ہندوستان جیسے ثروت مند ملک میں جہاں تمام مذاہب کے لوگ عزت ووقار سے رہتے ہیں اور آپ سے ترغیب شدہ ہمارا آئین سب کو برابری کا حق دیتا ہیں۔ یہاں مذہب کی بنیاد پر پناہ گزینوں میں فرق ہو رہا ہے اور شہریت عطا کرنے میں گھٹیا دائرے سے مذہبی بنیاد کو دیکھا جانےلگا ہے باپو!اس نئے قانون کے بعد آپ کے ہم سفرساتھیوں کے ذریعے تشکیل دی گئی آئین کی تمہیدبیگانی سی لگ رہی ہے۔
پیارے باپو،
آداب…
آپ کہیںگے اتنی جلدی جلدی خط کیوں لکھ رہے ہو تو میرا جواب ہوگا کہ چونکہ یہ اداس موسم بدلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تو کیا کہیں اور پھر کس سے کہیں۔ آپ کے سوا کس سے جاکر اپنی شکایت کریں۔ بات ہی کچھ ایسی ہے کہ آپ کو اس افسانے میں لانا ضروری سا ہو گیا ہے۔ گزشتہ مہینوں میں ملک میں الگ الگ مزاحمت اور عدم اتفاق کی آوازیں لگاتار بلند ہوتی جا رہی ہیں۔ ملک کا کوئی بھی حصہ آئینی جذبے اوراقدار کو بچانے کی اس غیرمعمولی کوشش سے اچھوتا نہیں ہے۔
کپڑوں سے پہچاننے کافسانہ آیا تو ان تحریکوں کے ہم سفرساتھیوں نے اور بھی تیور کے ساتھ بائیں ہاتھ پر کالی پٹی باندھی، داہنے میں آئین لیا اور کندھے پر ترنگا لہرا کر یہ بتا دیا کہ یہ ملک محض کاغذ پر بنا ایک نقشہ نہیں ہے، بلکہ انسانی رشتوں کے فطری پن اور گرماہٹ اس کی بناوٹ اور بُناوٹ میں ہے۔ پھر ایک بار احساس ہواکہ اسے یوں ہی’سارے جہاں سے اچھا نہیں کہتے…’ان مظاہرین نے آپ کی تحریکوں کی قواعد سے بہت کچھ حاصل کیا اور باوجود اقتدار کے اکساوے کے پرامن طریقے سےعدم اتفاق اور احتجاجی مظاہرہ کے راستے سے بےچین نہیں ہو رہے ہیں۔
ٹھیک آپ کے سول نافرمانی کی طرز پر ملک میں سینکڑوں جگہ’شاہین باغ’اٹھ کھڑے ہوئے۔ اچانک لوگوں نےدیکھا کیا ہوتا ہے ‘آنچل کا پرچم ہو جانا ‘۔آئیے مزاحمت کی ان آوازوں کو سمجھنے سے پہلے ذرا چند تواریخ پر غور کریں۔گزشتہ دسمبر کی 11ویں تاریخ کو اس بل (شہریت ترمیم بل)کو راجیہ سبھا میں پیش ہونا تھا۔ 10 تاریخ کی شام سے ہی ملک بھر سے فون آنے لگے۔ کچھ آشنا لیکن زیادہ تر کالر ایسے تھے جن کو میں ذاتی طور پر جانتا نہیں تھا۔ ملک کے مختلف حصوں سے آئے ان فون کال میں زبان کےتنوع کے باوجود تشویش ایک جیسی تھیں۔
سب کہہ رہے تھے کہ شہریت ترمیم کا یہ بل اگر قانون بن گیا تو یہ آپ کا پیارا ملک ویسا نہیں رہ جائےگاجیسا آپ چھوڑ گئے تھے اس ہدایت کے ساتھ کہ کسی بھی قیمت پر آئینی قدروں پر آنچ نہ آئے۔آنچ تو چھوڑیے باپو!اس نئے قانون کے بعد آپ کے ہم سفرساتھیوں کے ذریعے تشکیل دیے گئے آئین کی تمہید بیگانی سی لگ رہی ہے اور کئی آئینی اقدار و روایات غیر ہو گئی ہیں۔
اس عظیم الشان تہذیب اورتکثیری ملک کے کردار کو سیاہ کرنے کی کوششیں کافی آگے بڑھ گئی ہیں۔ جھوٹ کی جیت کی ایسی ہوا چل پڑی ہے بڑے-بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ بڑی ہی بے شرمی سے آپ کےنام کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کچھ ایسا ہی چاہتے تھے۔شاید ایک 30 جنوری سےبات نہیں بنی تو اس جھوٹ کو چلا چلا کر دوہراتے ہوئے، دھمکی کی آواز کی وجہ سے ہر دن ‘تیس جنوری’سا بنایا جا رہا ہے۔
ہندوستان جیسے ثروت مند ملک میں جہاں تمام مذاہب کے لوگ عزت ووقار سے رہتے ہیں اور آپ سے ترغیب شدہ ہماراآئین سب کو برابری کا حق دیتا ہیں۔ یہاں مذہب کی بنیاد پر پناہ گزینوں میں فرق ہورہا ہے اور شہریت عطا کرنے میں گھٹیادائرے سے مذہبی بنیاد کو دیکھا جانے لگا ہےباپو!لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ آپ کی 150ویں سال گرہ میں آج کی حکومت جناح کو سچا اور آپ کے نظریات کو جھوٹاوربے معنی قرار دینے پر آمادہ ہیں۔
