فکر و نظر

دیویندر سنگھ سے اوتار سنگھ تک: خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ

سکیورٹی فورسز والے افضل کو اکثر اٹھا کر اپنے کیمپوں میں لے جایا کرتے تھے، جہاں انہیں ٹارچر کیا جاتا اور بلا وجہ مارا پیٹا جاتا تھا۔ بعد میں یہ کام جموں و کشمیر کے اسپیشل آپریشن گروپ یعنی ایس او جی نے سنبھال لیا۔ ڈی ایس پی ونئے گپتا اور دیویندر سنگھ نے ان کی رہائی کے بدلے ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔

دیویندر سنگھ اور افضل گرو، فوٹو: پی ٹی آئی

دیویندر سنگھ اور افضل گرو، فوٹو: پی ٹی آئی

ہندوستانی دارلحکومت نئی دہلی میں اپنے 27سالہ صحافتی کیریئر کے دوران میں نے نہ صرف وقائع نگار کی حثیت سے کشمیر یا ہندوستان اور پاکستان کے حوالے سے رونما ہونے والے متعدد اعلانیہ یا پس پردہ واقعات کا مشاہدہ کیا،بلکہ نہ چاہتے ہوئے بھی بسا ا وقات حالات و حوادثات کا کردار بن گیا۔ پچھلے ہفتے جب خبر آئی کہ جموں و کشمیر پولیس نے اپنے ہی ایک ڈی ایس پی دیویندر سنگھ کو دو عسکریت پسندوں کو جموں لے جاتے ہوئے گرفتار کیا، تو میرے لئے اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ پچھلے 30برسوں میں کشمیر میں متعدد ایسے واقعات رونما ہوئے، جو عسکریت پسندوں کے کھاتے میں ڈالے گئے، مگر بعد میں معلوم ہواکہ یا تو ان میں ہندوستانی سکیورٹی ادراوں کے اہلکار براہ راست ملوث تھے  یا جانکاری ہوتے ہوئے بھی انہوں نے ان واقعات کو طول دےکرپروپیگنڈہ کے لیے بخوبی استعمال کیا۔

اپنی معرکتہ الآرا تفتیشی کتاب The Meadowsمیں برطانوی مصنفین ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکارٹ نے بتایا ہے کہ 1995میں جنوبی کشمیر میں  مغربی ممالک کے پانچ سیاحوں کو جب ایک غیر معروف تنظیم الفاران نے اغوا کیا، تو ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کو ان کے ٹھکانوں کے بارے میں پوری معلومات تھی۔ ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کے طیارے مسلسل ان کی تصویریں لے رہے تھے۔ مگر ان کو ہدایت تھی کہ سیاحوں کو چھڑانے کا کوئی آپریشن نہ کیا جائے، بلکہ اس کو طول دیا جائے۔ بعد میں ان سیاحوں کو ہندوستانی آرمی کی راشٹریہ رائفلز نے اپنی تحویل میں لے لیا۔مگر بازیابی کا اعلان کرنے کے بجائے ان کو موت کی نیند سلایا دیاگیا۔ مقصد تھا کہ مغربی ممالک تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی سے منسلک کرکے اس کی حمایت سے ہاتھ کھینچیں اور جتنی دیر سیاح مبینہ عسکریت پسندوں کے قبضہ میں رہیں گےپاکستانی مندوبین کے لیے مغربی ممالک میں جواب دینا اتنا ہی مشکل ہو جائےگا۔

اس واقعہ کے ایک سال قبل ہی مغربی ممالک انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے ہندوستان پر اقتصادی پابندیا ں عائد کرنے پر غور کر رہے تھے۔یہ واقعہ واقعی کشمیر کی جدوجہد میں ایک تاریخی موڑ ثابت ہوا۔اسی طرح جب معروف قانون دان اور حقوق انسانی کے کارکن جلیل اندارابی کے قتل میں ملوث میجر اوتار سنگھ کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے عدلیہ نے سکیورٹی ایجنسیوں پر دباؤبنایا، تو مذکورہ میجر کو راتوں رات پاسپورٹ اور ٹکٹ دیکر کنیڈا پہنچایا گیا۔ بعد میں وہ وہاں سے امریکہ منتقل ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ 2012 میں وہ خود ہی مکافات عمل کا شکار ہوگیا۔جب امریکہ میں اس کی موجودگی کا پتہ چلا تو اس نے دھمکی دی کہ اگر اس کوہندوستان  ڈیپورٹ کیا گیا تو وہ کئی راز طشت از بام کرےگا، جس کی لپیٹ میں سیکورٹی اداروں کے اعلیٰ ذمہ داران آئیں گے۔

