام کرنے والی 25 سالہ  خاتون ڈاکٹر سے  4 نوجوانوں نے ریپ کر کےاس کا قتل کر دیا تھا۔چاروں نوجوان لاری مزدور ہیں۔اس جرم کے سلسلے میں چاروں ملزم نوجوانوں کو 29 نومبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اگلے دن 30 نومبر کو ان سبھی کو 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا تھا۔

خاتون ڈاکٹر کے لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر درج کرنے میں لاپرواہی برتنے کے معاملے میں 3 پولیس اہلکاروں کو برخاست بھی کیا جا چکا ہے۔ 27 نومبر کی رات خاتون ڈاکٹر لاپتہ ہو گئی تھیں اور اگلی صبح ان کی جلی ہوئی لاش حیدرآباد کے شادنگر میں ایک زیر تعمیر فلائی اوور کے نیچے ملی تھی۔الزام ہے کہ 27 نومبر کی شام چاروں ملزمین نے جان بوجھ کر خاتون ڈاکٹر کی اسکوٹی پنکچر کی تھی اور پھر مدد کے بہانے ان کے ساتھ ریپ کیا اور قتل کر دیا۔پھر لاش کو جلا دیا۔

اس بیچ جمعہ کی صبح پولیس نے  ڈاکٹر کے ساتھ ریپ اور پھر اس کا قتل کرنے کے معاملے کے سبھی چار ملزمین کو مبینہ انکاؤنٹر میں مار گرانے کا دعویٰ کیا۔ اس بارے میں ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ واقعہ صبح ساڑھے چھے بجے کا ہے۔ جانچ کے لئے پولیس ملزمین کو واقعہ کے ری کریشن کے لئے جائے  واردات پر لے گئی تھی۔

انہوں نے کہا، ‘ انہوں نے (ملزمین) پولیس سے ہتھیار چھینے اور پولیس پر گولیاں چلائیں۔ ملزمین نے بھاگنے کی کوشش کی جس کے بعد پولیس نے جواب میں گولیاں چلائیں۔ اس دوران چاروں ملزم مارے گئے۔ ‘ افسر نے بتایا کہ اس واقعہ میں دو پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔

دریں اثنا

نیشنل ہیومن رائٹس  کمیشن (این ایچ آر سی) کے بعد، اب تلنگانہ ہائی کورٹ نے خاتون  ڈاکٹر سے ریپ اور اس کے قتل کے ملزمین کے مبینہ پولیس انکاؤنٹر  میں مارے جانے کے معاملے کا نوٹس  لیا ہے۔ جمعہ کو عدالت نے  رات 8 بجے کے بعد ایڈووکیٹ جنرل  کو طلب کیا تھا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو مطلع کیا کہ محبوب نگر کے سرکاری ضلع اسپتال میں پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے جو کہ ہاسپٹل کے سپرنٹنڈنٹ اور حیدر آباد کے گاندھی ہاسپٹل کے ایک فورینسک ٹیم کی دیکھ ریکھ میں ہو رہا ہے۔

اس کے بعد تلنگانہ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو خاتون  ڈاکٹر سے ریپ اور اس کے قتل کے ملزمین کے مبینہ انکاؤنٹر میں مارے جانے کے بعد ان کی لاشوں کو نو دسمبر رات آٹھ بجے تک محفوظ رکھنے کی ہدایت دی۔ ہائی کورٹ نے یہ حکم چیف جسٹس کے دفتر کو ملی ایک رپورٹ پر دیا، جس میں واقعہ پر عدالت کی  مداخلت کی مانگ کی گئی تھی۔ اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ نان جوڈیشیل  قتل ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)