اس پوری بحث میں عدلیہ کی آواز یاتوپوری طرح سے خاموش ہے یا پھر طاقتور انتظامیہ کے نیچے کہیں دب گئی ہے۔وہیں اگر آپ اس قانون کی تفہیم کا دائرہ بڑھائیں گے، جیسا کہ حکومت نے (این آر سی کو سی اے اے سے جوڑکر)یہ اعلانیہ طورپر کیا ہے، تویہ پورے ہندوستانی مسلمانوں کو دوسرے درجے کاشہری بناسکتا ہے۔
یہ عدلیہ کے لیے ایک نازک موڑ ہے کہ وہ غلطیاں نہ کرے اور ججوں کے لیے بھی کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو درست کریں۔ شہریت ایکٹ میں حالیہ ترمیمات نے کئی لوگوں کو بے چین کردیاہے اور یقیناً ا ن میں، میں بھی شامل ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قانون سازی بذات خود مسائل پیداکرنے والی ہے اوراین آرسی سے اس کی نسبت مزید کئی گنا دشواریوں کا باعث ہے۔ میں آسام میں این آر سی کے نفاذکے وقت عوامی ٹریبونل کا حصہ تھا ۔ میں نے وہاں دیکھا؛ گوکہ یہ عدالت کی سرپرستی میں چل رہا تھا یہ ایک تباہ کن ریاضت تھی جس کے نتائج انتہائی خوفنا ک تھے۔
شہریت ترمیم ایکٹ (سی اے اے) 2019 کے بعد ہونے والے احتجاج اور مظاہرے باعث حیرت نہ تھے لیکن جس انداز میں مظاہرین سے نمٹا گیا وہ ضرور حیرت انگیز تھا۔طلبا کی رہنمائی میں واضح طورپر چلنے والے پر امن احتجاج اور مظاہرے پر لااینڈآرڈر مشنری کا ردعمل ملک بھرمیں تشدد اور املاک کے نقصانات پر منتج ہواجو کہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے۔ یہ اس دور کی عکاسی ہے جس میں ہم رہتے ہیں اور اس بات کا اشارہ ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان کو ابھی ایسی لیڈرشپ سے لمبی لڑائی کرنے میں اپنا اچھاخاصا وقت صرف کرنا ہے جو بیک وقت فرقہ ورانہ اور آمرانہ ہے۔
ایسے وقتوں میں، ہمدردی ایک فطری ردعمل ہے،بالخصوص ایک ایسی نسل کی جانب سے جس نے بدترین آمرانہ حکومت یعنی ایمرجنسی کو دیکھا ہے۔اس تناظر میں مجھے ذاتی طورپر جو چیز سب سے زیادہ تکلیف دے رہی ہے وہ اس پوری بحث میں عدلیہ کی آواز ہے جو یاتوپوری طرح سے خاموش ہے یا پھر طاقتور انتظامیہ کے نیچے کہیں دب گئی ہے۔ سی اے اے کو پڑوسی ممالک(افغانستان‘ بنگلہ دیش اور پاکستان)کی مظلوم اقلیتوں (ہندو‘ سکھ‘ بدھ‘ جین‘ پارسیوں‘ اورعیسائیوں)کے لیے فطری طریقہ سے شہریت دینے کا ایک ‘فاسٹ ٹریک’ ذریعہ بتایا جارہا ہے۔ ان ممالک سے تعلق رکھنے والی اقلیت قانون کے مطابق ”غیر قانونی تارکین وطن“ نہیں کہلائے جائیں گے۔
جب سے یہ بل پیش ہوا ہے اور اس کے بعد بتدریج نافذ ہوا، ہم نے مختلف منظر نامے ابھرتے دیکھے جو اس قانون اور اس کے اطراف کی جانے والی سیاست کی توضیح کرنے والے مختلف النوع فریم ورک دکھاتے ہیں۔ ان میں جو سب سے بنیادی اور اہم نظریہ ہے‘ وہ یہ ہے کہ یہ قانون غیر دستوری ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ یہ دستورِ ہند کے آرٹیکل 14 میں دیے گئے حق مساوات کی نفی کرتا ہے۔ یہ دانستہ طورپر مسلمانوں کوبطور اقلیتی کمیونٹی الگ کردیتا ہے اور شہریت عطاکرنے کے لیے مذہبی شناخت کو بنیاد بناتا ہے اور اس طرح وہ دستور کی روح کو ختم کردیتا ہے۔ ہندوستانی شہریت عطاکرنے کے لیے مذہبی اقلیتوں پر ظلم کوجوازبنانے کی کوئی دستوری بنیاد نہیں ہے بالکل ایسے ہی جیسے صرف ان تین ممالک ہی کے افراد تک ‘فاسٹ ٹریک’ شہریت کو محدود کرنے میں کوئی منطق نہیں ہے۔