دیویندرسنگھ کا نام نہ صرف 2001میں ہندوستانی پارلیامنٹ پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ میں آیا تھا، بلکہ جولائی 2005میں دہلی سے متصل گڑ گاؤں میں دہلی پولیس نے ایک ا نکاونٹر کے بعد چار افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ان کے پاس ایک پستول اور ایک وائر لیس سیٹ برآمد ہوا۔ گرفتار شدہ افراد نے دہلی پولیس کو ایک خط دکھایا،  جو  جموں و کشمیر سی آئی ڈی محکمہ میں ڈی ایس پی دیویندر سنگھ نے لکھا تھا، جس میں متعلقہ سکیورٹی ایجنسیوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ ان افراد کو ہتھیار اور وائر لیس کے ساتھ گزرنے کےلیےمحفوظ راہداری دی جائے۔ دہلی پولیس نے سرینگر جاکر دیویندر سنگھ سے اس خط کی تصدیق مانگی اور ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ بھی مارا، جہاں سے انہوں نے اے کے رائفل اور ایمونیشن برآمد کیا۔ یہ سب دہلی کی ایک عدالت میں دائر چارج شیٹ میں درج ہے۔ مگر دیویندر سنگھ کو گرفتار کرنے اور اس واقعہ کی مزید تفتیش کرنے کی کسی کو بھی ہمت نہیں ہوئی۔

مجھے یاد ہے کہ 2002میں جب  دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کی سیشن عدالت میں پارلیامنٹ پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کی سماعت چل رہی تھی، میں بھی ان دنوں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید تھا۔ افضل گرو اور پارلیامنٹ حملہ کے ملزمین تو ہائی سکیورٹی وارڈ میں بند تھے، مجھے جنرل وارڈ میں منتقل کیا گیا تھا۔ بیرک میں میرے ساتھ قتل کے الزام میں ماخوذ ایک قیدی اتبیر سنگھ کی سماعت بھی ایس این ڈھنگرہ کی عدالت میں چل رہی تھی، جہاں پارلیامنٹ کیس زیر سماعت تھا۔ اپنی سماعت کے انتظار میں اتبیر بغور پارلیامنٹ کیس کی کارروائی کا مشاہدہ بھی کر تا تھا۔ ایک بات بتاؤں کہ عادی مجرموں کو قانون کی حس اور ججوں کے موڈ وغیرہ کی ایسی معلومات ہوتی ہے کہ بڑے سے بڑا زیرک وکیل بھی ان کے سامنے پانی بھرے۔ وہ بس جج اور وکیل کا نام سن کر ہی بتاتے تھے کہ کیس کونسا رخ اختیار کرے گا۔

ایک روز عدالت سے واپسی کے بعد اتبیر نے میرے پاس آکر بتایا کہ پارلیامنٹ کیس میں افضل کا وکیل ٹھیک طرح سے بحث نہیں کر رہا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وکیل صاحبہ، جو سرکار نے مہیا کروائی تھی، اس کو پھانسی کے تختے کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اگرکسی طرح افضل کو اطلاع کرواؤں کہ اس کا کیس غلط رخ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ خیر میں تو خود اپنے کیس میں الجھا ہوا تھا اور مجھے خود معلوم نہیں تھا کہ میرے کیس کا کیا انجام ہوگا، پھر ہائی سکیورٹی وارڈ میں پیغام پہنچانا میرے بس میں نہیں تھا۔ آخر ایک دن جب مجھے عدالت میں پیشی کے لیے لے جایا جا رہا تھا، جیل آفس کے پاس جیل کی گاڑی کا انتظار کرتے ہوئے افضل اور ایس اے آر گیلانی بھی موجود تھے۔ خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد میں نے ان کو کم و بیش وہی کہا، جو اتبیر نے مجھے بتایا تھا۔ افضل نے بس میرے طرف دیکھ کر کہاکہ میں اپنے کام سے کام رکھوں اور اپنے کیس کی فکر کروں۔