یہ محض آپ کو ہی نہیں بلکہ سوامی وویک آنند کی سوچ اور سمجھ کو خارج کرنے کی خواہش ہے، جس میں استحصال کو صرف مذہب کے چشمے سے دیکھا جائےگا۔ اب کے بعد اسرائیل اور ہندوستان کا فرق مٹادیا جائےگا۔ لیکن باپو!پریشان ہونے کی زیادہ ضرورت نہیں…ایوان میں جیتنے کے باوجود یہ لوگ سڑکوں، یونیورسٹیوں اور کھیت-کھلیان میں ہار رہے ہیں۔ سڑکوں نے قانون سازمجلس اور حکومت کے غرور اورضدکو غیر معمولی چیلنج دے ڈالا ہے۔
لوگ آپ کی اور باباصاحب کی تصویر ایک ساتھ لےکر سڑکوں پر اتر چکے ہیں وہ گھر نہیں جا رہے، خواتین اپنے چھوٹے-چھوٹے بچوں کو لےکر کپکپاتی سردی میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھ رہی ہیں۔اور یہ اپنی جائیدادبڑھانے اور بچانے کے لئے جدو جہد نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ملک کی جیسی تعمیر آپ نےکی تھی اس کو کسی بھی قیمت پر سنجوئے رکھنے کے لئے پرعزم ہیں۔
لاکھوں کی تعداد میں ڈر کو پیچھے چھوڑکر آپ کے لوگ آپ کے بتائے راستے پر چلتے ہوئے آج کی حکومت کو نفرت اور شدیدنفرت کا نہیں بلکہ صحت یاب مکالمے کا پیغام دے رہے ہیں اور ادھر یہ عالم ہے کہ عہدیدار لوگ کہہ رہے ہے کہ ‘ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیںگے…’باپو آج اگر آپ ہوتےتو کیا کرتے؟ جہاں تک میں سمجھ پاتا ہوں آپ شاہین باغ کی ان خواتین کے ساتھ دری پربیٹھ جاتے جنہوں نے آپ سے ہی سیکھا ہے کہ حریف سے بھی غیر متشدد برتاؤ اور سنجیدہ مکالمہ کیا جائے۔
آپ سے کیا کہیں اورکتنا کہیں باپو کہ آپ ہی کے اپنے ملک کی حکومت چلانے والے لوگوں کی زبان نوآبادیاتی حکمرانوں کو بھی پیچھے چھوڑ رہی ہے۔ مثلاً شہریت ترمیم قانون کے احتجاج کی عوامی آواز کو چیلنج کرتے ہوئے ایک وزیر کہتے ہیں،’چاہے آپ جتنی بھی مخالفت کر لو، ہم ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیںگے’،اور دوسرےدہلی کی انتخابی ریلی میں کہتے ہیں،’ملک کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو…’
اور بھی کئی ہیں جن میں ایک کی زبان اور تاثر دیکھیے۔ ان کا کہنا ہے کہ مخالفت کرنے والوں کو زندہ جلا دینا چاہیے۔ شاید انگریزوں کے خلاف ہماری آزادی کی تحریک کے دوران بھی اس طرح کی زبان کا استعمال ہمارے نوآبادیاتی حکمرانوں کی طرف سے بھی نہیں ہوا تھا۔باپو!عجب سی سنک سوارہے، اتنا خوفناک جنون سا پھیل رہا ہے۔ گاؤں کی گلیوں سے لےکر شہر کےچوک-چوراہوں میں خاردار زہریلی دیوار بچھائی جا رہی ہے اور یہ سلسلہ کچھ سالوں سے بڑی تیز رفتار سے چل رہا ہے۔نتیجتاً آپ کے قاتل کو محب وطن بتانے والے قانون سازمجلس پہنچ چکے ہیں۔
کم وبیش یاد آتا ہے1946 سے لےکر 30 جنوری 1948 کے عہد کے جنون اور دیوانگی اس دور میں جب ملک تقسیم ہو رہا تھا تب آپ اکیلے مذہبی جنون اور اس پاگل پن کے خلاف کھڑے تھے۔آپ کے بے حد پرانےمددگار پیارےلال جی، آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ میں ‘ نبی’اور ایک سلجھےہوئےعملی سیاستداں کا حیرت انگیز امتزاج تھا۔ اس باپو نے اپنی اکیلی موجودگی سے سرحد کےادھر اور ادھر کے تشدد کے رقص پر قدغن لگا دیا تھا۔ نفرت ایک بار پھر محبت سے ہارگئی تھی۔
لوگ جانتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے پھر بھی حالات کے مدنظر آپ کی شہادت کے 72ویں سال میں آپ کی واپسی چاہتےہیں۔ آج پورے ملک کی سڑکوں پر اتریں خواتین اور یونیورسٹیوں کے طالب علم اپنے باپوکو بڑی شدت سے ڈھونڈ رہے ہیں، تاکہ آپ کے ساتھ ملکر بڑے پیار سے حکمرانوں سےرگھوپتی سہائے عرف فراق گورکھپوری کی زبان میں یہ کہہ سکیں…
سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراقؔ
قافلے بستے گئے ہندوستاں بنتا گیا
لکھنے-بولنے کو تو اوربھی بہت ہے باپو لیکن ایک خط میں کتنا لکھوں اور کیا-کیا لکھوں۔ بس اتنا ضرور کہناچاہوںگا کہ آپ کی سوچ والے لوگ تھوڑے مایوس اور پریشان سے ہو گئے ہیں۔
آپ کا ایک ادنی اورتنہا سپاہی۔
(مضمون نگار راشٹریہ جنتا دل کےراجیہ سبھا ممبر ہیں۔ )