یقیناً‘ کسی بھی قسم کا ظلم تارکین وطن کو شہریت عطاکرنے کی واحد کسوٹی ہونی چاہیے۔ اس انداز میں ظلم کی تعریف کو محدود کرنا اس بنیاد کو ہی اکھاڑ پھینکتا ہے جس پر ہندوستانی جمہوریہ کی تعمیر کی گئی۔ یہ مساوات اور تنوع کے اصولوں کی بنیادپر کی گئی جدوجہد کو نظرانداز کردینے کے برابر ہے جس نے ہمیں آزادی دلائی۔منظر نامے کے دوسری جانب‘متبادل امکانات بھی موجود ہیں جو اس بیانیہ کو تقویت پہنچارہے ہیں کہ سی اے اے بالکل بھی نقصان دہ نہیں ہے اور اس کا مقصد صرف جائز نقل مکانی کے لیے تیز رفتار راستہ اور امان فراہم کرنا ہے۔ یہ کہناکہ سی اے اے نقصان دہ نہیں ہے، دستوری حیثیت پر اٹھائے گئے سوال سے بھی زیادہ اہم مسئلہ ہے، کیونکہ یہ اس بہترین ڈیزائن والے قالین کے اندر گھسنے کی کوشش ہے جس کا یہ قانون ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
آپ پوچھنا چاہیں گے کہ یہ بہترین ڈیزائن کیا ہے۔ اس کے اوپری حصے پر سی اے اے کے مضمرات ہیں یعنی ان افراد کو علیحدہ کردینا جن کا تعلق مسلم کمیونٹی سے نظرآتا ہو۔ اگر آپ قانون کی تفہیم کو محدود کردیں گے‘جیسا کہ حکومت کررہی ہے‘ یعنی اسے صرف تارکین وطن پر نافذ کرنا‘ تب یہ قانون ازخود مسلم تارکین وطن کوہندوستانی سرزمین پرآتے ہی سیکنڈ کلاس بنادے گا حالانکہ انہوں نے انہی وجوہات (غربت‘ سیاسی ظلم وستم‘وغیرہ) کی بنیادپر ہندوستان پہنچنے کے لیے لمبا سفرطے کیاجن وجوہات کی بنا پر ہندو یا عیسائی پڑوسی یہاں آئے ہیں۔ اگر آپ اس قانون کی تفہیم کا دائرہ کار بڑھائیں گے، جیسا کہ حکومت نے (این آر سی کو سی اے اے سے جوڑکر)یہ اعلانیہ طورپر کیا ہے، یہ پورے ہندوستانی مسلمانوں کو دوسرے درجے کاشہری بناسکتا ہے۔ اس طرح یہ قانون اور پالیسی سیکولرازم‘ بھائی چارے اور انسانیت کے دستوری اصولوں سے نہ صرف منہ موڑتا ہے بلکہ انہیں تباہ بھی کردیتاہے۔
اس جھوٹ کی جڑیں اس ثقافتی اور مذہبی قومیت کی آئیڈیالوجی میں پیوست ہیں جو ہندوتوا کے نمائندے مثلاًونایک دامودرساورکر اور اس قبیل کے لوگوں کی تھی‘جس کے تحت ساورکر کہتے رہے کہ ؛’ہندوراشٹر(مملکت)‘ہندو جاتی(نسل)‘ اور ہندوسنسکرتی (ثقافت)“ہی آئیڈیل ہیں۔ مذہبی قومیت کی شکل میں یہ آئیڈیالوجی ایک ہندو حکمرانی والی مملکت کا خواب دیکھتی ہے‘اکھنڈ بھارت (متحدہ بھارت) میں ایک ہندوراشٹر‘ اس یقین کی بنیاد پر کہ صرف ہندو ہی برطانوی ہندوستان کی زمین پران کے آباواجداد کی زمین یعنی پِتر بھومی اور ان کی مذہبی زمین یعنی پُنیہ بھومی کے طورپر دعویٰ کرسکتے ہیں۔ اس تناظر میں‘ مسلمان اور عیسائیوں کو بیرونی افراد کے طورپر دیکھا جائے گا جو ہندوستانی سرزمین سے تعلق نہیں رکھتے اور جن کے مذہب نے کسی اور مقدس سرزمین پر جنم لیا ہے۔