جس اعتماد کے ساتھ اس نے گفتگو کی، مجھے لگا کہ اس کو شاید کسی نے اطمینان دلایا ہے کہ وہ بری ہو جائےگا۔ان کی جب سزا ہوئی، تو میں ان دنوں بھی جیل ہی میں تھا۔ باہر نکلنے کے بعد معلوم ہوا کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے چند وکلا ء اور سرینگر میں بھی چند خیر خواہوں نے ان کو کیس لڑنے کی پیش کش کی تھی، جو انہوں نے ٹھکرائی تھی۔ آخر کیوں؟ اس کا جواب مجھے کبھی نہیں مل پا یا۔


یہ بھی پڑھیں:کشمیری پولیس افسر دیویندر سنگھ کے ٹیرر لنک پر این ایس اے اجیت ڈوبھال سے چند سوالات


ہائی کورٹ میں جب  پارلیامنٹ کیس کی سماعت ہو رہی تھی، تو افضل کی اہلیہ تبسم نے ایک خط لکھ کر دہائی دی کہ دیویندر سنگھ نے ان کے شوہر کو حکم دیا تھا کہ چند افراد کو دہلی لے جاکر ان کےلیے رہائش کا بندوبست کرائے۔ ان ہی افراد نے بعد میں پارلیامنٹ پر دھاوا بول کر ہندوستان اور پاکستان کو جنگ کے دہانے پر کھڑا کر کے رکھ دیا۔ آخر یہ پانچ افراد اور ان کا سرغنہ محمد کون تھا اور ان کو دیویندر سنگھ کے ساتھ کیا رشتہ تھا؟ یہ افراددہلی آنے سے قبل سکیورٹی فورسز کے کیمپ میں کیا کر رہے تھے؟ تبسم کا کہنا تھا کہ افضل کو سیشن عدالت نے اس کے اقبالیہ بیان کے وجہ سے سزائے موت دی، مگر اسی اقبالیہ بیان کے اس حصے کو حذف کیا، جس میں دیویندر سنگھ کا ذکر تھا۔ تبسم نے لکھا کہ؛

1997 میں شادی سے قبل افضل نے کشمیر میں دواؤں اور سرجیکل آلات کی ایک چھوٹی سی دکان کھولی تھی۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ عا م زندگی بسر کرنا چاہتے تھے لیکن سکیورٹی فورسز نے ان کی زندگی اجیرن کردی۔ سکیورٹی فورسز کی طرف سے ان پر جاسوس بننے کے لئے مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہا۔جب افضل اس کے لئے آمادہ نہیں ہوئے تو ان پر اذیتوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ 22 ویں راشٹریہ رائفلز کے میجر رام موہن رائے نے ان کے شوہرپر اذیتوں کی انتہاکردی۔ ان کے پوشیدہ اعضاء پر بجلی کے جھٹکے لگائے گئے، سر عام گالیاں دی گئیں اور بے عزتی کی گئی، حالانکہ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ایک عام انسان کی طرح زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔

سکیورٹی فورسز والے افضل کو اکثر اٹھا کر اپنے کیمپوں میں لے جایا کرتے تھے، جہاں انہیں ٹارچر کیا جاتا اور بلا وجہ مارا پیٹا جاتا تھا۔ بعد میں یہ کام جموں و کشمیر کے اسپیشل آپریشن گروپ یعنی ایس او جی نے سنبھال لیا۔ ایس او جی والے انہیں پلہالن پٹن اور پھر ہم ہمہامہ بڈگام لے گئے۔ وہاں بھی انہیں اذیتیں دی گئیں۔ وہاں ڈی ایس پی ونئے گپتا اور دیویندر سنگھ نے ان کی رہائی کے بدلے ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔تبسم نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے اپنے تمام زیورات فروخت کردئے۔ ایس او جی کے کیمپ میں ان کے شوہر کو یخ بستہ پانی میں رکھا جاتا تھا اور ان کے معقد میں پٹرول ڈال دئے جاتے تھے۔شانتی سنگھ نامی ایک افسر نے تو زیادتی کی انتہا کررکھی تھی۔

اس نے میرے شوہر کو انتہائی سردی کی حالت میں ننگا کرکے الٹا لٹکا دیااور کئی گھنٹوں تک الٹا لٹکائے رکھا۔

تبسم نے خط میں  سوال کیا تھاکہ؛

 آخر  سکیورٹی فورسز والے ان کے شوہر کو جاسوس کیوں بنانا چاہتے تھے؟‘ افضل تو سکون کے ساتھ اپنے خاندان کے ساتھ رہنا چاہتے تھے لیکن سیکورٹی فورسز والوں نے آخر انہیں ایسا کرنے کیوں نہیں دیا؟

ایک دن دیویندر سنگھ نے ان کے شوہر سے کہا کہ انہیں ایک آخری کام دیا جائےگا اس کے بعد وہ ان کی دسترس سے دور ہوں گے۔ ان کو   ایک شخص کو کشمیر سے دہلی لے جانے کے لیے کہا گیا۔جب وہ ایس او جی کے کیمپ میں پہنچے تووہاں ان کی ملاقات محمد اور طارق نامی دو افراد سے کرائی گئی۔انہیں ان دونوں کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ جانتے تھے کہ آخر ان سے یہ کام کیوں لیاجارہا ہے۔ تبسم کہتی ہیں کہ؛

 افضل نے یہ تمام باتیں عدالت کو بھی بتائیں لیکن عدالت نے دو افراد کو لانے کا ان کا اعترافی بیان تو قبول کرلیا تاہم اس بات کو یکسر نظر انداز کردیا کہ ان دونوں سے ان کی ملاقات کہاں ہوئی تھی۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ نچلی عدالت میں انہیں اپنے دفاع کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ اعلیٰ عدالت نے بھی گواہوں کے ساتھ دوبارہ جرح کرنے اور اسپیشل آپریشن گروپ کو عدالت کے کٹہرے میں بلانے کی ان کی درخواست ٹھکرا دی۔

2013 میں افضل گرو کی پھانسی کے بعد گوکہ پارلیامنٹ پر حملے کا ایک باب تو بند ہوگیا لیکن وہ اپنے پیچھے کئی بڑے سوالات چھوڑ گیا۔ عدالت عظمیٰ نے افضل گرو کو پھانسی کی سزا سناتے وقت ”سماج کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن“ کرنے کا جواز پیش کیا تھا۔300سے زائد صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ پارلیامنٹ پر حملے کے معاملے میں مجرم کو صرف موت کی سزا ہی سماج کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرسکتی ہے۔

اسی طرح فروری 1996رمضان کا مہینہ تھا۔ دہلی میں ایک سفارت کار کے یہاں میں ایک افطار پارٹی میں مدعو تھا۔ وہاں کشمیر کے معروف قانوں دان جلیل اندرابی صاحب سے ملاقات ہوئی۔سکیورٹی فورسز کے خلاف کئی کیسوں کی پیروی کرنے کی وجہ سے و ہ خاصا نام کما چکے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کو کشمیر میں دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔ چند روز قبل ان کے گھر پر چند نامعلوم  ا فراد ان کواغوا کرنے کی نیت سے آئے تھے۔ اپنے مکان کی بالائی منزل میں چھپ کر انہوں نے ان کی کیمرے سے تصویریں اتاری تھیں۔ ان کی اہلیہ ان   افراد سے بحث کر رہی تھی کہ کالونی کے دیگر افراد اکھٹے ہوئے اور وہ فرار ہوگئے۔ کیمرے کے ساتھ جلیل پہلی فرصت میں فلائٹ لےکر دہلی آپہنچے۔ ان افراد کی شناخت آرمی کے راشٹریہ رائفلز کے راول پورہ کیمپ کے انچارج میجر اوتار سنگھ کے مخبروں کے طور پر ہو گئی تھی۔ دہلی میں انہوں نے وزیر داخلہ ایس بی چوان، نائب وزیرداخلہ راجیش پائلٹ، امریکی سفیر فرینک وائزنر اور دیگر راہنماوں سے ملاقاتیں کی اور ان کو بتایا کہ ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے اور ان کی جان کی حفاظت کی جائے۔

یا د آتا ہے کہ انہوں نے مجھے بھی یہ تصویریں دکھائی تھیں۔جلیل اندرابی نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا ان کا سری نگر واپس لوٹنا مناسب رہے گا۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ چونکہ انہوں نے اپنی جان کو لاحق خطرہ کے بارے میں حکومت وقت کے اعلیٰ ترین ارباب حل وعقد کو آگاہ کردیا ہے اس لئے اگر ایسے لوگوں کا سرکار سے کسی بھی طرح کا تعلق ہوگا تو وہ آپ کو نقصان پہنچانے کی اب شاید جرأ ت نہیں کریں گے۔ اس محفل میں موجود دیگر  افراد کی بھی  یہی رائے تھی۔ چونکہ عید کے دن قریب تھے اس لئے وہ میرے مشورے اور سیاسی لیڈروں اور رہنماؤ ں کی یقین دہانیوں سے کسی طرح مطمئن ہوکر باد ل ناخواستہ سری نگر لوٹ گئے۔لیکن ہمارا مشورہ اور ہماری امیدیں غلط ثابت ہوئیں۔عید کے روز 8مارچ 1996کو جب  جلیل اندرابی اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنی کار میں گھر لوٹ رہے تھے کہ میجر اوتار سنگھ کی سربراہی میں مسلح سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں روکا اور کار سے اتار کر اپنی گاڑی میں لے گئے۔

