گلوبل ایمرجنسی کے تناظر میں یہ وائرس عالمی معیشت کے لیے شدید خطرے کا باعث بن رہا ہے۔ ایسا امکان ہے کہ سارس وائرس کے پھیلاؤ کے وقت عالمی اقتصادیات کو جن خطرات کا سامنا ہوا تھا، اس نئے وائرس سے وہ خطرات کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔
نئی دہلی : ڈبلیو ایچ او نے کورونا وائرس کی نئی قسم کے تناظر میں بین الاقوامی ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کردیا ہے۔ اس وائرس میں مبتلا مریضوں کی ڈیڑھ درجن سے زائد ممالک میں تشخیص کی جا چکی ہے۔ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہونام نے کورونا وائرس کے تدارک کے لیے چین کے اقدامات کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے کہا، ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کرنے کی ایک اہم وجہ وہ خدشہ یہ ہے کہ یہ ان ملکوں تک پھیل رہا ہے جہاں صحت عامہ کا نظام کمزور ہے اور جو اس سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل نے اس مہلک وائرس کے تدارک کی ویکسین کے لیے عالمی برادری سے مشترکہ کوششیں شروع کرنے کی اپیل کی ہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی ہیلتھ ایمرجنسی کے نفاذ کی بنیادی وجہ اس مہلک وائر س سے چین میں پیدا صورت حال نہیں بلکہ دیگر ممالک کو ممکنہ طور پر درپیش خطرات ہیں جہاں ہیلتھ کیئر کا نظام کمزور ہے۔ اس لیے چین کے ووہان شہر میں تین ہفتہ پہلے پھوٹنے والے وائرس پر قابو پانے کے لیے ایک مربوط عالمی ردعمل کی ضرورت ہے۔
کورونا وائرس سے چین میں پچھلے 24 گھنٹوں میں مزید 42 اموات کے ساتھ ہلاکتوں کی تعداد 212 ہوگئی ہے جب کہ دس ہزار افراد اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔دریں اثناجرمنی میں کورونا وائرس کے پانچویں مریض کی تشخیص ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ اٹلی میں دو افراد میں اس وائرس کی نشاندہی ہوئی ہے۔ یورپ میں سب سے پہلے فرانس میں بھی اس وائرس میں مبتلا مریض کی تصدیق کی گئی تھی۔ کئی اور ممالک جہاں وائرس میں مبتلا مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے اُن میں ہندوستان، تھائی لینڈ، فرانس، امریکہ، آسٹریلیا، جنوبی کوریا، فرانس، تائیوان، آسٹریلیا اور جاپان بھی شامل ہیں۔
جنوبی کوریا، فرانس اور برطانیہ نے متاثرہ صوبے سے اپنے شہریوں کا انخلا شروع کردیا۔ روس نے چین کے ساتھ ملحق سرحد بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ امریکہ نے اپنے شہریوں کو چین کا سفر نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس سے قبل متعدد بین الاقوامی فضائی کمپنیاں چین کے لیے اپنی پروازیں معطل کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اور چند ایک کمپنیوں نے پروازیں کم کر دی ہیں۔
کورونا وائرس سے عالمی معیشت لڑکھڑا سکتی ہے!