میرا ذاتی پس منظر اس بیانیے سے‘عمومی تصور سے کہیں زیادہ وابستہ ہے۔ میرے نانا 1940 کے دہائی میں ہندومہاسبھا کے صدر تھے اور میرے اسکول کے دنوں میں جو تحریریں میں نے سب سے زیادہ پڑھیں وہ ساورکرکی تھیں۔ 1938 میں جب ہٹلر اپنے عروج پر تھا‘ ساورکر نے اپنی تحریروں میں یہودیوں کے تئیں اور انہیں مادرِ وطن سے بھگانے کے لیے اپنائی گئی ہٹلر کی پالیسیوں کو صحیح ٹھہرایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ”کوئی ملک وہاں بسنے والی اکثریت سے تشکیل پاتا ہے۔ یہودی جرمنی میں کیا کررہے تھے؟ اقلیت ہونے کی بناپر انہیں جرمنی سے نکال باہر کیا گیا۔“ ایک بچے کی حیثیت سے میں جوکچھ پڑھ رہا تھا اسے جذب کرتے ہوئے اور ان کی شاعری کو سراہتے ہوئے(جوکہ آج بھی میں سراہتا ہوں)‘ میں مہاسبھا کے ایک ادارہ ہونے کے طورپر ہمیشہ سوال اٹھاتارہااوراس بات کو سمجھنے کی کوشش کی کہ آخر کون سی چیز انہیں اس حرکت پر اکسارہی ہے۔ اس دور میں بھی مجھے اپنے دور کے فسطائی آمروں بالخصوص ہٹلر اور مسولینی کے تیئں ساورکر کا یہ جنون کھٹک رہا تھا۔
پسماندگی‘ استبدادپسندی اور آئینی حیثیت پر ہندومہاسبھا اور اس کے جاں نشینوں کا نظریاتی موقف یکساں رہا ہے۔لیکن ان کی اس یکسانیت میں ایک ہندو راشٹرکے خیالی تصور میں اور ثقافتی‘ لسانی اور مذہبی تنوع والے جدید ہندوستان کی حقیقت سے اسے جداکرنے میں انہوں نے غلطیاں کی ہیں۔ چونکہ سی اے اے غیر اخلاقی ہے لہٰذا ایک عوامی تحریک ناگزیر اور لازمی ہے۔بصورت دیگر وہ بنیادی اصول جن پر ہندوستان کا دستوری تصور قائم ہے کسی ایسی چیز کے بدلے تباہ ہوجائے گا جو ہمیشہ کے لیے گہرے زخم چھوڑ سکتی ہے۔
سی اے اے کی مخالفت اور مظاہرے کے جواب میں چیف جسٹس آف انڈیا نے مبینہ طورپر کہا کہ اگر لوگ ”سڑکوں پر آنا“ چاہتے ہیں تو انہیں عدالتوں میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس بیان کو ایک وارننگ کے طورپر بھی لیا جاسکتا ہے کہ اگر انصاف حاصل کرنا ہو تو اس کے لیے اچھارویہ لازمی ہے۔ کسی بھی واقعہ کی صورت میں‘ ایک جمہوریت میں احتجاج کرنے اور عدالت سے رجوع کرنے کے دونوں راستے عوام کے پاس موجود ہیں اور دونوں ہی راستے درست ہیں۔ لیکن اس وقت عدلیہ سے کیا توقع کی جائے جب پوری سوسائٹی ہی احتجاج کرنے پر آجائے؟ اس صورت میں‘ جیسا کہ اب ہورہا ہے‘ مظاہرین کو اچھااور برا قراردینے کے درمیان کوئی واضح لائن نہیں ہے۔
تاریخی طورپر‘ ہندوستانی عدلیہ ایسے حالات سے نمٹنے کی ایک غیر واضح تاریخ رکھتی ہے جہاں وہ حتمی ثالث ہو۔بالخصوص اس وقت جب ایک طاقتور انتطامیہ کا معاملہ ہو تو عدالتیں غلطیاں کرنے لگتی ہیں۔ اس معاملے میں ایمرجنسی کی مثال لی جاسکتی ہے۔یہ ججوں کی موجودہ نسل کے لیے ایک نازک موڑ ہے کہ وہ ان غلطیوں کو درست کریں جو ان کے پیش رو پچھلے 40 سال سے ہندوستانی عوام کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ ہم ان تلافیوں کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔
(اجیت پرکاش شاہ دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور لاءکمیشن آف انڈیا کے سابق چیئر پرسن ہیں۔)
Categories: فکر و نظر