اسی شام کو تھانے میں اغوا کا ایک کیس درج کرایا گیا۔اس دوران جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ہائی کورٹ میں ایک عرضی بھی دائر کی لیکن آرمی اور بی ایس ایف نے جلیل اندرابی کی حراست کی تردید کی۔ جلیل اندرابی کے اغوا کے 19روز بعد 27مارچ کو جہلم میں ان کی لاش بہتی ہو ئی ملی۔ ان کے سر پر گولیاں ماری گئی تھیں اور ان کا بدن زخموں سے چھلنی تھا۔ان کی لاش ملتے ہی حکومت نے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی جس نے معمول کی کارروائیوں اور تفتیش کے بعد بالآخر10 اپریل1997کو عدالت میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں میجر اوتار سنگھ کا نام لیا گیا تھا۔عدالت نے مرکزی حکومت کو میجر اوتار سنگھ کا پاسپورٹ ضبط کرنے اور نیا پاسپورٹ فراہم کرنے سے روکنے کا حکم دیا۔ اس نے میجر کی سروس فائلیں بھی چار ہفتے کے اندر پیش کرنے کی ہدایت دی۔ چونکہ کیس ایک معروف قانون دان کا تھا، جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے میجر اوتار سنگھ کی گرفتاری کے احکامات صادر کردئے۔

مگر اوتار سنگھ روپوش ہوچکا تھا۔ 2012میں 47 سالہ میجر نے امریکی شہر کیلی فورنیامیں اپنی بیوی اوردو بچوں کو قتل کرنے کے بعد اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔میجر نے مقامی پولیس کو فون کرکے پہلے اپنے کنبے کو ہلاک کرنے کے بدترین جرم کی اطلاع دی جس کے بعد اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کرلیا۔پولیس کے مطابق اوتار سنگھ کی بیوی اور تین سالہ بچے کی لاشیں ان کے بیڈروم میں ملیں۔اس کے دوسرے بیٹے‘ جس کی عمر پندرہ سال بتائی گئی ہے کی لاش دوسرے کمرے میں پائی گئی‘ خود اوتار سنگھ کی لاش بھی ایک کمرے میں ملی۔اس کے علاوہ پولیس نے اوتار سنگھ کے ایک اور بیٹے‘ جس کی عمر سترہ سال بتائی گئی ہے کو انتہائی زخمی حالت میں مکان سے برآمد کیا۔ یہ انصاف کا گلا گھونٹ دینے کا ہی انجام تھا کہ  میجر اوتار سنگھ کی بیوی اور بچے بھی ان کے خونی کھیل کا شکار ہونے سے بچ نہیں سکے۔

ان کے سیاہ کارناموں کی فہرست اتنی طویل تھی کہ شاید ہی دنیا کی کوئی عدالت انہیں اْن کے گناہوں کے برابر اور قرار واقعی سزا دیتی۔ اوتار سنگھ نے 90 کی دہائی میں کشمیر میں اپنی تعیناتی کے دوران مبینہ طور پر متعدد بے گناہوں کوموت کے گھات اتار دیا تھا۔ حکومت  میجر کی ظالمانہ حرکتوں اور بھیانک جرائم سے پوری طرح واقف تھی، مگر اس کے باوجود نہ صرف انہیں ملک سے بھاگنے میں سرکاری طور پر مدد فراہم کی گئی بلکہ امریکہ میں اپنا بزنس قائم کرنے اور قانون کے شکنجے سے دور رکھنے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ یہ قتل ایسے لوگوں نے کیا تھاجو کشمیر میں حکومت کی نمائندگی کرتے تھے‘جو خود کو قانون سے بالا ترسمجھتے تھے‘جنہیں غیر قانونی حرکتوں پر کسی طرح کی شرمندگی یا پشیمانی نہیں تھی اور جنہیں قانون و انصاف کا کوئی خوف نہیں تھا۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ چاہیے دیویندر سنگھ ہو یا اوتار سنگھ؛

لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں

خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