دنیا کی دوسری بڑی اقتصاديات کے حامل ملک چین کے سبھی علاقوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تشخیص ہو چکی ہے۔ گلوبل ایمرجنسی کے تناظر میں یہ وائرس عالمی معیشت کے لیے شدید خطرے کا باعث بن رہا ہے۔عالمی مالیاتی منڈیوں کو چین میں جنم لینے والے کورونا وائرس کی نئی قسم کے پھیلاؤ سے شدید خطرات لاحق ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا امکان ہے کہ سارس وائرس کے پھیلاؤ کے وقت عالمی اقتصادیات کو جن خطرات کا سامنا ہوا تھا، اس نئے وائرس سے وہ خطرات کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔
دنیا بھر کی مالیاتی منڈیوں میں مندی کا رجحان ایسے وقت میں غالب ہے جب چین میں نمونیا بیماری کا سبب بننے والے وائرس سے ہلاکتیں دو سو دس سے تجاوز کر چکی ہیں۔ کم از کم بیس ممالک میں اس نئے وائرس کے مریضوں کی تشخیص ہو چکی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والی ويکسين کی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
عالمی اقتصادی صورت حال پر نگاہ رکھنے والے بین الاقوامی ادارے اکانومسٹ انٹلی جنس یونٹ کی سینئر اہلکار اگاتھا ڈیماریس کا کہنا ہے کہ مالیاتی منڈیوں کو سردست جس خطرے کا سامنا ہے، وہ چند روزہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ صورت حال اُس وقت شدید ہو جائے جب سرمایہ کاروں کو مجموعی حالات کے بے قابو ہونے کا اندیشہ لاحق ہو گا۔ اگاتھا ڈیماریس اکانومسٹ انٹلی جنس ادارے میں مستقبل کی معاشی صورت حال پر نگاہ رکھنے والے شعبے کی ڈائریکٹر ہیں۔
چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت رکھتا ہے اور ایک طرح سے اپنی بڑی آبادی اور پیداواری صلاحیت کے تناظر میں اسے دنیا کی ‘فیکٹری‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ عالمی تجارت میں چینی مصنوعات کا ایک اہم کردار ہے اور عالمی سپلائی میں بھی یہی مصنوعات انتہائی اہم خیال کی جاتی ہیں۔ عالمی اقتصادی ماہرین چین میں وائرس کے وسیع پھیلاؤ سے بین الاقوامی معیشت شدید طور پر متاثر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ماہرین ابھی بھی اس صورت کا صرف اندازہ لگانے میں مصروف ہیں کہ مجموعی معاشی نقصانات کتنے گہرے ہو سکتے ہیں۔
وائرس کے مسلسل پھیلنے سے چین کی مجموعی شرح پیداوار کے بھی متاثر ہونے کے قوی امکانات ظاہر ہونا شروع گئے ہے۔ چینی اکیڈمی برائے سوشل سائنسز سے وابستہ ماہر اقتصادیات ژانگ مِنگ کا کہنا ہے کہ رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں یہ پیداوار ایک سے پانج فیصد تک کم یا اس بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ چینی شہروں میں پچیس جنوری سے شروع ہونے والے نئے قمری سال کے آغاز پر طلب اور رسد میں واضح فرق پیدا ہو چکا ہے۔
عالمی سپلائی کے متاثر ہونے کا بھی امکان جنم لے چکا ہے کیونکہ چینی قمری سال کے موقع پر بند ہونے والی فیکٹریوں اور کارخانوں کی بندش طویل ہو سکتی ہے کیونکہ ابھی تک چین ہی کے اندر کورونا وائرس کی افزائش کو محدود کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ مختلف صوبوں کے درمیان ٹرانسپورٹیشن بھی کم کی جا چکی ہے اور قمری سال کی تعطیلات پر گئے ہوئے ورکرز کو واپسی میں انتظامی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
کئی بین الاقوامی اداروں کو اپنی مصنوعات کی تیاریوں میں مشکلات حائل ہو گئی ہیں۔ ایپل نے اگلی سہ ماہی میں اپنے پیداواری صلاحیت کے تسلسل میں غیریقینی کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح امریکی کار ساز ادارے ٹیسلا کو بھی پروڈکشن میں سست روی کا سامنا ہے۔ ٹیسلا نے چینی شہر شنگھائی میں کار سازی کا کارخانہ حال ہی میں کھولا ہے۔ اِس فیکٹری کو مشلات کا سامنا یقینی ہے کیونکہ کار سازی کے بعض پرزوں کی پروڈکشن ووہان میں قائم دو فیکٹریوں میں کی جاتی ہے۔
ووہان ہی میں کورونا وائرس کی نئی قسم کا جنم ہوا ہے۔ اور اس وقت یہ شہر پوری طرح حکومتی نگرنانی میں ہے اور بقیہ چین سے کٹ کر رہ گیا ہے۔
(ڈی ڈبلیو اردو کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں